کام آئے نہ استعارے تک
لفظ پُہنچے نہیں ہمارے تک
آسرا ہے ترا گِروں گا نہیں
یار میرے، ترے سہارے تک
کس لئے در بدر بھٹکتے ہو
آؤ چھوڑ آؤں میں کنارے تک
عشق نے کھینچ ہی لیا آخر
آ گیا لوٹ کے تمہارے تک
توڑ لاتا کسی کی خاطر میں
ہاتھ پہنچا نہیں ستارے تک
یہ تو خصلت ہے آدمی کی میاں
بعض آتا نہیں خسارے تک
کیسا عاشق ہے وہ ترا شوبی
جو سمجھتا نہیں اشارے تک