1892 ء میں کراچی کا ایک نوعمر طالب علم انگلستان میں
قانون کی تعلیم حاصل کرنے پہنچا۔اس سے پہلے وہ کسی تعلیمی ادارے میں داخل
ہو۔ اس نے وکالت کی تعلیم دینے والے چار مشہور اداروں انر ٹمپل ان (Inner
Temple Inn ) ، مڈل ٹمپل (Middle Temple ) ، گریز ان (Gray's Inn ) اور
لنکن ان (Lincoin Inn ) کا معائنہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنے گائیڈ کے
ہمراہ تین اداروں کو دیکھنے کے بعد جب چوتھے تعلیمی ادارے میں داخل ہوا جس
کا نام لنکن ان تھا۔ تو اس کی دیوار پر ایک خوبصورت تحریر دیکھ کر اپنے
گائیڈ سے پوچھا۔ کہ یہ کیا ہے؟۔گائیڈ نے جواب دیا۔ ’’ دنیا میں جتنے بھی
قانون دینے والے گزرے ہیں ۔ان کے نام اس دیوار پر لکھے ہیں ‘‘۔نوجوان طالب
علم نے دریافت کیا۔ ’’ سب سے اوپر یعنی سرفہرست کس کا نام درج ہے ؟ ‘‘۔گائیڈ
نے جواب دیا۔ ’’ قانون دینے والوں میں سب سے بڑے حضرت محمد ﷺ کانام ہے ‘‘۔یہ
سنتے ہی نوجوان طالب علم وہیں رک گیااور اسی تعلیمی ادارے میں قانون کی
تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ۔طالب علم کے اس فیصلے سے ان کے دل میں اسلام
اور پیغمبر اسلام ؐ سے گہری عقیدت اور بے پناہ محبت جھلکتی ہے۔اس نوجوان
طالب کا نام قائد اعظم محمد علی جناح ؒتھا۔
1947 ء میں آپ نے کراچی بارایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے لنکن ان میں اپنے
داخلے کی وجہ یوں بیان کی۔ ’’ ایک مسلمان کی حیثیت سے میرے دل میں رسول
اکرم ﷺ کی، جن کا شمار دنیا کے عظیم ترین مدبروں میں ہوتاہے، بہت عزت تھی ۔ایک
دن اتفاقاً میں لنکن ان گیا اور میں نے دروازے پر پیغمبر اسلام ؐ کا نام
مبارک کھدا دیکھا۔ تو میں نے وہاں داخلہ لیا۔ کیوں کہ اس کے دروازے پر حضرت
محمد ﷺ کا نام مبارک دنیا کے عظیم قانون سازوں میں سرفہرست لکھا ہوا تھا
‘‘۔جب آپ لنکن ان سے بیرسٹری کی ڈگری حاصل کرکے وطن واپس پہنچے تو سب سے
پہلے بمبئی میں وکالت شروع کی۔ ایک دفعہ مجسٹریٹ کی رخصت کے دوران میں آپ
نے مجسٹریٹ کی جگہ کام کرکے برطانوی حکومت پر اپنی قابلیت کا سکہ بٹھا دیا
۔ توحکومت نے آپ کو سولہ سو روپے ماہوار تنخواہ پر مجسٹریٹ کی اسامی پیش
کی۔لیکن آپ نے اس پیش کش کو قبول نہ کیا۔اور کہا۔’’ میں اتنی رقم تو ایک دن
میں کمانا چاہتا ہوں ‘‘۔
برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کی تاریخ کے اس اولوالعزم اور عظیم سیاسی
رہنما نے آزادی ہند کی جدوجہد کے لئے اپنے سیاسی کردار کا آغاز آل انڈیا
کانگریس کے سٹیج پر کیا اور ایک عرصے تک ہند و مسلم اتحاد کے لئے کوشاں رہے۔
ایک طویل عرصے تک کانگریس میں متحرک رہنے اور ہند و ذہنوں کو قریب سے
دیکھنے کے بعد آ پ پر یہ بات ظاہر ہوئی کہ کانگریس محض ایک ہندوؤ ں کی
نمائندہ جماعت ہے جو مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتی۔ انہوں نے یہ
بھی شدت سے محسوس کیا کہ اگرچہ مسلمانوں نے ہندوستان پر صدیوں پر محیط طویل
عرصہ حکومت کی لیکن اس کے باوجود مسلمان اقلیت بن کر ہی رہے اور نفسیاتی
طور پر ہمیشہ احساس عدم تحفظ کا شکار رہے۔چناچہ آپ نے کانگریس کو خیر آباد
کہا اور آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور اپنی دیانت داری ، خلوص ،بلند
ہمتی اور سیاسی بصیرت کی بدولت مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوگئے۔آپ کی دن رات
محنت سے مسلم لیگ کے مردہ جسم میں نئی روح پیدا ہوئی اور اسے ایک فعال
جماعت بنا کر 23 مارچ 1940 ء ’’ قرار داد پاکستان ‘‘کے خواب کو سچ کر
دکھایا۔قائد اعظم محمد علی جناح کو پاکستان سے والہانہ عقیدت و محبت تھی۔
جس کا اندازہ اس بات سے بآسانی ہوتا ہے کہ مرتے وقت آپ کی زبان پر جو دو
آخری الفاظ نکلے وہ ’’ ﷲ۔۔۔پاکستان ‘‘ تھے۔آپ کی نماز جنازہ مولانا بشیر
احمد عثمانی نے پڑھائی جس میں چار لاکھ فرزندان توحید نے شرکت کی اور چالیس
دن تک سوگ منایا گیا۔ |