مذاکرات امن کاڈھونگ

قیام لاہورمیں جب ایک شاہراہ سے گزرہواتواچانک بیٹے نے جناب علامہ اقبال کی قیام گاہ کی طرف اشارہ کیاتومیں نے اسے گاڑی روکنے کااشارہ کیا اور بغوراس کودیکھ کراس عمارت کے ان تمام باسیوں کویادکرنے لگاجوکبھی حکیم الامت سے محوکلام ہوتے تھے اورمسلم امہ کے مصائب دورکرنے کیلئے شب وروز سوچ وبچارمیں غلطاں رہتے تھے۔علامہ اقبال کاتعلق بھی میرے مادرِ وطن کشمیرسے تھااورمیں اس سوچ میں غلطاں تھاکہ آج اگرعلامہ اقبال موجود ہوتے توکشمیرمیں نقدجاں کے نذرانے پیش کرنے والے حریت پسندوں کی بابت اپنے دردِ دل کوکیسے بیان کرتے۔ہم سب کے رہنماء ورہبرحکیم الامت اپنے ایک کشمیری عاشق سید علی گیلانی جنہوں نے اپنی ساری زندگی ان کے فلسفۂ خودی کے مطالعہ کے بعد کشمیر کی آزادی کیلئے وقف کر رکھی ہے اوراب ایک مرتبہ پھراپنے دیگر ساتھیوں سمیت جنہوں نے مذاکرات امن کے نام پر مودی سرکارکے نئے ڈھونگ کوبھی مستردکردیاہے، کشمیرکی بہادراورغیوربیٹی آسیہ اندرابی کی عزیمت کو دیکھ کریقیناً نازاں ہوتے کہ یہ ہیں جنہوں نے میرے پیغام کواپنے سینے سے لگا کر امت مسلمہ کیلئے تابناک مثالیں قائم کی ہیں، جنہوں نے اپنے خون سے آزادی کے چراغ جلاکرفتح مبین کے راستے کومنتخب کیاہے۔

مودی سرکارنے ایک مرتبہ پھراپنے گماشتے دنیشورکومذاکرات کے نام پراقوام عالم کودھوکہ دینے کیلئے ایک ڈرامہ رچارکھاہے جس کے جواب میں تمام حریت قیادت نے اس دھوکہ دہی کے عمل کومستردکرتے ہوئے نہ صرف ملاقات سے انکارکردیاہے بلکہ یک زبان اپنے مؤقف کااعادہ کیاہے کہ کشمیر کیلئے کبھی بھی کسی مذاکرات میں پاکستان کوالگ تھلگ رکھنا، یہ سراسرایک بے سودعشق ہے۔کشمیرکے سن رسیدہ اورانتہائی مخلص قائداور تحریک حریت کے سالارِکارواں جناب سیدعلی گیلانی کی اقامت گاہ حیدرپورہ سرینگرمیں ایک اہم اجلاس کے بعد حریت کانفرنس نے مذاکراتی مشن کو وقت کا بدترین ضیاع قرار دیتے ہوئے کہاکہ کشمیریوں کااصل ہدف بھارت کے جابرانہ تسلط سے مکمل آزادی ہے اور اہلیان کشمیرکبھی بھی مکمل خودمختاری کے سواکسی اورحل کے حق میں نہیں رہے ۔اس آ ہنی مؤقف کے سامنے نام نہاد امن مذاکرات کاشوشہ کھڑاکرکے بھارت دنیاکی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتا، اس لئے اس بات کی توقع رکھناکہ وہ تنازع کشمیرکے حل کے سلسلے میں کوئی پیش قدمی نہ کریں اور خودارادیت کامطالبہ کرنے والوں سے بات کریں''خیال است ومحال است وجنوں''۔

مودی نے سابقہ وزیرداخلہ چدم برم کے کشمیرمیں اندرونی خودمختاری کے بیان کی جوبات دہرائی ہے،کے جواب میں کہاتھاکہ جموں وکشمیرمیں بھارت کے مفادات کاتحفظ کرتے ہوئے فوجی مررہے ہیں،خودمختاری کی بات کیوں کی گئی ،پرکشمیری رہنماء نے اپنے ردّعمل میں کہاکہ بھارتی وزیر اعظم کے بیان سے ہمارے مؤقف کی تائیداور تقویت حاصل ہورہی ہے کہ کشمیرواقعی ایک بین الاقوامی تنازعہ ہے جس کاواحدحل اقوام متحدہ کی ان قراردادوں کے مطابق ہونا ضروری ہے جس کااقراربھارت نے ساری دنیاکے سامنے کیاہے، اس سے قبل بھارتی نامزدجاسوس مذاکرات کار سابق انٹیلی جنس چیف دنیشورشرماکے اس بیان کاحوالہ دیاکہ''کشمیرمیں جاکرنوجوانوں کوسمجھائیں گے کہ وہ اسلام اور آزادی کامطالبہ دہراکراپنی زندگیاں ضائع کررہے ہیں اوراس طرح وہ جوانوں کو اسلام سے دوررہنے کاسبق پڑھارہے ہیں۔ جاسوس مذاکرات کارنے شام کی بات چھیڑکراسے ایک مذہبی اورفرقہ وارانہ جنگ سے جوڑکرکہاتھاکہ وہ کشمیرکو دوسرا شام بننے نہیں دیں گے۔ان کے اس بیان سے واضح ہوتاہے کہ دنیشورنام نہادامن قائم کرنے کے ناکام مشن پرہیں نہ کہ تنازعہ کشمیرحل کرنے کے مشن پراوریہ بات واضح کی کہ شام اورجموں وکشمیرکے حالات کاکوئی موازنہ ممکن نہیں اور دونوں ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں اوردونوں میں سرے سے کوئی مطابقت ہی نہیں۔
تنازعہ کشمیرکواس کے تاریخی پس منظرمیں اورحق خودارادیت کی بناء پرحل کیاجاناچاہئے اوراس طرح نہ صرف بھارت بلکہ سارے برصغیرمیں امن قائم ہو گا۔سچی بات یہ ہے کہ بھارت ایک طرف مذاکرات کی پیش کش کررہاہے اور دوسری طرف خودہی اپنے ایجنڈے کومنظرعام پرلاکراس بات کاعندیہ دے رہاہے کہ مسئلہ صرف نام نہادامن تک کے قیام تک ہی محدودنہیں اگرچہ کشمیری کبھی بامعنی مذاکراتی عمل کے خلاف نہیں رہے بشرطیکہ ان کاواحد مقصدنتیجہ خیز اورمسئلہ کشمیرکاپائیدارحل تلاش کرناہو۔انہوں نے ہمیشہ اپنے اصولی مؤقف کا ایک بارپھراعادہ کرتے ہوئے یہ بات واضح کردی ہے کہ دنیشورنے مذاکرات کے متعلق جن خیالات کااظہارکیاہے اس سے پتہ چلتاہے کہ ان مذاکرات میں شمولیت سے کوئی نتیجہ برآمدنہیں ہوگاجومسئلہ حل کرنے کی بجائے اپنے جبری فوجی قبضے کوجاری رکھناہے لہنداعوام کوچاہئے کہ وہ شہداء کے خون سے مزین تحریک کے ساتھ اپنی وابستگی کی جدوجہد پوری استقامت کے ساتھ جاری رکھیں تحریک حریت نے حکیم الامت علامہ اقبال کے اس ابدی پیغام کے پیش نظر''مذاکرات امن''کاڈھونگ مستردکیاکہ ''تو جھکاجب غیرکے آگے نہ من تیرانہ تن''اسی پیغام کوبنیادبناکر کشمیری اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔علامہ اقبال کی زندگی میں ایک ایسادورآیاکہ کشمیر کا ہرمسلمان مفلوج ہوہ کررگیاتھااورکشمیریوں کی بدترین حالت زارنے علامہ کو انتہائی بے چین اورمضطرب کررکھاتھا اور انہوں نے کشمیرکی آزادی کے علمبردارکے طورپراپنے کلام میں بھی اس کا بڑے دکھ سے اظہارفرمایا:
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیرگیر
چہ بے پرواہ گزشتہ ازنوائے صبح گاہِ من

یہ شاعرمشرق کی بے چینی اوراضطراب ہی توتھاکہ ''برداں شورومستی سیاہ چشمان کشمیری''اورایک اورجگہ فرمایا:
"وہ میری نوائے سحرسے کتنی بے نیازی سے گزرگئے''۔

برصغیرکی آزادی کو۷۰برس گزرگئے مگراب بھی ریاست جموں وکشمیرکا بیشترحصہ برہمن کے ظلم وستم کاشکارہے لیکن صدآفریں کہ اب تک کشمیر کے مسلماں سرزمین کشمیرکومتعصب برہمن کے پنجۂ استبدادسے چھڑانے ،آزاد کرانے اورحق خودارادیت کیلئے جہادمیں مصروف اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں اوراب تو ان شاء اللہ جہادکی کامیابی منزل کے بہت قریب ہے۔کشمیرمیں ڈوگرہ شاہی نے ایک مدت سے کشمیری مسلمانوں کی زندگی تلخ بنارکھی تھی۔ ١٩٣١ءمیں جب ڈوگرہ راج کے خلاف تحریک شروع ہوئی توعلامہ اقبال نے خوداس میں بھرپورکرداراداکیا۔اس سال ١٣جولائی کو مسلمانوں کے ایک اجتماع کومنتشرکرنے کیلئے ڈوگرہ پولیس نے گولی چلادی جس میں دودرجن کے قریب مسلمان جام شہادت نوش کر گئے۔اس پراہلیان کشمیرسرااپااحتجاج بن گئے ۔لگتا تھاآتش فشاں نے خونی لاوااگلناشروع کردیاہے۔مسلمانوں نے اپنے سینے پر گولیاں کھانااپنا اعزازسمجھتے ہوئے جانیں جا ن آفریدی کے سپرد کرکے ثابت کر دیاکہ ان کاجذبۂ آزادی بیدارہوچکاہے ۔حالات مہاراجہ ہری سنگھ کے قابوسے باہر ہوگئے اوراس نے مارشل لاء نافذکرکے برطانوی استعمار کو طلب کرلیا اورفوج کوحکم دے دیاکہ جہاں بھی مسلمان نظرآئے اسے گولی سے اڑادیاجائے۔سچ تویہ ہے کہ ان شہداء کے خون ہی سے کشمیرکی سرزمین پرحریت کے پھول کھلے جن کی آج تک کشمیری قوم اپنے خون سے آبیاری کررہی ہے۔

١٣جولائی١٩٣١ء کے سانحہ نے شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کومجبورکردیاکہ وہ شہرمیں دہشتگردی ختم کرنے کیلئے تحریک چلائیں۔اس مقصدکیلئے ایک کمیٹی بنائی گئی جس کے مقاصدمیں اوّلاًکشمیری مسلمانوں کے حق میں رائے عامہ منظم کرنا،دوم آئینی ذرائع سے ریاست کے اندر اصلاحات نافذ کرنا،سوم یہ کہ شہیدوں کے ورثاء اورزخمیوں کو مالی مدد فراہم کرنااورچوتھاگرفتار شدگان کی رہائی کیلئے قانونی امدادفراہم کرناتھا۔ علامہ اقبال کی سربراہی میں تحریک بڑی کامیابی سے چلائی گئی ،صورتحال بھانپتے ہوئے مہاراجہ نے ریاست کے سیاسی رہنماؤں سے سمجھوتہ کرلیا اور تحریک ختم کردی گئی اوراس سلسلے میں گرفتارکئے گئے عام قیدیوں کورہاکر دیاگیا۔کشمیرکی تحریک آزادی کے ہر مرحلے میں علامہ قبال کشمیریوں کی جدوجہد میں ان کے ساتھ شریک رہے۔

١٩٣١ءمیں دوسری گول میزکانفرنس میں علامہ اقبال نے ایک مندوب کی حیثیت سے شرکت کی۔٩نومبر۱۹۳۱ء کودوسری گول میز کانفرنس کے مسلم مندوبین نے انڈرسیکرٹری آف سٹیٹ سے ملاقات کی ۔کشمیرکے مسئلے پربات چیت ہوئی ،سرمحمدشفیع نے کشمیرمیں افسوس ناک صورتحال پرتفصیلاً بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ کشمیری مسلمانوں پر ہرقسم کا جبر روا رکھا گیا ،ان کی مقدس کتاب ،عبات گاہوں اورخواتین کی پولیس نے بے حرمتی کی۔یہ صورتحال۲۵ سال سے چل رہی ہے مگربرطانوی حکومت نے کشمیرمیں مداخلت نہیں کی اس پربھی علامہ اقبال بے حدمضطرب ہوئے اورانہوں نے کہا: ''اگرمہاراجہ نے اس قسم کے حالات کی اجازت دیئے رکھی تووہی اس کے ذمہ دارہوں گے''۔علامہ نے کشمیر کے بارے میں اپنی تشویش کااظہارکرتے ہوئے کہا:اب تمام حقائق آپ کے سامنے ہیں میں اس میں اضافہ نہیں کرناچاہتاکہ سرینگرکے بازاروں میں بچوں کو سنگدلی سے قتل کیاجارہاہے۔اس سے زیادہ کیابیان کروں کہ سرینگرکے بازاروں میں ڈوگرہ پولیس نے مسلم خواتین کی بے حرمتی کی ہے۔اب پنجاب اور کشمیر بلکہ پورے ہندوستان میں مسلمان یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ بجائے کشمیری مسلمانوں کے مطالبات کی انکوائری کے ڈوگرہ فوج کے ظلم وتشددکی انکوائری کی جائے،اگرعوام ذمہ دارہوں توانہیں سزادی جائے یاان کی مذمت کی جائے اور اگر مہاراجہ اوراس کی انتظامیہ قصوروارہوں تومہاراجہ کولازماً معزول اورظلم کرنے والی فوج کو سزادی جائے۔

کشمیرکے لوگوں کی خودی کاشعلہ قریباً بجھ چکاتھا۔ ان کاحوصلہ بڑھانےکیلئے۲۱مارچ۱۹۳۲ءکوآل انڈیامسلم کانفرنس کے صدرکی حیثیت سے علامہ اقبال نے اپنے خطبہ صدارت میں کشمیرکے بارے میں ببانگ دہل فرمایا: مہاراجہ اوراس کی انتظامیہ نے جوظلم وستم کشمیر کے مسلمانوں پرڈھایاہے اس کاتقاضہ ہے کہ فوری مہاراجہ کو معزول کرکے عوام کوان کے ظلم وستم سے نجات دلائی جائے ۔ان کے دل میں مسلمانوں کی محبت کاجوشعلہ بھڑک رہا تھاوہ ظلم وستم کی چوب جلانے کیلئے بے قرار تھا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی زندگی کایہ رخ کبھی عوام کے سامنے نہیں لایا گیا۔علامہ اقبال ایک شیرکی طرح دھاڑرہے تھے ،انہوں نے اس موقع پراپنوں کی پرواہ کی نہ غیروں کاکوئی لحاظ رکھا۔انہوں نے کئی رہنماؤں کے مصلحت آمیز رویے کو چیلنج کیا۔
آئین ِ جواں مرداں حق گوئی وبے باکی
اللہ کے شیروں کوآتی نہیں روباہی

کشمیرکے لوگوں کی خودی کاشعلہ قریباً بجھ چکاتھا۔ ان حقائق کی روشنی میں اندازہ کرلیجئے کہ اس دورمیں اگرعلامہ زندہ ہوتے توان کارویہ کشمیرکے بارے میں کیاہوتا؟اگرہمارے سیاسی رہنماء صرف قومی مفادکوپیش نظررکھ کرسوچیں توپاکستان کہ شہ رگ کشمیرکوبھارت کے تسلط سے نجات ملنامشکل کام نہیں۔ سچی بات تویہ ہے کہ اس دورمیں ہمیں اقبال اورقائداعظم جیسے رہنماء میسر نہیں:
بیدارہوں دل جس کی فغان سحری سے
اس قوم میں مدت سے درویش ہے نایاب

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355689 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.