نئے انتخابات کے قریب آنے پر15کادرجہء حرارت 45 سینٹی
گریڈ محسوس ہورہاہے سینیٹ سے انتخابی اصلاحات کابل منظورہونے پرحکومت
کوسکون کے چندلمحے یہ میسرآئے ہیں کہ اسکی مدت پوری ہونے کے امکانات
پرمہرتصدیق ثبت ہوچکی ہے اتخابی اصلاحات اورنئی حلقہ بندیوں کے بل کی
منظوری کے ساتھ ہی آئندہ انتخابات کی تیاری کاباقاعدہ آغازہوچکاہے الیکشن
کمیشن کونئی حلقہ بندیوں کیلئے کم ازکم پانچ مہینے کاوقت درکارہے
اورتقریباًاتناہی عرصہ حکومت کے پاس بھی ہے ہم پانچ مہینے بعد ہی 19سال
بعدہونے والی مردم شماری کے مطابق انتخابات کرانے کی پوزیشن میں ہونگے اس
سے پہلے انتخابات کی اگرنوبت آتی بھی ہے تو یہ انتخابات 1998والی مردم
شماری کے مطابق ہونگے کون چاہے گاکہ ہم بیس سال قبل ہونے والی مردم شماری
کے نتائج پرانتخابات کرائیں اب اگرحکومت کی رخصتی کاکوئی مطالبہ سامنے
آتابھی ہے تو لوگ اسکی جانب توجہ نہیں دینگے حالات خودکارطریقے سے حکومت
اوراسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کی جانب جارہے ہیں جوکہ نیک شگون ہے مڈٹرم
انتخابات اورحکومتوں کاوقت سے پہلے رخصت ہوناملک وقوم اورجمہوریت سمیت کسی
کے مفادمیں نہیں موجودہ حکومت اوراسمبلیوں کواگرچہ گزشتہ ساڑھے چارسالوں
میں سکون کی ایک سانس نصیب نہ ہوسکی کبھی انتخابات میں دھاندلی
کاشورمچاکرحکومت اوراسمبلیوں کی رخصتی کی تاریخیں دی گئیں اورکبھی کرپشن کی
آڑمیں حکومت جانے کی مبارکبادیں دی اوروصول کی گئیں کبھی دھرنوں کے ذریعے
نظام کی بساط لپیٹنے کی خوشخبریاں آئیں توکبھی ساز بازاورسازشوں کے راستے
سے جمہوری نظام میں نقب لگانے کی کوشش کی گئی مگرشکرہے خداکایہ تمام کوششیں
رائیگاں گئیں اورآج ہم ایک مرتبہ پھرجمہوری روایات کے تحت حکومت
اوراسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کی جانب بڑھ رہے ہیں جوکہ جمہوریت کی مضبوطی
پردلالت کرتاہے ملک کی تقریباًتمام قوتیں اس بات پرمتفق ہیں کہ جمہوریت کی
بقااورملک وقوم کی ترقی کارازجمہوریت کی مضبوطی میں پنہاں ہے اورجمہوریت تب
مضبوط ومستحکم ہوگی جب عوام کی جانب سے منتخب ہوکرآنے والی حکومتیں
اوراسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کرینگی اورنئے انتخابات کے بعدہی نئی
حکومت کوموقع ملے گاچوردروازے اورسازشوں کے ذریعے اقتدارحاصل کرنے کے دن
لدگئے اب اقتدارحاصل کرنے کاایک ہی طریقہ اس ملک رائج ہوگااوروہ
ہوگاانتخابات میں کامیابی ،موجودہ دورتوجیسے تیسے کرکے گزرہی جائیگامگراس
دورمیں حکومت کوپریشان کرنے کیلئے جوطریقے اختیارکئے گئے ان سے مستقبل میں
پاکستان ہی غیرمستحکم ہوگاجب نوازشریف کی موجودہ دوتہائی اکثریت والی حکومت
اپنی مدت پوری کرنے کیلئے گڑگڑاتی رہی روتی رہی پیٹتی رہی تو آنے والی
ہرحکومت بھی اسی طرح غیرمستحکم رہے گی ’’آج گئی کہ کل گئی‘‘ والی آوازیں
آتی رہینگی اورغیرجمہوری قوتوں کویہ موقع ملتارے گاکہ پاکستان میں جمہوری
نظام کے علاوہ کوئی دوسرانظام ہوناچاہئے اگرموجودہ اسمبلیاں اورحکومت آرام
سے اپنی مدت پوری کرلیتیں اورآئے روزحکومت رخصت ہونے کی تاریخیں سامنے نہ
آتیں توگزشتہ دس سال جمہوریت کی مضبوطی کیلئے کافی تھے مگرافسوس کہ ان دس
سالوں میں ہمارے سیاستدان ناہی جمہوریت مضبوط بناسکے اورناہی اس دوران آنے
والی حکومتیں عوام کے مسائل حل کرسکیں ان حکومتوں کازیادہ تروقت اپنے دفاع
اورخودکوگرانے سے بچانے میں صرف ہواکبھی عدالتوں کے ذریعے وزرائے اعظم
گھربھیج دئے گئے توکبھی ان سے استعفے کے مطالبات سامنے آتے رہے اب بھی کچھ
سیاستدان ملک میں سیاسی استحکام نہیں چاہتے وجہ اسکی یہی ہے کہ سیاسی
استحکام میں ان لوگوں کی جگہ نہیں بنتی ان لوگوں کی اہمیت تب ہی قائم رہتی
ہے جب ملک میں سیاسی عدم استحکام ہواس عدم استحکام کوپیداکرنے کیلئے یہ
سیاستدان کسی کے بھی دم چھلے بن جانے میں کوئی عارنہیں سمجھتے اپوزیشن کی
اکثرپارٹیاں اورکچھ خودساختہ میڈیائی سیاسی راہنماہروقت نوابزادہ نصراﷲ خان
کی تلاش میں رہتی ہیں مولاناطاہرالقادری کے درپرسجدے اورانکے گھرسیاستدانوں
کی آمدورفت اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ پاکستانی سیاستدان کسی بھی شخص
کونوابزادہ نصراﷲ خان تسلیم کرنے پرتیارہوجائینگے اگرانہیں معلوم ہوکہ انکی
وجہ سے حکومت گرسکتی ہے ورنہ توآصف زرداری جوکہ خودکوجمہوریت کاچیپمئین
سمجھتے ہیں اوراپنی پارٹی کواس ملک میں جمہوریت کی علمبردارکانام دیتے ہوئے
فخرمحسوس کرتے ہیں انہیں مولاناطاہرلاقادری کی چوکھٹ پرسجدہ ریزہونے کی
کوئی خاص ضرورت نہیں تھی چوہدری شجاعت ، عمران خان اورشیخ رشیدنوازشریف کی
دشمنی میں اس قدرآگے جاچکے ہیں کہ کوئی بھی انکے خلاف نعرہ مستانہ بلندکریں
یہ ساتھ دینے کے اعلانات میں ایک لمحے کی دیرنہیں لگاتے شیخ رشیدکامسئلہ
وزارت کاحصول ہے اگرانہیں نوازشریف 2007میں معاف کردیتے اورانہیں قبول کرکے
پارٹی اور حکومت کاکوئی عہدہ تفویض کردیتے توآج خواجہ سعدرفیق اوردانیال
عزیزسے بڑھکروہ حکومتی حامی ہوتے اورحکومت کی دفاع میں سینہ تان کرکھڑے
ہوتے اسی طرح اگرچوہدری برادران کی بھی سابق کوتاہیوں کومعاف کرکے نوازشریف
انہیں گلے لگاتے تو آج وہ مولاناطاہرالقادری سمیت ہرکسی کی تحریک کاحصہ
بننے کیلئے کوشاں نظرنہ آتے طاہرالقادری کواگرچہ سانحہ ماڈل ٹاؤن چین سے
بیٹھنے نہیں دے رہامگراس سانحے سے پہلے بھی وہ کئی دھرنے لانچ کرچکے ہیں جن
کے پیچھے سوائے حکومت کی راہ میں کانٹے بچھانے کے کوئی خاص مقاصد نظرنہیں
آئے موجودہ جمہوری ٹرم میں استعفوں کے مطالبات بھی کثرت سے سامنے آتے رہے
اوراگران مطالبات پرعملدرآمدہوتاتوشائدپوری اسمبلی وزیربنکرفارغ ہوچکی ہوتی
نصف درجن سے زائدوزراء کوبغیرکوئی خاص وجہ کے مستعفی ہوناپڑاان میں سے کئی
وزرااورانکے محکموں کی کارکردگی بہترین تھی اورانہیں اپناکام جاری
رکھناچاہئے تھامگرباامرمجبوری انہیں حکومتی گلیوں سے رسواہوکر جاناپڑاحالیہ
ٹرم میں جن غیرجمہوری روایات کوجمہوریت کے نام پہ فروغ دیاگیایہ مستقبل میں
جمہوریت کیلئے زہرقاتل ثابت ہونگیں سیاست میں مخالفین کیلئے جس زبان کے
استعمال کوپروان چڑھایاگیااس سے جمہوریت کی کوئی خدمت ممکن نہیں ہمارے
سیاستدان اٹھتے بیٹھتے جمہوریت کاراگ توالاپتے رہے مگران کاطرزعمل
غیرجمہوری اورغیرآئینی رہاعدالتوں کوغیرضروری طورپرسیاست میں گھسیٹاگیاجس
کالازمی نتیجہ عدلیہ کی بے توقیری کی صورت برآمدہوااورعدلیہ کی رہی سہی
ساکھ بھی داؤپرلگ گئی اعلیٰ ججوں کوصفائیاں دینی پڑیں اوران صفائیوں کے
جواب میں سیاستدان رطب السان نظرآئے اس تمام افراتفری سے یہ ثابت کرانے کی
کوشش ہوئی کہ پاکستان میں جمہوریت کی بجائے کوئی اورنظام حکومت ہوناچاہئے
آئین کوحسب سابق بالائے طاق رکھ کرقومی یاٹیکنوکریٹس حکومت کے شوشے چھوڑے
گئے جنکے سامنے جمہوری قوتیں چٹان بن کرکھڑی رہیں ان تمام نامساعدحالات کے
باوجودجمہوری حکومت کااپنی آئینی مدت پوری کرناکسی معجزے سے کم نہیں ملکی
سیاستدانوں کواپنے افعال پرنظرثانی کرکے جمہوریت کی مضبوطی کیلئے کام
کرناہوگاکسی بھی حالت میں اسمبلیوں اورحکومت کووقت سے پہلے رخصت کرنے کی
روایات کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی پاکستانی قوم جمہوریت پسندقوم ہے یہ
غیرجمہوری سیٹ اپ سے جلد ہی اکتاہٹ محسوس کرتی ہے اس ملک کامستقبل جمہوریت
سے وابستہ ہے میرے وطن کی سیاست کاموجودہ حال کسی طورجمہوریت پسندی پرمبنی
نہیں ۔
|