عام طور پر لوگ جب اس دنیا کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں تو ان
کی کمی ایک یا دوخاندان محسوس کرتے ہیں لیکن ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں
جن کے جانے سے بہت سے خاندان اور معاشرے یتیم ہو جاتے ہیں۔
کل شام کے وقت میسج پر اطلاع ملی کہ پیر سید اقرار حسین شاہ نقوی اب ہم میں
نہیں رہے۔ میسج پڑھتے ہی دل کو اچانک جھٹکا سا لگا یقین نہیں آ رہا تھا کہ
وہ واقعی ہم کو چھوڑ کر ابدی نیند سو گئے ہیں۔یقینا ایک دنیا ان سے محروم
ہو گئی ہے۔
راقم الحروف کی ان سے آخری ملاقات 12 ربیع الاول 2017ء کو جامع مسجد 68 ایم
ایل میں نماز جمعہ کے بعد ہوئی ان کے آخری کلمات جو مجھے یاد آرہے ہیں
انھوں نے تمام اہل محلہ اور آس پاس کے لوگوں کو جامع مسجد میں محفل میلاد
کی دعوت دی تھی۔جس سے ان کے عشق رسول اور دین سے محبت کا اندازہ لگایا جا
سکتا ہے۔
تمام شعبہ زندگی میں آپ کی خدمات کو یاد رکھا جائے گا۔میں نے اپنے بچپن سے
ہی انکو دینی محافل میں انتظام و انصرام کی نگرانی اور صدارت کرتے دیکھا۔
وہ علماء و مشائخ کی بہت قدر کرتے تھے۔جو شخص مسجد سے محبت کر تا ہے اللہ
اور اسکے رسول بھی اس شخص سے محبت کرتے ہیں۔وہ مسجد کی دیکھ بھال اور امام
کی ضروریات کا خیال رکھنے میں بڑی دلچسپی لیتےتھے۔
سیاسی میدان میں بھی ان کی خدمات قابل تعریف ہیں۔ اپنے علاقہ کے لوگوں کی
فلاح و بہبود کے لیے عوامی نمائندوں سے رابطہ رکھتے اور اہل علاقہ کے مسائل
حل کرواتے تھے۔انجمن رضائے حبیب جو کہ ایک دینی پلیٹ فارم ہے وہاں بھی وہ
قائدانہ کردار ادا کرتے تھے۔ علاقہ بھر کے ہر قسم کے مسائل حل کروانے کے
لیے انہوں نے ہمیشہ فرنٹ لائن پر کام کیا۔ لوگ باہمی جھگڑوں اور رنجشوں کو
ختم کرنے کے لیے ان کو ثالث اختیار کرتے اور وہ دانشمندی سے ان کے جھگڑے
اور اختلافات حل کر کے باہم شیر و شکر کر دیتے تھے۔
جب بھی ملاقات ہوتی،کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ناچیز گو کہ حافظ
اورقاری نہیں ہے لیکن وہ ہمیشہ "حافظ صاحب" اور "قاری صاحب" کہہ کر ہی
پکارتے تھے۔کسی کو احترام دینا بندہ ان سے سیکھ لیتا۔
گورنمنٹ ایلیمنٹری سکول 68ایم ایل کی کمیٹی کےاہم رکن بھی تھے اس میں بھی
آپ کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا تھا۔
راقم جب دینی مدرسہ جامعہ اسلامیہ انوار مدینہ منکیرہ میں پڑھ رہا تھا گھر
آنا ہوتا تو کبھی ان سے ملاقات بھی ہوجاتی تو فرماتے اپنے استاد مفتی محمد
موسی طاہر صاحب کو سلام پیش کرنا تو میں بڑے فخر سے ان کے سلام استاذمحترم
کی بارگاہ میں پیش کرتا۔
تفریح کے پروگراموں میں بھی وہ پیش پیش ہوتے تھے۔نوجوانوں کے کھیلوں کے
پروگراموں میں بھی بڑے متحرک نظر آتے۔چھوٹا بڑا ہر کوئی ان کا احترام کرتا
تھا۔ ان کی سادگی قابل رشک تھی۔ ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ہوتی تھی۔
وہ سید گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ہر سال اپنے والد ماجد اور دادا جان کے
ایصال ثواب کے لئے محفل نعت کا انعقاد کرتے جس میں اہل علاقہ اور ان کے
مریدین شرکت کرتے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان کو کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے اور پسماندگان کو
صبر جمیل عطا فرمائے۔ |