انور ؔ جلال پوری ایک ایسی شخصیت کانام ہے، جن کا ذکر ِخیر
ہوتے ہی نوجوان نسل کی دنیا میں بالعموم ایک ناظم مشاعرہ یا ایک معروف شاعر
کی تصویر ابھر آتی ہے، بالفاظ دیگر ان کے ان دونوں اوصاف کا ذکر ہی زبان زد
خاص وعام ہے ،مگرحقیقت یہ ہے کہ وہ نثری سمندر کے بھی شناور ہیں اورخطیبانہ
صلاحیت وبصیرت فطرت سے پائی ہے ۔ جہاں انہوں نے شاعری کی تمام اصناف سخن پر
طبع آزمائی کی وہیں بحیثیت ایک اچھے اور سلجھے نثر نگار ان کے قلم گہر بار
سے متعدد تنقیدی ، شخصی اورتاثراتی مضامین منصہ شہود پر آئے ۔ یکساں طور پر
حمد ،نعت ، نظم ، قصیدہ ،مرثیہ اورقطعہ وغیرہ تمامی اصناف سخن ان کی دلچسپی
کی مرکز رہیں ۔ شاعری کے حوالہ سے خمار بارہ بنکوی ،بشیر بدر ، راحت اندوری
اورمنور رانا پرا ن کے پر مغز مضامین انتہائی دلچسپ اورنغمگی آمیز ہے ۔ اسی
طرح شخصی مضامین کی فہرست میں چند قابل ذکر مضامین مظفر حسین کچھوچھوی ،
مولانا ضمیر احمد اور ڈی این آریہ پر انتہائی سلیس اورمعلومات افزاہیں
اوراس پر مستزاد ان کے عناوین بھی بڑے دلکش اوردلآویز ہیں ۔
اسلم الٰہ آبادی یوں رقمطراز ہیں :
انور جلال پوری ایک شاعر کے ساتھ ساتھ ایک اچھے نثر نگار بھی ہیں ،
ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال کے حوالہ سے انور کے مضامین بڑی اہمیت کے حامل
ہیں ۔․․․․․․․․․․وہ فطری طورپر ایک خطیب ہیں ، خطیبانہ صلاحیت ان کو خدا کی
طرف سے ودیعت ہے۔ ان کی افسانوی ورومانی نثر ایک تاثراتی فضا ہموار کرتی ہے
، ان کا مکالماتی لہجہ قاری کو دعوت ِفکر دیتا ہے ۔
انور جلالپوری کی شعری ونثری کئی ایک تصنیفات زیورطبع سے آراستہ ہوکر منظر
عام پر آچکی ہیں ، جن کا حلقہ ادب میں بڑی قدرو قیمت ہے اور گلدستۂ داد
وتحسین سے بھی نوازی گئیں ۔ شعری تخلیقات میں ’’کھارے پانیوں کا سلسلہ
‘‘،’’خوشیوں کی رشتہ داری‘‘اورحمدیہ اورنعتیہ مجموعوں میں ’’ضربِ لا الہ‘‘،’’حرف
ابجد‘‘اور’’جمال محمد ‘‘قابل ذکر ہیں ، بالعموم ادبی اور بالخصوص مذہبی
حلقے میں ان حمدیہ اورنعتیہ مجموعوں کی بڑی عقیدتمندانہ پذیرائی ہوئی ۔
نثری تخلیق میں ’’روشنائی کے سفیر‘‘بھی انتہائی اہم ہے ۔ حلفائے راشدین کے
تعلق سے ان کے متعدد طویل نظمیں بھی ہیں ، جو زیرترتیب ہیں اور ادبی
وتنقیدی مضامین کا گراں قدر سرمایہ محفوظ ہیں ، افادہ ٔ عام کے لئے جنہیں
منظرعام پر لاناضروری ہے ۔
انورجلال پوری کی ابتدائی تعلیم مقامی مدرسہ اسلامیہ میں ہوئی ، 1962-64میں
انہوں نے نریندر دیو کالج جلالپور سے ہائی اسکول اورانٹر پاس کیا ، 1965میں
اعلی حصول تعلیم کی غرض سے شبلی کالج اعظم گڈ ھ میں داخلہ لیا۔ چونکہ انور
نے خطابت کا دلکش انداز اورسحر بیانی فطرت سے پائی تھی ، اس لئے کالج کے
غنچہ ٔ خطابت ونظم خوانی کے مقابلہ آرائی میں بڑی شہرت کمائی ، ان کی تقریر
دل پذیر کی اتنی پذیرائی ہوئی کہ یونین کے الیکشن میں سکریٹری منتخب ہوئے ۔
مسلم یونیورسٹی علی گڈھ کے زمانہ ٔ طالب علمی میں ہرطرح ان کی شخصیت کی نشو
ونما ہوئی ۔
اب آئیں !ذرا انور جلال پوری کی شاعرانہ پھول کیاریوں سے چند دلکش پھول چن
لیں اورمشام جاں کو معطر کریں ، ان کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری جس کی پذیرائی
حلقہ ادب ومذہب میں خوب ہوئی ،میں چند اشعار کچھ یو ں ہیں :
زبان ِ ناقص سے کیا بیاں ہو خدائے برتر کمال تیر ا
نگاہ و دل میں سمارہا ہے جلا ل تیر ا ، جمال تیر ا
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
تیرے ہی اک لفظ کن کے صدقہ میں بن گئی کائنات ساری
ازل سے یو م النشور کی شام تک ہے تیر ا ہی فیض جاری
․․․․․․․․․․․․․
حسین تر ہے ، عظیم تر ہے ، یہ رتبہ لازوال تیر ا
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
حیات تجھ سے ، ممات تجھ سے ، حقیقت کائنات تجھ سے
تمام سمتوں کی بات تجھ سے ، فسانہ ٔ شش جہات تجھ سے
․․․․․․․․․․․․․․․․․․
حکومت ِ غرب وشرق تیری ، جنوب تیرا شمال تیرا
اور
تیراہی ذکر بلند کرنا جہاں میں شاعر کی آبرو ہے
یہی تو انور کی ہے تمنا، یہی تو انور کی آرزوہے
․․․․․․․․․․․․․․․
تواس سے پہلے ہی موت دے دے نہ دل میں ہو خیال تیرا
مذکورہ بالا اشعار میں عاجزی و انکساری بلکہ فروتنی کی ایسی جھلک کہ انسانی
زبانِ ناقص سے خداکی شان کبریائی وتعلی کی ثناخوانی سے قاصر ہے ، نگاہ ودل
میں خداکا جمال و جلال سمارہا ہے ، انورؔ خداکا حمد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
ازل سے تیرا فیض جاری ہے اورتاصبحِ قیامت جاری رہے گا ، تیری خلاقیت کی
مہریں چاردانگ عالم پر ثبت ہیں ، تجھ سے ہی موت وزیست اورحقیقت ِکائنات
مربوط ہے اور شاعر کی آبرو خالق کی ثناخوانی، اس کی شان کبریائی اورہمہ دم
اس کے گن گانے ہی میں ہے ، اس لئے ان کی آرزو وتمناکہ پل پل گزرے تو خدا کی
تعریف و توصیف یعنی حمد میں ۔
انور کے یہاں رسمی حمدیہ اشعار نہیں بلکہ ہر ایک شعر عشق خداسے معمور ہے
اور بندگی کے احساس سے لبریز بھی ، انسان کی کم مائیگی وبے بضاعتی پر محیط
ہے اورخداکے فضل وکرم کی امید سے سرشار بھی ، یہی وجہ ہے کہ دربارِ خدا میں
مومن کی تاثیر و قوت اورجرأت وشجاعت کے لئے دست سوال دراز کرتے ہوئے کہتے
ہیں :
یارب دلِ مومن کی آہوں میں اثر دے دے
بازوئے مسلماں کو جبرئیل کے پردے دے
․․․․․․․․․․․․․․․․․
اسلاف کی جرأت کا ہورگ میں لہوجاری
مرنے کے لئے ہم بھی کرنے لگیں تیاری
․․․․․․․․․․․․․․․․
اس جام ِ شہادت کے پینے کا ہنردے دے
․․․․․․․․․․․․․․․․․
صدیق ؓکی عظمت کے پرچم ہوں مکانوں پر
فاروق ؓکی مدحت کے نغمے ہوں زبانوں پر
․․․․․․․․․․․․․․
عثمانؓکادل دے دے ، حیدر ؓ کا جگر دے دے
ان اشعار میں تضمینات کی دلکشی اپنے جلوے بکھیر رہی ہے تو خلفائے راشدین سے
حقیقی لگاؤ اورگہری عقیدت کا بھی اظہار ہورہا ہے ۔ دنیا کی بے ثباتی اورخدا
کی ابدیت پر انور کچھ اس طرح نغمہ سنج ہیں :
نہ یہ دن نہ یہ رات باقی رہے گی
بس اﷲ کی ذات باقی رہے گی
نہ گردش میں صدیوں زمانہ رہے گا
سداتو کسی کا نہ سکہ چلے گا
ہمیشہ نہ کوئی جنازہ اٹھے گا
نہ خوشبو کی برسات باقی رہے گی
بس اﷲ کی ذات باقی رہے گی
حمد سے زیادہ سمندرنعت کی شناوری نازک کام ہے، اس میدان میں قدم پھونک
پھونک کر رکھنا ہوتا ہے اور قوت بیان کی ڈور کو لگام کسنے کے بعد ہی کچھ
کہاجاتا ہے ، مباد فرط ِ عقیدت اورجوش میں بشریت کا سرا الوہیت سے نہ جاملے
، اسی احساس کے ساتھ عرفی نے کہا نعت کہنا تلوار کی دھار پر چلنے کے مرادف
ہے ۔ انورکے اندر عشق نبی کوٹ کوٹ کر بھری ہے ، وفورِ محبت سے ان کا انگ
انگ بھرا ہے، چنانچہ وہ محتاط انداز میں صنف نعت ومنقبت پر طبع آزمائی کرتے
ہیں ، سیرت رسول اکرم ﷺپر ان کی بانوے بند کی طویل نظم اس کی شاہکار ہے ،
اس لئے انور خود کہتے ہیں ’یہ نظم مجھے اپنا اتنا بڑانمایا ں کامیابی
دکھائی پڑرہی ہے کہ آئندہ میرے لئے اب اس جیسے چند بند کہہ پانا بھی ناممکن
سا ہے‘۔
عشق نبی ﷺ سے شرشار ہوکر فرطِ عقیدت میں یوں نغمہ سنج ہیں ــ:
تیرا مقام بلندمصرع ِ بلغ العلا
تیر ی جس کا جلال آیۃ تبت یدیٰ
کون تعین کرے کیا ہے ترا مرتبہ
تجھ سے اور معبود میں ہے میم کا فاصلہ
․․․․․․․․․․
تیرے لئے ایک گام عرش معلی کی راہ
تیری غلامی کریں دہر کے سب کج کلاہ
اور
رسول مقبول ہم سبھی کے دکھے دلوں کا سلام لے لو
ہماری آنکھوں سے بہنے والے ان آنسوؤں کا سلام لے لو
تمہاری چوکھٹ پہ ساری دنیا کے شاہ بھی ہیں فقیر
ذرا نگاہیں اٹھا کے اپنے گداگروں کاسلام لے لو
تمہاری فرقت میں لوگ دنیا کے گوشے گوشے میں مضطرب ہیں
جولوگ قسمت سے آچکے ہیں ان عاشقوں کا سلام لے لو
اور
جلوہ ٔ حسن الہی نورِ احمد بن گیا
کن کی تفصیلات کاوہ حرف ِ ابجد بن گیا
اولیں شہود وشاہد اوراشہد بن گیا
اس زمین پر جب وہ آیا تومحمد بن گیا
․․․․․․․․․․․․․․
نورِ احمد جوبنے ٹکڑا اس کی نوری ذات کا
جو بلاشک ہے سبب تخلیق موجود ذات کا
اور
وہ نبی جس کا فرشتوں پر بھی واجب احترام
وہ نبی روز اول سے ہے جو نبیوں کا امام
وہ نبی ہونا تھا جس کو ذات حق سے ہم کلام
وہ نبی بعد ازخدا ہے جس کا اعلی ترمقام
دنیاے تغزل میں قدم رکھتے ہی بالعموم حسن و عشق کی صدائیں باز گشت ہی سنائی
دیتی ہیں ، شعراء عشق وعاشقی کے ساز سے ہردل پر اپنا ایک اثر چھوڑتے چلے
جاتے ہیں ، درحقیقت غزل تو ہے بھی یہی ’حکایت بہ یارگفتن ‘۔ مگر اس حقیقت
سے بھی مجال انکار نہیں جوں جوں حالات کا مذاق بدلا اسی طرح تغزل میں بھی
تبدیلی آئی ، حالات کے بد لے مذاق سے لطف اندوزی کے لئے انور کی غزلیہ
شاعری کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتاہے ۔
سیلاب آیا ڈوب گئی فصل دھان کی
پانی کے ساتھ بہہ گئی قسمت کسان کی
پہلے لوگوں میں محبت تھی ریاکاری نہ تھی
ہاتھ اور دل دونوں ملتے تھے اداکاری نہ تھی
․․․․․․․․․․․
ہواہو تیز تو شاخوں سے پتے ٹوٹ جاتے ہیں
ذرا سی دیر میں برسوں کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں
اور
اس ناامید شخص نے یوں کی ہے خود کشی
ناخن کی تیز دھار کو خنجر بنالیا
․․․․․․․․․․․․․․․
دل کہیں ، ذہن کہیں ، جسم کہیں روح کہیں
آدمی ٹوٹ کے بکھرا کبھی ایسا نہ تھا
․․․․․․․․․
قتل دو ، اک رہزنی ، اس کے علاوہ شہر میں
خیریت ہی خیریت ہے حادثہ کوئی نہیں
انور کی نظمیہ شاعری بھی ہر ایک کو دعوت فکر کے ساتھ آگے بڑھنے کا حوصلہ
دیتی ہے :
دوستوں آؤاسی وقت وعدہ کرلیں
ہم کبھی جہد مسلسل سے نہ منہ موڑیں گے
ہم سدا عزم مصمم کا سہارا لے کر
جہل کی ہرکسی زنجیر کو ہم توڑیں گے
ہم سے وابستہ ہے مستقبل زریں کا فروغ
ہم نئے دور کی اقلیم کے شہزادے ہیں
ذرا نور کے فلمی نغمے کی دنیامیں بھی تو آئیے !
سسک رہی ہے زندگی ،حیات بانٹ دو
تم آج اپنے حسن کی زکوۃ بانٹ دو
مہکتی ہے تمہارے دم سے آج یہ فضا
تمہاری بات چیت میں ہے کس قدر مزہ
یہ مست مست گفتگو یہ بات بانٹ دو
تم آج اپنے حسن کی زکوۃ بانٹ دو
اور
ہیرو:
جس لڑکی سے پیار ہے مجھکو
وہ لڑکی البیلی ہے
سر سے پاؤں تلک وہ گوری
چمپا اورچمیلی ہے
ہیروئن :
جس لڑکے کو دل دے بیٹھی
وہ لڑکا البیلا ہے
تتلی ، کلیوں اورپھولوں کے
ساتھ وہ برسوں کھیلاہے
جی ہاں ! انور جلال پوری کی دنیائے شاعری حمد ونعت سے معمور ہے تو سماجی
ناہمواریوں کی دلدوز داستان بھی شعری جامہ میں موجود ہے ، ملی وقومی ہمدردی
کی کسک دکھائی دیتی ہے تو فلمی نغموں میں حسن وعشق کی جھلک بھی ۔ اسی طرح
مذہبی پس منظر بھی ان کی شاعری میں ملتی ہے ۔ |