جو تیری محبت میں گنہگار بہت تھا
تجھے کیا خبر وہ تیرا طلبگار بہت تھا
تجھے یاد یاد کرتے کوئی شخص مر گیا ہے
دنیا جسے سمجھتی ہے وہ بیکار بہت تھا
تم ساتھ اگر چلتے تو محسوس نہ ہوتا
وہی راستہ جو میرے لئے دشوار بہت تھا
جو کہتا تھا میں لوٹ کے واپس نہ آؤنگا
وہ چھوڑ کر بھی مجھ کو شرمسار بہت تھا
مجھ کو کہاں خواہش تھی عزیزو اقارب کی
رونے کو میری لاش پہ میرا یار بہت تھا
ساجد کو کیا ضرورت تیرے قرب کی جاناں؟
اپنے لئے تو بس تیرا دیدار بہت تھا