وقتی آسرا

ٹیڑھی انگلی کے استعما ل کا فلسفہ بڑا پراناہے۔جب کام سیدھے راستے سے نہ ہوتانطر آئے تو پھر اس کے لیے متبادل راستہ اختیار کیا جاتاہے۔یہ راستہ زیادہ تر منفی اور غیر روایتی ہوتاہے۔قانون او ردلیل سے ہٹ کر یہ راستا کسی طور قابل ستائش نہیں رہا۔مگر اسے استعمال کیا گیا۔اسکافائدہ اٹھا یا جاتارہا۔حکمران طبقے میں ٹیڑھی انگلیوں سے کام لینے کا رجحان نیا نہیں۔یہاں یہ پریکٹس عام ہے۔جب بھی یہ دیکھا گیا کہ قانون اور آئین کے تابع رہ کر کوئی معاملہ نبٹانا مشکل ہورہا ہے تو اس کے لیے کوئی ٹیڑھی انگلی والا راستہ ڈھونڈا گیا۔کبھی جعلی تحریکوں سے عوام میں کوئی خاص رجحان پیدا کیا گیا۔کبھی کٹھ پتلی عدالتوں سے اپنے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کے حق میں فیصلے لیے گئے۔جو کام بظاہر ناممکن نظر آرہا تھا۔اس طر ح کے ٹیڑھی انگلی کے طریقہ کارسے ممکن بنا یا گیا۔سابق وزیر اعظم نوازشریف کے پارٹی صدر بننے کے خلاف درخواستیں سپریم کورٹ نے منظور کرلی ہیں۔سپریم کورٹ نے عوامی نمائندگی ایکٹ 2017 کے تحت نااہل شخص کی پارٹی صدار ت کے خلاف پی پی۔تحریک انصاف۔شیخ رشید اور دیگر کی درخواستیں سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے ایکٹ کی منظور ی تک کی تمام تفصیلات طلب کر لیں ہیں۔سابق وزیر اعظم کو سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں تاحیات نااہل قرار دے دیا تھا۔اس فیصلے کے بعد ہفتوں تک سابق وزیر اعظم گومگو حالت میں رہے تھے۔مخالفین کی طرف سے ایسا تاثر دیا گیا جیسے مائنس ون کا فارمولہ کام کرچکا ہے۔نوازشریف کو پاکستانی سیاست میں سے نکال باہر کردیا گیاہے۔تاھیات نااہلی ایک ایسا کاری وارتھی جس کے بعد نوازشریف کے لیے کم ازکم فوری طور پر سیاسی واپسی ممکن نہ تھی۔انہوں نے ہمت نہ ہارتے ہوئے ایک تو اسلام آباد سے لاہور واپسی کے لیے بائی روڈ آنے کا فیصلہ کرکے عوامی موڈ کو ٹٹولا۔جب اسے حوصلہ افزا پایاتو اس کے بعد اسمبلی میں اپنی اکثریت کو اپنی پارٹی صدارت کی بحالی کے لیے استعمال کیا۔قانونی طور پر وہ اب اپنی پارٹی کے صدر ہیں۔اس عہدے کے تحت وہ اب سیاسی جلسے جلوس کرنے میں آزاد ہیں۔اسی صدار ت کے عہدے کے خلاف پی پی۔تحریک انصاف۔اور شیخ رشید وغیرہ نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔سپریم کورٹ نے درخواستوں کے قابل منظور ہونے کے بعد نوازشریف کو نوٹس جاری کردیے ہیں۔

کچھ میڈائی دانشور اس پوائینٹ پر بھولے بھالے عوام کو گمراہ کرہے ہیں کہ نوازشریف او رعمران خاں کی منی ٹریل میں ایک بڑا فرق عوامی عہدہ نہ رکھنے کا ہے۔عمران خان نے جن دنوں آف شور کمپنی بنائی۔فلیٹ خریدے یا فروخت کیے ان کے پاس کوئی عوامی عہدہ نہ تھا۔اس لیے ان سے اس بارے کوئی استفسار نہیں کیا جاسکتا۔دوسری طرف نوازشریف نے لندن پراپرٹی سمیت جو دوسرے ممالک میں انڈسٹریز اور جائدادیں بنائیں اپنے دور اقتدار میں بنائیں۔اس لیے وہ جواب دہ ہیں۔ میڈیائیٓ جادوگروں کے مطابق نوازشریف نے ملک کو لوٹ کر اثاثے بنائے جبکہ عمران خاں نے نلک کو نہیں لوٹا۔بھولے بھالے عوام ان کے جھانسے میں آکر عمران خاں کی دولت کو ناقابل استفسار ماننے لگے ہیں۔سوال یہ ہے کہ آیا چوری اور کرپشن صرف اس وقت جرم سمجھی جانی چاہیے جب ایسا کرنے والا کسی سرکاری عہدے پر فائز ہو۔اگر کوئی بندہ کسی حکومتی یا سرکاری عہدے پر موجود نہ ہو تو اس کی کرپشن اور لوٹ مار کو جرم نہ مانے جائے؟ اگر اس وقت عمران خاں اور نوازشریف کے اثاثوں کا حساب لگایا جائے توکروڑوں میں ہیں۔دونوں کی رہائش گاہیں ایکڑز پر محیط ہیں۔بینک بیلنس کروڑوں میں۔مگر دونوں سے پرسش میں میڈیا ئی جادوگر سرکاری عہدہ ہونے نہ ہونے کا عجب فلسفہ جھاڑ رہے ہیں۔عام بندہ تو اس الجھن میں تھا کہ شریف فیملی تو ایک صنعت کار گھرانہ ہے۔اس کی فیکٹریاں دوگنی چوگنی ہونے کا اندازہ ہوسکتاہے۔مگر عمران خاں جن کو کرکٹ چھوڑے عرصہ ہوگیا۔ان کے پاس اتنے اثاثے کیوں کر آگئے۔وہ خو د تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا کوئی بزنس نہیں پس کرکٹ۔کمنٹری اور تجزیوں سے کام چل رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ کسی دوسرے کرکٹ پلئیر سے متعلق اس کمنٹری اورتجزیوں سے اتنے اثاثے اکھٹے کرلینے کی نظیرکیوں نہیں مل رہی؟ جانے عمران خاں کے پاس ایسا کون سا جادوہے؟ جو وہ ارب پتی بن بیٹھے۔اب ان کا کسی سرکاری عہدے پر نہ ہونا میڈیائی جادوگروں کے بقول عدم پرسش کا باعث بن رہاہے۔

سابق وزیراعظم عدلیہ سے غیر مساوی رویہ اپنائے جانے کا گلہ کررہے ہیں۔وہ اپنی نااہلی کو کسی سازش سے تعبیر کررہے ہیں۔وہ کہ رہے ہیں کہ ان کی حکومت کے خلاف پہلے ہی دن سے سازشیں شروع کردی گئی تھیں۔نوازشریف کے گلے کو سنجیدہ طبقے بے وزن نہیں سمجھتے۔عمران خان نااہلی کے فیصلے کو جسٹی فائی کرنا آسان نہیں۔نوازشریف کو تو اقامہ کی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا گیا۔جبکہ عمران خاں کو ادھوری منی ٹریل اور آف شور کمپنی کے اعتراف کے باوجود سچااور ایماندار قرار دے دیا گیا۔عدالتی فیصلے سے نوازشریف ناہل تو ہوگئے مگر ان کے مخالفین پوری طرح مطمئن نہیں ہوپارہے۔ان کی بے چینی کم نہیں ہوئی۔عمران خاں ایک طویل جلسہ پروگرام میں مصروف ہیں۔ابھی ان کا کام ختم نہیں ہواکہ ان کے جوڑی دار بھی تازہ دم ہوکر کینیڈا سے پلٹ آئے۔علامہ صاحب جسٹس باقر نجفی رپورٹ کو لیکر کسی نئے کنٹینر مشن کی داغ بیل میں لگے ہوئے ہیں۔سیاسی کزن کی مصروفیات اس بات کا ثبوت ہے کہ نوازشریف کے مخالفین کے لیے عدلیہ سے نااہلی سے کوئی بڑا فائدہ نہیں ہوپایا۔عدالت سے صرف وقتی آسرا ہی حاصل ہوپایا ہے۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123401 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.