پاک افغان چین کانفرنس، جنوبی ایشیا میں ایک نئے دورکا آغاز

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی کی دعوت پر بیجنگ میں پاکستان، چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کی سہ ملکی اجلاس کا اختتام اس پر ہوا کہ کابل آئندہ سال دوسرے سہ ملکی اجلاس کی میزبانی کرے گا۔ایہ اجلاس اپنی نوعیت کا منفرد اور اہم اجلاس اس لیے تھا کہ علاقائی تعاون کے حوالے سے پاکستان اور افغانستان مختلف مسائل کا شکار ہیں ۔جنوبی ایشیاکے یہ دونوں ممالک اس وقت جغرافیائی حوالے سے نہایت اہم جگہ پر واقع ہیں بلکہ علاقائی ترقی کے حوالے سے ان کا کردار بھی اتنا ہی اہم ہے۔ چین اس وقت دنیا میں ایک ایسی ابھرتی ہوئی معاشی طاقت بن رہا ہے جس سے امریکہ بالخصوص اور یورپ بالعموم پریشان ہے۔مختلف امریکی تھنک ٹینک ایشیا پیسیفک میں امریکی مفادات کے لیے سب سے بڑا خطرہ چین کو قرار دے رہے ہیں۔اسی طرح افغانستان میں امریکہ کی موجودگی چین اور دیگر علاقائی قوتوں کے لیے باعث تشویش ہیں ۔جب امریکہ دنیا بھر میں مداخلت اور طاقت کے ذریعے اپنی قوت منانے کی کوششوں میں مصروف تھا اس دوران چین کی تمام تر توجہ معاشی ترقی پر تھی ۔چین کی اسی لگن نے آج اسے اس مقام پر کھڑا کر دیا ہے کہ باوجودامن بقائے باہمی کا نظریہ اپنانے کے یورپ اور امریکہ اسے اپنے لیے خطرہ محسوس کر رہے ہیں ۔ایک طرف روس عالمی بساط پر اپنے قدم مستحکم انداز میں جما رہا ہے تو دوسری طرف چین کی معاشی ترقی سر اٹھا پورے قد کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے ۔ اگرچہ مغربی دنیا کے لکھاری اور تجزیہ نگار اسے دوسرے انداز میں دیکھ رہے ہیں تاہم چین اس وقت اپنی تمام توجہ خطے کی معاشی ترقی پر مرکوز کیے ہوئے ہے جس کے لیے پاک چین اقتصادی راہداری کے علاوہ ون بیلٹ ون روڈ جیسے منصوبے نہایت اہم ہیں۔سابق امریکی صدر باراک اوباما کے برعکس صدر ٹرمپ افغانستان کے حوالے سے دوبارہ جارحانہ پالیسی اپنا چکے ہیں ۔ چین ، روس اور پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان بھی ٹرمپ کی اس جارحانہ پالیسی کومثبت اقدام نہیں سمجھ رہے ۔سہ ملکی اجلاس اس بات کی طرف بھی ایک قدم ہے کہ دنیا اب امن اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا چاہتی ہے ۔

چین کی میزبانی میں ہونے والے اس سہ ملکی اجلاس کامشترکہ اعلامیہ مفاہمت اور تعاون کے ایک نئے دور کا اعلان کر رہا ہے ۔سی فریقی اجلاس کے اعلامیے کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔اس میں پہلا حصہ دہشت گردی کے خلاف ہے ۔ پاکستان اور افغانستان دونوں ہی اس دہشت گردی کا شکار ہیں ۔بدقسمتی سے ہمسایہ ممالک ہونے کے باوجود دونوں ممالک میں اس حوالے سے کافی دوریاں پیدا ہو چکی ہیں جس کی ایک بڑی وجہ افغانستان میں بھارت کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ اور اس کے قونصل خانوں کا کردار ہے ۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور باوجود اعلیٰ سطح کے عسکری و سیاسی وفود کے تبادلے کے سخت جملوں کے تبادلوں کے ساتھ ساتھ سرحدوں پر گولہ باری کے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں ۔اس اجلاس کے بعدیہ امید کی جا سکتی ہے کہ دونوں ممالک کے اختلافات میں کمی ہو سکتی ہے ۔اعلامیہ کے مطابق تینوں ممالک نے دہشت گردی کی لعنت کے خلاف لڑنے کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی گروپ یا شخص کو اپنی سرزمین کسی دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کے اجازت نہیں دیں گے۔یہ نکتہ اس لحاظ نہایت اہم ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔افغانستان کی سرزمین پر بھارتی قونصل خانوں کا کردار بھی ایک سوالیہ نشان ہے جس کے ذریعے بھارت کے خفیہ ادارے بلوچستان اور فاٹا میں دہشت گرد گروپوں کو سہولیات فراہم کر رہا ہے ۔سہ فریقی اجلاس میں انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں تعاون کو مضبوط بنانے پر بھی اتفاق کیا جب کہ تینوں فریق مشاورتی عمل کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق ایک مفاہمی یادداشت بھی تیار کریں گے۔مشترکہ اعلامیے کے مطابق تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے باہمی اعتماد اور مفاہمت کے لیے مل کر کام کرنے کے علاوہ سلامتی اور انسدادِ دہشت گردی کے شعبوں میں تعاون پر بھی اتفاق کیا۔انہوں نے کہا کہ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ خطے میں کہیں بھی دہشت گردوں کو پناہ گاہیں یا اُن کو مدد فراہم نہیں کی جائے گی۔

اعلامیہ کا دوسرا حصہ افغانستان میں قیام امن سے متعلق ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ افغانستان میں تشدد کے خاتمے کا قابلِ عمل حل مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔ افغانوں کی زیرِ قیادت امن و مصالحت کی کوششوں کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے طالبان پر زور دیا گیا کہ وہ جلد امن عمل میں شرکت کریں۔اگرچہ امریکہ بھی بارہا طالبان کو امن کے عمل کا حصہ بننے کی پیشکش کر چکا ہے تاہم طالبان کے لیے امریکہ پر اعتماد کرنا ممکن نہیں طالبان کی نظر میں افغانستان کی موجود صورتحال کی تمام ذمہ داری امریکہ پر ہے دوسری طرف طالبان یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ امریکہ کے آخری فوجی کی افغانستان میں موجودگی تک وہ اپنی عسکری جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اس لحاظ سے چین کی اس پیشکش کو طالبان مثبت قدم سمجھ سکتے ہیں کیونکہ چین براہ راست افغانستان پر حملہ آور نہیں اور نہ ہی وہاں قابض رہنے کا خواہاں ہے البتہ وہ اس خطے کی معاشی ترقی کے لیے افغانستان میں ایک پرامن سیاسی حل کا ضرور حمایتی رہا ہے ۔ طالبان بھی چین کے اس کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔

اس اعلامیے کا تیسرا حصہ خطے کی معاشی ترقی کے حوالے سے ہے ۔ یہ اجلاس ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب چین پاکستان میں اپنے اقتصادی و معاشی منصوبوں کو وسعت دے رہا ہے۔اس معاشی منصوبوں میں پاک چین راہداری کا منصوبہ نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس منصوبے سے صرف چین کے ہی نہیں پاکستان کے معاشی مفادات بھی جڑے ہیں ۔ پاکستان میں اس منصوبے کے باعث ایک نیا معاشی انقلاب جنم دے رہا ہے ۔ پاکستان میں توانائی کے شدید بحران پر قابو پانا اسی منصوبے کے باعث ممکن ہوایہی نہیں بلکہ انفراسٹرکچر میں بھی غیر معمولی ترقی دیکھنے میں آ رہی ہے ۔پاک چین راہداری کا یہ منصوبہ پورے خطے کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب ایران سمیت دیگر ریاستیں بھی اس منصوبے کا حصہ بننے کی خواہاں نظر آرہی ہیں ۔ دوسری طرف چین کا ’’بیلٹ این روڈ ‘‘ منصوبہ بھی 21ویں صدی کاعظیم منصوبہ جس کے ذریعے ایشیا اور یورپ کو ملایا جا سکتا ہے دنیا بھر کے تقریباً 60 ممالک اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا آغازکیا جا رہا ہے۔اس اجلاس میں بھیتینوں ممالک نے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مواصلاتی ڈھانچے کے منصوبے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کو آگے بڑھائیں گے۔یہی وجہ ہے کہ چین کے وزیرِ خارجہ وانگ نے کہا ہے کہ افغانستان، چین اور پاکستان تینوں پڑوسی ہیں اور ’’قدرتی طور پر یہ تینوں ایک دوسرے سے تعاون کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے۔‘‘اُن کا کہنا تھا کہ یہ تمام تعاون تینوں ملکوں کے مشترکہ مفاد کے مطابق ہو گا اور ’’یہ ہمارے لیے ایک اچھی چیز ہے۔‘‘

سہ ملکی اجلاس جنوبی ایشیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے جس میں دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ہی مفاہمت اور تعاون کی فضا میں ہر ملک معاشی ترقی کر سکتا ہے ۔ تاہم یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ کوششیں ہو ں گی اورہر ملک اپنی سرزمین سے دیگر ممالک کی پراکسی جنگ کو ختم کرنے کے لیے اقدمات کرے گا۔
 

Asif Khursheed Rana
About the Author: Asif Khursheed Rana Read More Articles by Asif Khursheed Rana: 97 Articles with 74421 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.