کب راج کرے گی خلقِ خدا

کب راج کرے گی خلقِ خدا
✍🏻: علی عباس کاظمی (روپوال، چکوال)
رابطہ : 00365678000
؎ وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے
نہ وہ سورج نکلتا ہے ، نہ اپنے دن بدلتے ہیں
(حبیب جالب)
ہر سال اگست کا مہینہ پاکستان کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ جب ہم 14 اگست کو اپنی آزادی کا جشن مناتے ہیں وہ دن جب ہمارے اسلاف نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے یہ آزاد وطن حاصل کیا۔ سڑکیں سبز و سفید جھنڈیوں سے سج جاتی ہیں، گھروں پر قومی پرچم لہراتا ہے اور ہر طرف وطن کی محبت کا جوش و خروش عروج پر ہوتا ہے۔ بچے ملی نغموں پر جھومتے ہیں، نوجوان اپنے وطن کے لیے فخر سے سر اٹھاتے ہیں اور بزرگ اپنی قربانیوں کی داستانوں کو دہراتے ہیں۔ لیکن اس جشن کے پس منظر میں ایک ایسی حقیقت چھپی ہے جو دل کو چھلنی کر دیتی ہے۔ یہ ایک عام پاکستانی شہری کی کہانی ہے جو مہنگائی اور بے روزگاری کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ اس کے دل میں وطن کی محبت تو موجزن ہے لیکن معاشی غلامی اسے آزادانہ سانس لینے سے روک رہی ہے۔
علامہ محمد اقبالؒ نے کہا تھا "ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا " لیکن آج کا غریب شہری جب اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے نکلتا ہے تو اسے مہنگائی کی چکی میں پسنا پڑتا ہے۔ آزادی کا مطلب صرف سیاسی آزادی نہیں بلکہ معاشی، سماجی اور ذہنی آزادی بھی ہے۔ بدقسمتی سے آج کا عام شہری اس آزادی سے محروم ہے۔ اس کا گلستاں کانٹوں بھری راہ بن چکا ہے جہاں ہر قدم پر مشکلات اس کا انتظار کر رہی ہیں۔ آٹا، چینی، دال، خوردنی تیل، بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ ایک مزدور جو روزانہ 800 سے 1000 روپے کماتا ہے وہ اپنی آمدنی کا 70 فیصد صرف کھانے پینے پر خرچ کرتا ہے۔ بجلی کے بل، کرایہ، علاج معالجہ اور بچوں کی فیسیں اس کے لیے خواب بن جاتے ہیں۔
مہنگائی پاکستان کے لیے ایک لاعلاج مرض بن چکی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ بجلی اور گیس کے بلوں میں بھی ہر چند ماہ بعد اضافہ ہوتا ہے جو ایک عام شہری کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ ایک عام پاکستانی خاندان جو پہلے اپنی آمدنی کا کچھ حصہ بچت یا تفریح پر خرچ کرتا تھا اب اپنی پوری آمدنی صرف بنیادی ضروریات پر صرف کر رہا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف معاشی بلکہ سماجی اور نفسیاتی مسائل کو بھی جنم دے رہی ہے۔
مہنگائی کا اثر صرف گھریلو بجٹ تک محدود نہیں یہ کاروبار اور صنعتوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ چھوٹے کاروبار جو پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی خام مال کی قیمتیں، یوٹیلٹی بلوں کا بوجھ اور کم ہوتی ہوئی خریداری کی قوت نے کئی دکانداروں اور چھوٹے تاجروں کو اپنے کاروبار بند کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ نتیجتاً بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مہنگائی اور بے روزگاری کے اثرات صرف معاشی نہیں بلکہ سماجی اور نفسیاتی بھی ہیں۔ جب ایک باپ اپنے بچوں کے لیے روٹی کا بندوبست نہیں کر پاتا تو گھریلو تشدد اور خاندانی جھگڑوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ بچوں کی تعلیم بھی اس سے بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ والدین جب اسکول کی فیسیں یا کتابوں کے اخراجات پورے نہیں کر پاتے تو بچوں کو اسکول سے نکال کر مزدوری پر لگا دیتے ہیں۔
تعلیم یافتہ نوجوان بھی اس صورتحال سے محفوظ نہیں۔ وہ جو برسوں تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش میں نکلتے ہیں انہیں اکثر مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نوکری نہ ملنے کی وجہ سے وہ خود اعتمادی کھو دیتے ہیں۔ پاکستان میں معاشی دباؤ کی وجہ سے ڈپریشن اور اضطراب کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ صحت کے شعبے میں بھی حالات مختلف نہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافے اور نجی ہسپتالوں کے مہنگے علاج نے غریب شہری کے لیے صحت کی سہولیات کو ناقابل رسائی بنا دیا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات کی کمی اور طویل انتظار نے غریب شہری کو مزید مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔
ان تمام مشکلات کے باوجود پاکستانی شہری کے دل میں وطن کی محبت کم نہیں ہوتی۔ وہ اس سرزمین سے محبت کرتا ہے جس کی مٹی میں اس کے اسلاف کا خون شامل ہے۔ یہ محبت اس وقت بھی نظر آتی ہے جب وہ اپنی محدود آمدنی سے اپنے بچوں کے لیے سبز و سفید جھنڈیاں خریدتا ہے اور ملی نغمے سنتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ یہ وہی جذبہ ہے جو اسے مہنگائی اور بے روزگاری کے باوجود اپنے وطن سے جوڑے رکھتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف یہ جذبہ کافی ہے؟ کیا محض وطن سے محبت ایک شہری کو اس کی بنیادی ضروریات فراہم کر سکتی ہے؟
حکومت کو مہنگائی پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک موثر نظام بنانا ہوگا۔بجلی اور گیس کے بلوں میں کمی کے لیے توانائی کے شعبے میں اصلاحات لائی جائیں۔ بے روزگاری کے خاتمے کے لیے نجی شعبے کے ساتھ مل کر نئی صنعتوں اور کاروباروں کو فروغ دینا ہوگا۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کو بڑھانا ہوگا تاکہ ہر شہری کو بنیادی سہولیات میسر ہوں۔ سب سے اہم، کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہوگا، جو ہمارے معاشی مسائل کی جڑ ہے۔
14 اگست ہر پاکستانی کے لیے ایک جذباتی دن ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ہم اپنی آزادی کی قدر کرتے ہیں اور اپنے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ لیکن اس جشن کے ساتھ ہمیں اس غریب شہری کے دکھ کو بھی یاد رکھنا چاہیے جو مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں پریشان ہے۔ ہمیں اس امتحان سے گزرنا ہے اور ایک ایسا پاکستان بنانا ہے جہاں ہر شہری معاشی غلامی سے آزاد ہو اور اپنے وطن کی محبت کو سچے معنوں میں جشن کی صورت میں منا سکے۔ آئیے اس آزادی کے مہینے میں عہد کریں کہ ہم اپنے وطن کو اس مقام پر لے جائیں گے جہاں ہر شہری سر اٹھا کر جینے کا حق رکھتا ہو۔
 
Ali Abbas Kazmi
About the Author: Ali Abbas Kazmi Read More Articles by Ali Abbas Kazmi: 2 Articles with 145 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.