بی بی سی کے کردار کے متعلق پیٹر کاسمنسکی کے انکشافات

عالمی سطح پر بی بی سی کے ادارے کی کارستانیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ اس وقت بی بی سی کا ادارہ پاکستان کے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی سے کم نہیں ہے۔اگر چہ پاکستان میں نوجوان نسل سوشل میڈیا پر کافی فعال ہے اور مقامی میڈیا پر زیادہ توجہ نہیں دے رہیء ان حالات میں بی بی سی جیسے ادارے نے سوشل میڈیا کا محاذ بھی خالی نہیں چھوڑا اور جعل سازی کے ذریعے فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ پر فالوورز کی غیر معمولی تعداد حاصل کر لی ہے تا کہ سوشل میڈیا کی طرف رجوع کرنے والے لوگ بی بی سی کے پِھیلائے گئے زہر کے اثرات سے نہ بچ سکیں۔

بی بی سی چئیرمین پیٹر کاسمنسکی

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے شعور کی بیداری میں مثبت میڈیا کا اہم کردار ہے آج ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ کسی نہ کسی طرح میڈیا جنگ کا حصہ ہیں اگر کسی کمیونٹی کو مناسب پلیٹ فارم نہیں ملتا تو اپنے افکار کو عام کرنے کے لئِے ان کے لئے سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم موجود ہے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی وسعت سے پہلے صرف اخبارات ہوتے تھے اور رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے سیاسی و مذہبی جماعتیں پروپیگنڈے کا سہارا لیتی تھیں۔

لیکن ہر دور میں میڈیا کی باگ دوڑیں طاقتور لوگوں کے ہاتھوں میں رہیں کل اگر ایک خبر کو چھپنے سے پہلے مختلف طریقوں سے روکنے کے لئے کوششیں کی جاتی تھیں تو آج بھی صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔اگر آپ آج کوئی بھی نیوز چینل اوپن کریں تو اس کی تمام تر ہمدریاں جانچنے کے لمبے چوڑے تجزیوں کی ضرورت نہیں ہے۔

بلکہ جونہی کسی چینل کا نام سامنے آتا ہے تو اس کی پالیسی اور جانبداری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔مثال کے طور پر پی ٹی وی سو فیصد حکومتی پالیسیوں کا ترجمان ہے اسی طرح دوسرے مختلف چینل مختلف سیاسی جماعتوں کے ہمدرد ہیں میرے ذاتی خیال میں اس وقت آپ پاکستان میں کسی ایسے چینل کا نام نہیں لے سکتے جو مکمل طور پر غیر جانبدار ہو۔

یہ حال کسی ایک ملک کے میڈیا کا نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں تقریبا یہی صورتحال حاکم ہے۔انہی حالات کے تناظر میں ہم عالمی میڈیا کو دیکھتے ہیں تو وہاں بھی صورتحال ذرا بھر مختلف نہیں ہوتی۔وہاں بھی عر عالمی نشریاتی ادارے کے اپنے اہداف ہیں جن کے لئے وہ کام کرتا ہے ایک دور تھا جب پوری دنیا میں بی بی سی ایک معتبر ادارہ سمجھا جاتا تھا۔

اور شاید ایک وقت تک بی بی سی نے اپنے معتبر ہونے کی حیثیت کو قائم رکھا لیکن بعد میں انگلنڈ کی خفیہ ایجنسیوں اور حکومت کی مداخلت سے یہ عالمی ادارہ بھی عام ڈگر سے ہٹ کر چلنے میں ناکام رہا کچھ عرصہ پہلے ایک ایواڑد تقریب میں بی بی سی کے سی او نے واضح اور واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ ہمارا ادارہ آزاد نہیں ہے ایک دور تھا جب یہ ادارہ عوام کا ادارہ تھا اس کی پالسی آزاد تھی لیکن آج ہمیں حکومت نے اس مقام پر آکھڑا کیا ہے کہ حکومتی نمایندے ناصرف بی بی سی کی پالیسی بناتے ہیں۔

بلکہ حکومت کے ۶ نمایندے بی بی سی کے آڈیٹوریل بورڈ میں شامل ہیں۔بی بی سی چیف کا کہنا تھا کہ میں میڈیا کی آزادی کے لئے لڑ رہا ہوں لیکن میں اس حوالے سے مایوس ہوں۔ان انکشافات کے بعد بی بی سی پر کافی انگلیاں اٹھیں لیکن بی بی سی کا ادارہ اس وقت ترقی پذیر ممالک میں اس حد تک اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے کہ اس کا راستہ روکنا کسی بھی طور ممکن نہیں ہے اور پاکستان جیسے ملک میں تو شاید اس طرف دھیان ہی نہ دیا جائے۔لیکن عالمی سطح پر بی بی سی کے ادارے کی کارستانیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ اس وقت بی بی سی کا ادارہ پاکستان کے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی سے کم نہیں ہے۔اگر چہ پاکستان میں نوجوان نسل سوشل میڈیا پر کافی فعال ہے اور مقامی میڈیا پر زیادہ توجہ نہیں دے رہیء ان حالات میں بی بی سی جیسے ادارے نے سوشل میڈیا کا محاذ بھی خالی نہیں چھوڑا اور جعل سازی کے ذریعے فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ پر فالوورز کی غیر معمولی تعداد حاصل کر لی ہے تا کہ سوشل میڈیا کی طرف رجوع کرنے والے لوگ بی بی سی کے پِھیلائے گئے زہر کے اثرات سے نہ بچ سکیں۔

ڈاکٹر سید وسیم اختر
About the Author: ڈاکٹر سید وسیم اختر Read More Articles by ڈاکٹر سید وسیم اختر: 26 Articles with 21498 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.