کشمیریوں کا پاکستانیوں سے رشتہ کیا؟ اور کشمیریوں کی
تحریک آزادی کس سے نجات کیلئے ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات نوشتہ
دیوار ہونے کے باوجود سب کچھ جانتے ہوئے کچھ نہ جاننے والے بھارت نواز
صحافیوں، سیاستدانوں اور دانشوروں کو نہیں ملتے لیکن 26 جنوری کو یوم
جمہوریہ بھارت کے موقع پر کشمیری اس سوال کا جواب ’’یوم سیاہ‘‘ منا کر
دینگے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کی مشترکہ کال پر ریاست جموں و کشمیر کے
دونوں اطراف سمیت پاکستان کے چاروں صوبوں اور دنیا بھر میں 26 جنوری کو
بھارت کے یوم جمہوریہ کو کشمیری عوام بطور یوم سیاہ منائیں گے۔ اس روز
ریاست جموں و کشمیر کے دونوں اطراف مکمل ہڑتال ہوگی۔ کشمیری عوام اپنے حق
خودارادیت کے لئے جلسے جلوس، ریلیاں، احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دیں گے جن
میں اقوام عالم سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ کشمیریوں کو ان کا حق، حق
خودارادیت دے۔ کشمیری ہر دفعہ ہر موقع پر اپنے بھرپور احتجاجی مظاہروں اور
کئی دفعہ ایام سیاہ منا کر بھارت اور دنیا کو دوٹوک الفاظ میں ایک ہی پیغام
دیتے ہیں کہ کشمیری آزادی کے سوا کسی اور آپشن کو کبھی تسلیم نہیں کرینگے۔
سچ تو یہ ہے کہ خود بھارت کی بقاء و سلامتی اسی میں ہے کہ وہ اقوام متحدہ
کے چارٹر اور سکیورٹی کونسل کی منظور شدہ قراردادوں، پنڈت جواہر لعل نہروں
کے وعدوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے میں بنیاد پرستی اور ہٹ
دھرمی سے باہر نکل کر حقائق کا تاریخی پس منظر میں سامنا کرے۔اقوام عالم
میں مہاجر قومیت کا کوئی تصور نہیں اور فتح مندانہ وطن واپسی کے لئے ہجرت
کرنے والا ہی مہاجر لقب پانے کا اہل ہوتا ہے۔ کوئی دوسرا ہر گز نہیں۔ جس
طرح 1947ء میں جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے دو قومی نظریہ کی پیروی میں
الحاق پاکستان کے لئے لاکھوں جانیں قربان کیں اور ہجرت کے لئے لخت سفر
باندھا اور خون کے دریا سے گزر کر پاکستان کے حصار میں پہنچے، منظم ہوئے
اور کشمیر پر دشمن کے خلاف علم جہاد بلند کیا۔ آج ریاست کے بڑے حصے پر
اسلامی پرچم لہرا رہا ہے اور آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر قائم ہے۔ جس کا
اپنا صدر، اپنا وزیر اعظم، اپنی قانون ساز اسمبلی اور اپنی سپریم کورٹ ہے۔
پاکستان کی ایک آزاد اور خود مختار ذیلی ریاست ہے جو پاکستان کے ایٹمی حصار
میں باقی بھارتی مقبوضہ حصہ کو بھی برہمن سامراج سے نجات دلا کر پوری ریاست
کو پاکستان بنانے کے عزم کے ساتھ آزادی، اسلام اور پاکستان کے نام پر خون
کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔ شوقِ شہادت سے سرشار ہیں اور فتح مندانہ وطن
واپسی کے لئے بے تاب ہیں۔ وہ مہاجر کہلاتے ہیں اور جن کے پاس وطن واپسی کا
کوئی نہیں جواز نہیں رہتا وہ پناہ پر اکتفا کرلیتا ہے۔ وہ پناہ گزین ہوتا
ہے۔ وہ ہر گز مہاجر نہیں کہلا سکتا۔ حالانکہ دونوں نے ایک ہی وقت میں، ایک
ہی مقصد کے لئے ایک ہی قافلے میں ہجرت کیوں نہ کی ہو۔ حصول پاکستان کے لئے
سب خون آشاہوں سے دوچار ہوئے۔ دہشت گردی سے تاراج ہوئے، قافلے خون میں
نہلائے، عصمتیں لٹیں، سہاگ اجڑے، اپنے بچھڑے، کاروبار تباہ ہوئے، گھر بار
لٹے، جائیدادیں چھینیں، مگر ہجرت کے لافانی قانون، اصول اور ضابطوں کے
مطابق تارکین وطن کو پاکستان کے رائج الوقت آئین نے دو حصوں میں تقسیم کیا
اور ایک نیا محکمہ سیٹلمنٹ اینڈ ری ہابلیٹیشن ایکٹ1958ء کے تحت بنانے اور
پناہ گزینوں کو ان کی متروکہ جائیدادوں کے کلیم ’’معاوضہ‘‘ ادا کرنے کے لئے
محکمہ سیٹلمنٹ نے ایک ’’سرخ رنگ‘‘ کا کتابچہ جاری کیا اور اس کا نام درست
طور پر قانون کے مطابق معاوضہ کی کتاب اور جنہوں نے جموں کشمیر سے ہجرت کی
ان کا معیار پرکھ کر عارضی آباد کاری کے لئے ایک تو قائد اعظم نے ان کو
مہمان کا درجہ دیا اور دوسرا ان کے لئے ’’سبز رنگ‘‘ کا کتابچہ
Rehablitation Book یعنی بحالیات کی کتاب بنائی۔ اس طرح پناہ گزینوں کو
کلیم کا معاوضہ ادا کرکے ان کو Compelsate کردیا گیا اور جو مہاجرین ہیں ان
کو Rehablitate یعنی عارضی آباد کیا گیا۔ حکومت پاکستان نے اس قانون کے تحت
پناہ گزین کو معاوضہ کی ادائیگی کے لئے سرخ کتابچہ اور مہاجر کے لئے بحالی
کے طور پر سبز رنگ کے کتابچہ کے اجراء سے پناہ گزین اور مہاجر کا فرق واضح
ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ خوف و ہراس سے نجات پانے کے لئے اپنا گھر بارچھوڑ کر آنے والے
بھی Refugees یعنی پناہ کے لئے آئے ہوئے پناہ گزین کہلاتے ہیں۔ کچھ قدرتی
آفات یا موسمی تغیر و تبدل سے متاثر ہو کر ہجرت پر مجبور ہوتے ہیں وہ
Environmental یعنی موسمیاتی پناہ گزین ہوتے ہیں۔ کچھ سیاسی وجوہات کی بنا
پر ہجرت کرتے ہیں وہ Political Migration کرنے والے پناہ گزین ہوتے ہیں۔
ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنے ملک کے مقابلہ میں دوسرے ملک میں بہتر زندگی
گزارنے کا خیال کرتے ہیں۔ Cocial Migration کے عمل سے پناہ حاصل کرکے پناہ
گزین بن جاتے ہیں۔ ایک بے حد اہم Economic Migration جو بہتر ملازمت حاصل
کرنے کے لئے آ کر پناہ گزین ہو جاتے ہیں۔ اور ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو
Asylum Seeker ہوتے ہیں۔ یہ دونوں مسافر پناہ گزین تو بن جاتے ہیں مگر
مہاجر یعنی Immigrant نہیں کہلا سکتے۔ اب رہی بات قومیت کی۔ کیا واقع ہی ہر
قسم کے پناہ گزین ایک مہاجر قوم نہیں کہلا سکتے؟ تریخ عالم میں تاریخ اقوام
میں اور تاریخ اسلام میں مہاجر قوم کا کہیں کوئی ذکر نہیں کیونکہ ہجرتکے
وقت تارکین وطن کے قافلوں میں مختلف قوموں، ذاتوں، برادریوں، ملکوں اور
طبقوں کے مسلمان عوام ہوتے ہیں۔ کوئی سید، کوئی راجپوت، کوئی مرزا، کوئی
افغان سب یکجا ہجرت کررہے ہوتے ہیں۔ اب یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ان میں
سے پناہ گزین کا لفظ لغت میں سے ہذف کرکے متروک کردیا جائے اور مہاجر کا
رتبہ پا کر ایک علیحدہ مہاجر قوم کا سیاسی روپ دھار لیا جائے۔ یہ ہر گز نہ
مہاجر ہیں، نہ انصار ہیں اور نہ ہی کوئی قوم ہیں بلکہ قابل احترام ہم وطن
پناہ گزین ہیں، سچے محب وطن مسلمان ہیں اور ہجرت کی کٹھیالی کے کُندن ہیں۔
یاد رہے 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت پڑھے لکھے لوگوں کی بے حد کمی تھی
اس لئے خان لیاقت علی خان وزیر اعظم پاکستان نے تقسیم ملک کے بعد پڑھی لکھی
مسلمان شخصیات کو بھارت سے منگوا کر نہایت اہم عہدوں پر تعیناتیاں کیں۔ اس
زمانہ میں یہ اقدام کاروبار حکومت کے لئے ناگزیر تھا۔ یہ لوگ ملازمتیں حاصل
کرنے کے لئے بھارتی پاسپورٹ پر پاکستان کا ویزہ لگوا کر آئے اس لئے یہ کہنا
کسی طرح بھی درست نہیں ہوسکتا کہ ’’یہ پناہ گزین نہیں بلکہ مہاجر ہیں اور
مہاجر ایک قوم ہے‘‘۔ اب یہاں ایک سیاسی بہروپیے کا ذکر کرنے میں کوئی نہیں
کہ پاکستان کے دشمن نمبر ایک بھارت کی خفیہ ایجنسی’’را‘‘ کا آلہ کار غدار
پاکستان الطاف حسین کے والد پناہ گزین نذیر حسین اترپردیش آگرہ کی منڈی سے
Economic Migration کرکے آئے اور ریلوے میں اچھی ملازمت مل گئی۔ انکی اہلیہ
محترمہ خورشید بیگم کے بطن سے 17ستمبر 1953ء کو کراچی میں الطاف حسین کی
پیدائش ہوئی۔ ان کی فیملی جو صحیح سلامت بھارت سے ویزہ پر پاکستان پہنچی
تھی ان کی چار بیٹیاں اور سات بیٹے تولد ہوئے۔ الطاف حسین میٹرک کے بعد
بلوچ رجمنٹ میں کیڈٹ بھرتی ہو گیا۔ ان کے NSCS 1970 میں کیڈٹ نمبر 2642671
تھا۔ اس کے بعد الطاف نے 1971ء میں بنگال جاکر بنگلہ دیش فوج میں بھرتی
ہونے کی کوشش کی مگر ریکروٹنگ کرنے والے بنگالی آفیسر نے عذر کیا کہ آپ
مہاجر پناہ گزین کے بیٹے ہیں۔ اس لئے بھرتی نہیں کئے جاسکتے۔ اس پر الطاف
حسین نے کہا کہ ’’میں تو مہاجر نہیں ہوں 1953ء کو کراچی میں پیدا ہوا
ہوں‘‘۔ مگر انہوں نے انکار کردیا اور الطاف بھائی نے کراچی واپس آ کر
فارمیسی میں گریجویشن کرلی اور 1970ء کو بنگال میں زیر حراست پاکستانیوں کی
واپسی کے لئے مزار قائد اعظم پر مظاہرین میں شامل ہو کر خود زیر حراست ہو
گیا اور نو ماہ تک جیل کی ہوا کھائی۔ سزا بھگت کر باہر آئے اور آل پاکستان
مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن بنا لی۔ کچھ لوگوں کو ساتھ ملا کر 1997ء میں
سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا نام بدل کر مہاجر قومی موومنٹ‘‘ رکھ لیا پاکستان میں
ہارس ٹریڈنگ کو فروغ دیا۔ بھتہ خوری، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور حکومت
توڑنے کے سیاسی حربوں کے مرتکب ہوتے رہے اور صوبہ سندھ میں کراچی کو غلیدہ
کرکے جناح پور کے نام سے ایک علیحدہ خود مختار ریاست بنانے کے لئے سرگرم ہو
گئے۔ 1991ء میں ان پر قتل کا الزام لگا اور روپوش ہو گئے اور موقع پاکر
لندن بھاگ گئے۔ وہیں سے دشمن کی فنڈنگ سے پارٹی کی قیادت کرتے رہے۔ پیسے کے
زور پر جلسوں کا انعقاد ہوتا، دھمکیاں دی جاتیں، قتل کروائے جاتے، دھن
دھونس اور دھمکیوں سے ووٹوں سے ووٹ کاسٹ کروا کر نتائج حاصل کیے جاتے۔
حکومت میں حصہ اور پیسہ لیا جاتا جسے چاہتے موت کے گھاٹ اتروا دیتے، جیسے
چاہتے انتخابات میں جتوا دیتے، این اے 250کے الیکشن میں زہرہ شاہد حسین کے
قتل کے الزام میں اور 2013ء کو عمران قتل کیس میں نامزد ہو کر زیر تفتیش
ہیں اور الطاف نے خود ’’را‘‘ کا ایجنٹ ہونے کے الزام کی تائید کی ہے اور
اقبال جرم کے بعد میر جعفر اور میر صادق کا کردار بن گئے ہیں۔ یہ بھی ایک
خود ساختہ نام نہاد مہاجر ہیں جبکہ ان کے والد محترم بھی مہاجر تو درکنار
پناہ گزین بھی نہیں تھے بلکہ Ecomonmic Migrater (ملازمت کے لئے ہجرت) کرنے
والے تھے۔ اب یہ برطانیہ میں Sylum Seeker بن کر ملکہ برطانیہ کی وفاداری
کا حلف اٹھا کر وہاں کی شہریت حاصل کر چکے ہیں۔ یہ غدار وطن، دشمن قوم واپس
لندن سے پاکستان خود آکر تو کوئی جرم نہیں کرسکتا اس لئے وہیں سے ہدایات
جاری کرکے عمل کرواتا تھا۔ اس لئے ان کے ساتھیوں کو شامل تفتیش کرنا نہایت
ضروری ہے جو اس کی پارٹی سے علیحدہ ہونے کا ناٹک رچا کر قیادت بدل کر بہروپ
بدل کر پارٹی بدل کر الطاف کی قیادت میں علیحدہگی کے بیانات داغ کر لندن سے
ناطہ ختم کرنے کا یقین دلا کر بری الذمہ قرار پانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ
دراصل پارٹی کے نام بدل کر، قیادت بدل کر اور سیاست کا انداز بدل کر دھوکہ
دے رہے ہیں۔ یہ سب ’’را‘‘ کے ایجنٹ الطاف کے کارندے، ساتھی اورہمرکاب ہیں۔
اس لئے ان کو پوچھنا چاہیے کہ الطاف کے کہنے پر آپ نے کیا کیا گُل کھلائے
تھے۔ ان سے باقاعدہ ثبوت حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اقبال جرم کروائے جاسکتے
ہیں۔ ان کی نئی پرانی جماعتوں، تنظیموں اور اداروں پر پابندی لگن دینی
چاہیے۔ نہ یہ مہاجر ہیں، نہ مہاجر کسی قوم کا نام ہے،مہاجر کوئی قوم نہیں۔
وہی مئے ہے وہی میخانہ وہی ساقی ہے
اک فقط جام بدل دینے سے کیا ہوتا ہے
|