"افلاطون" کے عنوان پر علامہ اقبال ضرب کلیم میں فرماتے
ہیں کہ،
نگاہ، موت پہ رکھتا ہے مرد دانشمند
حیات ہے شب تاریک میں شرر کی نمود
حیات و موت نہیں التفات کے لائق
فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود
قدیم یونانی فلسفی افلاطون کی فکر مغربی سیاسی فلسفہ اور بہت حد تک اخلاقی
اور مابعدالطبیعیاتی فلسفہ کے نقطہ آغاز کو ظاہر کرتی ہے۔ ان موضوعات پر اس
کے معروضات کو دو ہزار تین سو برسوں سے پڑھا جارہا ہے۔ افلاطون کا شمار
مغربی فکر کے عظیم بانیوں میں ہوتا ہے۔
افلاطون ۴۲۹ ق۔م میں ایتھنز میں پیدا ہوا۔ اس کا اصل نام اسطاکلیس تھا۔ اس
کے والد کا نام ارسٹون اور اس کی والدہ کا نام پرکشی ٹون تھا۔ افلاطون کا
خاندان ایتھنز کے شاہی خاندان کے باقیات میں سے تھا۔ افلاطون کے دو بھائی
اور ایک بہن بھی تھی۔ افلاطون کی عمر ابھی تین یا پانچ سال ہی تھی کہ اس کے
والد کی ایک شدید بیماری سے موت واقع ہوگئی۔ ارسٹون کی وفات کے بعد افلاطون
کی والدہ نے اپنے قریبی رشتہ دار سے شادی کرلی جو ایرانی بادشاہ کے محل میں
سفیر تھا۔ افلاطون بچپن ہی سے بہت ذہین تھا اس لیے اس نے لڑکپن اور نوجوانی
میں کتابوں کا بہت مطالعہ کیا۔ اس نے اسوقت کی مشہور و معروف کتابوں کو
ازبر کیا اور اس نے معروف اساتذہ سے موسیقی، منطق، فلسفہ اور جمناسٹک میں
مہارت حصل کی اس کے علاوہ وہ نوجوانی میں پہلوان بھی تھا۔ افلاطون کو
ابتداء سے ادب اور حکمت سے ذوق تھا پہلے وہ کریٹیئس کا شاگرد تھا جو
ہراکلٹیس کے فلسفۂ تغیر کا معقد تھا۔ اس لیے افلاطون پر پہلا نقش اسی فلسفے
کا بیٹھا، نوجوانی میں اس کی ملافات فلسفی سقراط سے ہوئی، جو اس کا رہنما
اور دوست بن گیا۔ اس وقت افلاطون کی عمر انیس ۱۹ سال تھی اور اس کی جسمانی
و ذہنی طاقت عروج پر تھی۔
سقراط سے ملاقات کو اس کی زندگی کا اہم واقعہ کہا جاسکتا ہے۔ سقراط کے علم
وحکمت اور فلسفہ سچائی نے افلاطون کو اس قدر متاثر کیا کہ پھر تمام عمر
افلاطون فلسفہ و حکمت کے نشہ میں مدہوش رہا اور یہ نشہ عمر بھر نہ اتر سکا۔
افلاطون اور سقراط کا ساتھ آٹھ سال تک رہا جس میں افلاطون نے اپنے استاد و
دوست سے بہت کچھ سیکھا۔ کہا جاتا ہے کہ افلاطون نے جوانی میں کچھ ڈرامے بھی
لکھے جو بعد میں اس نے سقراط کے زیر اثر آکر ان کو ضائع کردیا۔ جب سقراط نے
زہر کا پیالا پیا تو ان دنوں افلاطون بیمار تھا، استاد کی وفات کے بعد
افلاطون نے ایتھنز چھوڑ دیا اور مگارا چلاگیا۔ اس کے بعد کچھ سالوں تک
سائرین، سسلی اور مصر میں پھرتا رہا۔ اسی دوران سفر میں افلاطون کو سپارٹا
کے سفیر نے جو سفر میں اس کے ساتھ تھا غلام بنا کر منڈی میں فروخت کردیا اس
نے وہاں سے رہائی ایک قیروانی فلسفی انسی جو افلاطون کو جانتا تھا کے ذریعے
پائی پھر ۳۸۷ ق۔م میں وہ ایتھنز واپس آیا اسوقت اس کی عمر ۴۰ سال ہوچکی
تھی۔ اسی سال واپس آکر افلاطون نے ایک باغ میں درسگاہ کی بنیاد رکھی وہ باغ
اکیڈمس نامی شخص کا تھا جس کی وجہ سے وہ درسگاہ آگے چل کر "اکیڈمی" کہلائی۔
جلد ہی اس ادارے کو بہت مقبولیت حاصل ہوگئی اور ایتھنز کے نوجوان اس میں
داخل ہوکر افلاطون کے افکار سے واقف ہوئے۔ افلاطون کی اس درسگاہ نے بہت سے
نامور دانشوروں اور سیاست دانوں کو جنم دیا۔ بہت سے لوگ اس سے مستفید ہوئے۔
نامور فلسفی ، علم الحیوانات کا بانی اور سکندر اعظم کا استاد ارسطو بھی
افلاطون کا شاگرد تھا۔ جس وقت ارسطو اکیڈمی میں داخل ہوا اس وقت ارسطو کی
عمر سترہ ۱۷ برس تھی اور تب افلاطون ساٹھ ۶۰ برس کا تھا۔ افلاطون کی یہ
اکیڈمی 529ءتک قائم رہی۔ جب شہنشاہ جسٹی ینن نے اُسے زبردستی بند کردیا۔
چالیس برس تک افلاطون اس میں ریاضی اور فلسفےومنطق کا درس دیتا رہا۔
افلاطون نے تاریخ فلسفہ یونان میں پہلی بار ایک ایسا نظام فکر پیش کرنے کی
کوشش کی جو کائنات اور زندگی کے مختلف پہلوؤں مثلا اخلاقیات، علمیات،
طبعیات، اور سیاسیات کا مکمل طور پر احاطہ کرسکے۔ افلاطون نے باقائدہ
نظریات کی صورت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کے بیان کردہ نظریات میں
سے
نظریہ علم ) theory of knowledge)
نظریہ امثال (theory of Lacas)
نظریہ موجودات (theory of Epistence)
انسانی روح کی بقاء دوام کا نظریہ (the theory of immorality of the Human)
نظریہ اخلاق (Morale theor)
نظریہ ریاست (theory of State)
خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
اگرچہ افلاطون اپنے بیشتر نظریات میں اپنے استاد کی تقلید کرتا ہوا دکھائی
دیتا ہے مگر اس کے باوجود اس کے اپنے نظریات بھی ایک اپنی جگہ ایک امر
حقیقت ہیں۔ اس نے ہمہ گیر فلسفیانہ نظام کی تشکیل کے لیے قدما کے خیالات
ونظریات سے استفادہ حاصل کیا، اس لیے اس کی فکر پر خاندان کے علاوہ
فیثاغورث، سقراط اور سوفسطائیوں کے افکار کی جھلک نمایاں ہے۔
کچھ عرصہ بعد افلاطون نے دوبارہ سسلی جاکر اپنے دوست ڈیان کی مدد سے
سیراکوز کے آمر کو فلاسفر بنانے کی ناکام کوشش کی۔ پھر واپس آکر افلاطون نے
اکیڈمی میں درس دینا شروع کیا اور اپنی زندگی کے باقی بیس ۲۰ سال وہیں
گزارے۔ افلاطون اسی ۸۰ برس کی عمر میں ۳۴۷ ق۔م میں فوت ہوا تو اس کی قبر پر
موجود لوگوں نے اقرار کیا کہ اس عظیم فلسفی کی تعلیمات اور یادیں رہتی دنیا
تک قائم رہیں گی اور یہ بات اسقدر سچ ہے کہ آج تقریباً 2500سال گزر نے کے
باوجود بھی دنیا کا سیاسی ، اخلاقی اور تعلیمی نظام اپنی تکمیل کے لیے
افلاطون کے افکار کا محتاج ہے۔ |