جو بھی اپنے وڈیرے ہیں
سب کے سب لٹیرے ہیں
انکی راہیں روشن ہیں
ہمارے لیے اندھیرے ہیں
کھانے پینے اور رہنے کی
سوچیں ہم کو گھیرے ہیں
ہمیں وطن کی مٹی پیاری ہے
ان کے باہر بسیرے ہیں
انصاف کی توقع کریں کس سے
مرضی کے پنچائیت اور ڈیرے ہیں
اے وطن تو اکیلا ہے
اور تجھے کھانے والے بتیرے ہیں
عثمان انکی باتوں میں آنا مت
یہ تیرے ہیں نہ میرے ہیں