لاس اینجلس سے نصف صد کلومیٹر پر یور بالنڈا نامی گاؤں
واقع تھا۔جہاں کے لوگوں کا زیادہ تر گزر بسر کاشت کاری پر ہوتا تھا۔یہاں
نکسن کا ایک چھوٹا سا خاندان جن کے آباؤاجداد 18 ویں صدی کے وسط میں
آئرستان سے نقلِ مکانی کر کے آباد ہوئے تھے۔اس کا خاندان کا واحد کفیل ایک
ترنجی پھلوں کا ایک باغ تھا۔9 جنوری 1913 ء کو اُن کے ہاں ایک بچے کی
پیدائش ہوئی جس کا نام رچرڈ رکھا گیا۔یہ خاندان عیسائیوں کے فرقہ کوئیکر کا
معتقد تھا، لہٰذا رچرڈ اور اُن کے بھائیوں کی پرورش اسی فرقے کے عقائد کے
مطابق ہوئی۔ یہی وجہ غالب تھی کہ اس خاندان میں سادگی کا پہلو نمایاں
تھا۔اُن کے لباس ، خوراک اور گفتگو میں سادگی پائی جاتی تھی اور امن کا
خواہاں تھا۔1922 ء میں ترنجی پھلوں کے باغ کو کسی کی نظر لگ گئی اور ویران
ہوگیا۔ معاشی طور پر پریشان یہ خاندان وھیٹر نامی ایک اور چھوٹے سے قصبہ
میں آباد ہوگیا، جہاں انہوں نے کریانہ کی دُکان اور پٹرول اسٹیشن
کھولا۔خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ رچرڈ بھی نئے کاروبار میں ہاتھ بٹانے
لگا۔دُکان پرکام کرنے کے ساتھ ساتھ رچرڈ نے پڑھائی کو بھی جاری رکھا۔وہ نہ
صرف ذہنی لحاظ سے ایک اچھے طالب تھیبلکہ اسکول کے مباحثوں میں بہترین مقرر
اور خطیب کے طورپر بھی حصہ لیتے تھے۔اَب کام ، پڑھائی اور مطالعہ اس کا
روزانہ کا معمول بن گیا تھا۔تعلیمی سفر کے دوران اس کا رجحان قانون کی
تعلیم کی طرف مائل ہوگیا۔تعلیم کے ساتھ بے پناہ لگاؤ کا یہ نتیجہ نکلا کہ
رچرڈ نے شمالی کیرولینا میں واقع ڈیوک یونیورسٹی سے 1937 ء میں قانون کی
ڈگری حاصل کر لی۔قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ واپس اپنے قصبے
آگیا۔اَب وھیٹر کی آبادی 25 ہزار نفوس پر مشتمل تھی اور یہ چھوٹا سا قصبہ ‘
لاس اینجلس کا ایک مضافاتی حصہ بنتا جارہا تھا۔ یہاں اس نے باقاعدہ ایک
کمپنی میں شمولیت اختیار کرکے وکالت شروع کردی۔ایک دِن رچرڈ کی ملاقات
مقامی تھیٹر میں کیتھرائن پیٹریشیا سے ہوئی ۔اُن کی یہ ملاقات بعد میں شادی
کے بندھن میں تبدیل ہوگئی۔ پیٹریشیا معلمی کے پیشہ سے وابستہ تھی۔شادی کے
دو سال بعد 1942 ء میں رچرڈ اور اُن کی اہلیہ واشنگٹن آگئے اور وفاقی حکومت
کے دفتر میں شعبۂ قانون میں ملازمت اختیار کی ۔لیکن چند ماہ بعد اُس نے
امریکی بحریہ میں جونیئر لیفٹیننٹ کی حیثیت سے شامل ہوگئے۔یہ دوسری جنگِ
عظیم کا زمانہ تھا۔ پندرہ ماہ خدمات دینے کے بعد 1946 ء میں انہوں نے بحریہ
سے سبکدوش ہوگئے۔جب کہ اسی سال رچرڈ نے کیلیفورنیا میں امریکی ایوان
نمائندگان کی نشست کے لئے انتخابی مہم چلائی اور کامیاب ہوگئے۔سیاست میں
جلوہ افروز ہونے کے بعد رچرڈ نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور کامیابیوں کی
منازل طے کرتا گیا۔کامیابیوں کے ہمراہ اس نے 1960 ء کے صدارتی الیکشن میں
ناکامی کو بھی گلے لگایا۔لاس اینجلس کے مضافاتی قصبے یوربالنڈا میں پیدا
ہونے والا یہ بچہ ‘ اپنی محنت اور لگن کے بل بوتے پر 1968 ء کے صدارتی
الیکشن میں کامیاب ہوکر امریکہ کا 37 واں صدر بنا اور اپنی اہلیہ پیٹریشیا
(خاتونِ اول) کے ساتھ وائٹ ہاؤس کا مکین بن گیا۔دنیا جس کو رچرڈ ملہاؤس
نکسن کے نام سے جانتی ہے۔
رچرڈ ملہاؤس نکسن 1952 ء اور پھر 1956 ء میں امریکہ کے نائب صدر کے عہدے پر
فائز رہے۔صدر آئزن ہاور کی سنگین علالت کے دوران انہوں نے صدارت کے فرائض
نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ سر انجام دیئے۔اور صدر کی ایما ء پر پورے امریکہ
اور دنیا کے 56 ممالک کے بڑے پیمانے پر دورے کئے۔1960 ء میں ری پبلکن پارٹی
نے اُن کو صدارت کے لئے نامزد کیا اور آپ نے تمام پچاس ریاستوں میں بھر پور
انتخابی مہم چلائی لیکن اس بار قسمت کی دیوی اُن سے روٹھی اور وہ ’’باعزت‘‘
طور پر ہار گئے۔شکست کے بعد آپ نے دوبارہ وکالت شروع کی کیوں کہ آپ نے
محسوس کیا کہ سیاسی طور پر ان کا اثر ختم ہوچکا ہے۔تاہم وہ اپنی جماعت کے
ساتھ منسلک رہے اور اپنی فطری محنت اور لگن سے کام کرتے رہے۔ 1968 ء میں
جماعتی نمائندوں کی مسلسل درخواستوں اور عوام کی اُن میں برھتی ہوئی دل
چسپی کے پیش نظر اُس نے صدارتی انتخاب کی دوڑ میں دوبارہ شریک ہونے کا
فیصلہ کیا۔ اس مہم میں اُن کی اہلیہ پیٹریشیا (پَیٹ) اور بیٹیاں بھی برابر
شریک رہیں۔ آپ نے اپنی خارجہ پالیسی کو ’’منصفانہ امن ‘‘ سے مربوط کیا کیوں
کہ ان کے خیال میں ایسے نئے طریقے اختیار کئے جاسکتے ہیں جن سے مستقبل میں
جنگوں کا سدِّ باب کیا جاسکتا ہے۔ داخلی معاملات میں وہ جرائم اور
لاقانونیت کی روک تھام کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے رہے۔یہی وہ بنیادی نکات
تھے جن کے سبب رچرڈ ملہاؤس نکسن امریکہ کے 37 ویں صدربنے۔
|