پاکستان کی 70 سالہ تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو اس میں
سیاستدانوں نے کم اور ڈکٹیٹر شپ نے زیادہ عرصہ حکمرانی کی جس کی وجہ سے
اکثر سیاست دانوں کے رویے بھی جمہوری نہ رہے اور ان کے لہجے اور انداز
حکمرانی میں بھی جمہوریت کم اور آمریت زیادہ نظر آئی ،قیام پاکستان کے وقت
سے لے کر آج تک کوئی بھی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکا کسی کو قتل کر
دیا گیا تو کسی کو پھانسی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ،کسی کو صدر نے برطرف کیا
تو کسی کو عدالت نے نا اہل قرار دیا رہی سہی کسر فوجی آمریت نے پوری کی۔ملک
کی سیاسی پارٹیاں اس کا ذمہ دار حکمرانی کا شوق رکھنے والی فوجی آمریت اور
نظریہ ضرورت ایجاد کرنے والی عدلیہ کو قرار دیتے ہیں ، لیکن میرے اور عام
عوام کے خیال میں جمہوریت پر شب خون مارنے میں ان دو اداروں سے زیادہ
سیاستدانوں کا کردار زیادہ ہے ، سیاسی حکمرانوں کی اپنی نا اہلی ہے کہ ملکی
مفادات کو ترجیح دینے کے بجائے انہوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کا تحفظ یقینی
بنایا اور ملکی ترقی یا عوام کو متحد کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگیں
کھینچنے میں مصروف نظر آئے، یا پھر جب بھی عوام نے ان کو بھاری مینڈیٹ دیا
وہ اپنے آپ کو سیا ہ و سفید کا مالک سمجھنے لگے اور یوں سیاستدانوں میں بھی
آمریت آ گئی جس کے نتیجے میں ملک میں امن و امان کی فضاء خراب ہوئی اور فوج
کو تختہ الٹنے کا جواز ملا اور اس نے اقتدار سنبھال لیا اور عدلیہ نے جہاں
کی ہو ا دیکھی اپنا رخ ادھر ہی موڑ لیا ، اگر سیاستدان جمہوریت کے ساتھ
مخلص ہوتے تو یہاں پہنچ کر بھی معاملات کو مستقبل کے لیے سلجھا سکتے تھے
لیکن جیسے ہی کوئی جمہوری حکومت ختم ہوئی مخالف سیاسی پارٹیوں نے مٹھائیاں
بانٹی اور ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے ، دوسرے لفظوں میں آپ یوں کہہ سکتے
ہیں کہ فوجی آمروں کو خوش آمدید کہا ۔
لیکن سیاسی لیڈر جب عوام کے سامنے تقریریں کرتے ہیں اور بابائے جمہوریت
بنتے ہیں تو الزام فوج کو دیتے ہیں اور ساتھ عدلیہ کو کوستے ہیں کہ اس نے
فوجی آمریت کو تحفظ فراہم کیا اس وقت اپنے گریبانوں میں نہیں جھانکتے ۔عدلیہ
نے تو نوکری جانے کے ڈر سے نظریہ ضرورت ایجاد کیا اور مجبوراََ حلف اٹھا
لیا لیکن سیاسی پارٹیوں نے اپنا حصہ وصول کرنے کی غرض سے نہ صرف مٹھائی
تقسیم کی بلکہ فوجی بوٹ پالش کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
مسلم لیگ کی موجودہ حکومت کا پچھلی حکومتوں اور اس کے اپنے پچھلے ادوار کے
ساتھ موازنہ کیا جائے تو اس بار پہلے کی بہ نسبت کافی بہتر انداز میں حکومت
کا نظام چلا رہے تھے۔ طویل عرصے بعد عوام کو امید پیدا ہوئی تھی کی اب ملک
کی معیشت بہتر ہو جائے گی اور ملک ترقی کرے گا اور حکومتی پالیسیوں کی وجہ
سے ڈالر 108 روپے سے 98 روپے پر آگیا تھا، لوڈ شیڈنگ پر بڑی حد تک قابو پا
لیا گیا ، امن و امان کی صورت حال ستر فیصد بہتر ہو گئی ، کراچی میں طویل
عرصے بعد معاشی سرگرمیاں دیکھی گئیں، سٹاک ایکسچینج نے بلندی کے نئے ریکارڈ
قائم کیے، ملک کے سیاحتی مقامات کی رونقیں بڑی حد تک بحال ہو گئیں، ڈرون
حملے نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے۔
لیکن اچانک عالمی سطح پر پانامہ لیکس کا شور بلند ہوا اوربہت سی عالمی
شخصیات کے ساتھ ساتھ پاکستان کا حکمران خاندان بھی اس کی زد میں آ گیا اس
اچانک حملے سے شائد شریف فیملی سنبھل بھی جاتی لیکن ان کے نالائق مشیروں
اور وزیروں نے ان کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا اور ان کو نا اہل کروا کر ہی
دم لیا ، نواز شریف کو جب بھی اقتدار ملا اس کے کچھ عرصہ بعد وہ اپنے آپ کو
ناقابل شکست اور امیر المومنین سمجھنے لگے اور ان کی گردن میں سریا آ گیا ،
نا اہل مشیروں نے سب اچھا اور عوام کی بے وقوفی کی رپورٹ پیش کی کہ کچھ
دنوں میں لوگ سب بھول جائیں گئے اور بادشاہ سلامت نے نے بھی یہ سوچ لیا کہ
سارا ملک اور ساری حکومت انہی کے دم سے چل رہی ہے اگر وہ نہ رہے تو ملک کا
دیوالیہ نکل جائے گا اور ان کے جانے کے غم میں عوام پاگل ہو جائے گی، اور
ملک خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا اگر وہ پارٹی صدر نہ رہے تو پارٹی بکھر
جائے گی اور دوسری سیاسی پارٹیاں اس کو بانٹ کر کھا جائیں گی لیکن یہ میاں
صاحب کی غلط فہمی تھی یا پھر ان کی نالائقی کہ اپنے تیس سالہ دور میں وہ
اپنی پارٹی میں کوئی ایسا لیڈر ہی نہ تیار کر سکے جو ان کی جگہ فوراََ
پارٹی یا حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھال سکے یا پھر اپنے پارٹی رہنماؤں پر
اعتماد کرنے کو تیار نہیں کہ ایک دفعہ کسی کو اپنی سیٹ دے دی تو کیا پتا
دوبارہ نہ مل سکے۔
پانامہ لیکس کے آتے ہی میاں صاحب جمہوری اور عوامی لیڈر کے طور پر مستعفی
ہو جاتے تو شائد ان کو اتنا نقصان نہ اٹھانا پڑتا جتنا آج ان کو ہوا
ہے ، غیر متوقع عدالتی فیصلے نے میاں صاحب کو اتنا دکھ دیا کہ انہوں نے
عدلیہ پر الزامات لگانے شروع کر دیے اور جی۔ٹی روڈ مارچ شروع کر دیا اس
مارچ نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور جو ادارے میاں صاحب کے بارے میں نرم
گوشہ رکھتے تھے وہ بھی ان کے خلاف ہو گئے مارچ سے خاطر خواہ کامیابی نہ
ملنے کی صورت میں اب بادشاہ سلامت کو تحریک عدل یاد آگئی اور عام پاکستانی
کی طرح ان کو بھی پتا چل گیا کہ عدالتوں میں انصاف نہیں ہو رہا بلکہ بک رہا
ہے،
اب میاں صاحب پاکستان کی معصوم عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کریں گئے کہ ملک
میں جتنی بھی خرابیاں ہیں وہ عدلیہ کی پیدا کردہ ہیں یہاں تک بھی عوام ان
کی بات ماننے کے لیے تیار ہو جاتے اگر بادشاہ سلامت نے تیس سال حکومت نہ کی
ہوتی ، لیکن اب 2018 ہے عوام کو سمجھ آگئی ہے کہ اس وقت میاں صاحب نہ ملک
کی خاطر تحریک عدل چلا رہے ہیں اور نہ ہی اپنی حکومت کی خاطر بلکہ وہ اس
وقت صرف اور صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچ رہے ہیں میں بھی بحثیت پاکستانی
میاں صاحب اور ان کے کارکنان سے کچھ سوالات کر رہا ہوں کیا آپ عوام کو ان
کے تسلی بخش جوابات دے سکیں گئے؟
میاں صاحب! جو کچھ آپ کے ساتھ عدلیہ نے کیا ہے کیا پاکستانی عوام کے ساتھ
70 سال سے یہی ظلم نہیں ہو رہا ؟ کیا آپ کے پچھلے ادوار میں عوام کو تیز
ترین اور سستا انصاف میسر تھا اگر نہیں تو اس وقت دو تہائی اکثریت کے
باوجود کبھی اس قانون کو بدلنے کی کوشش کی یا کوئی ایسا قانون بنانے کی
کوشش کی جس سے عام عوام کا عدالتوں پر اعتماد بحال ہوتا اور عدلیہ عوام کو
انصاف بھی فراہم کرتی اور فوجی آمروں کو تحفظ بھی فراہم نہ کرتی؟ ذولفقار
بھٹو کی پھانسی کے بعد 20 سال تک کبھی آپ نے کہا کہ عدلیہ نے غلط اقدام
اٹھایا ہے؟ بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازشوں میں کیا آپ شریک
نہیں تھے اگر نہیں تھے تو کیا آپ نے اس وقت تحریک عدل چلانے کے بارے میں
سوچا تھا؟ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف دونوں وزراء اعظم عدالتوں
میں پیش ہوتے تھے تو کیا اس وقت پارلیمنٹ بالا دست نہیں تھی؟ آپ تو اس وقت
خود کالا کوٹ پہن کر عدالتوں میں پیش ہوتے تھے کیا ان کے لیے الگ قانون اور
آپ کے لیے الگ قانون ہونا چاہیے تھا؟
میاں صاحب! آپ کے پچھلے ادوار میں سیاسی انتقام کے طورپر کتنے لوگوں کو جیل
ڈالا گیا اور عدالتوں نے آپ کی مرضی کے فیصلے کیے کتنی مذہبی جماعتوں کے
کارکنوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا ؟ اس وقت آپ کو عدالتی نظام کی
بوسیدگی یاد نہ آئی ہر پاکستانی جانتا ہے کہ ملک کی عدلیہ کو اس وقت اصلاح
کی ضرورت ہے لوگوں کی نسلیں پیشیاں بھگت بھگت کر دنیا سے چلی گئی عوام بھی
تحریک عدل چلانا چاہتے ہیں لیکن عوام کو یہ بھی پتا ہے کہ آپ ان کے کندھے
پر بندوق رکھ کر اپنے آپ کو بچانا چاہتے ہیں ، اگر آپ کو واقعی عوام کی اور
عدالتی اصلاحات کی فکر ہوتی تو اس وقت عوام بھی آپ سے خوش ہوتی اور آپ کے
ساتھ بھی نا انصافی نہ ہوتی۔
میاں صاحب ! آپ کو انصاف کی سستی اور غلطی اس وقت نظر آئی جب عدالت نے آپ
کے خلاف فیصلہ دیا ورنہ اپ نے سو سال تک کسی ایسی تحریک کا سوچا بھی نہ تھا
اب یہ کہہ کر معصوم بننے کی کوشش نہ کریں کہ آپ کو عدالتی نطام کی خرابی کا
نہیں پتا تھا وہ دن یاد کیجئے جب لوگ آپ کے آفس کے باہر تیل چھڑک کر اپنے
آپ کو آگ لگا رہے تھے ، اس شخص سے پوچھیے جس کا باپ اور دو چچا کیس لڑتے
لڑتے اس دنیا سے چلے گئے اور اس کو مرنے کے دو سال بعد باعزت بری کیا گیا
یہ آپ کے موجودہ دور کا ہی واقعہ ہے ۔ اس بندے کو بھی جا کر پوچھیں جس کو
36 سال بعد اپنے پلاٹ کا قبضہ ملا ۔ مجھے یقین ہے کہ اگر یہ فیصلہ بھی آپ
کے حق میں آتا تو کبھی آپ عدالتی نظام کی بہتری کے لیے نہ کھڑے ہوتے اس لیے
یہ تحریک آپ اپنی ذات کے لیے چلا رہے ہیں اور شوق سے چلائیے لیکن اب عوام
آپ کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائے گی کیونکہ بہت دیر ہو چکی ہے ۔ |