پاکستان طویل عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اس
موجودہ جنگ کو شروع ہوئے اب تقریباََ سترہ اٹھارہ سال ہو چکے ہیں ۔
پاکستانی اس جنگ سے اُکتا چکے ہیں، ہزاروں مقدس زندگیاں اس جنگ کی نذر
ہوچکی ہیں، لاکھوں خاندان اُجڑ چکے ہیں، کروڑوں افراد متاثر ہو ئے ہیں بلکہ
پاکستان کی بیس کروڑ آبادی پوری کی پوری بری طرح متاثر ہے ۔ مالی اور معاشی
لحاظ سے ہم بے تحاشہ کھو چکے ہیں انفراسٹرکچر کی صورت میں ہم اربوں روپے کا
نقصان اٹھا چکے ہیں ،ہماری سڑکیں امریکی فوجوں کے کنٹینروں کے ٹائروں تلے
کچل چکی ہیں۔ پاکستان کی بے شمار عمارات اسی جنگ میں نیست و نابود ہو چکی
ہیں ،ہمارے سکول اڑا دیئے گئے ،مساجد کے تقدس کو پا مال کیا گیا اُن کی
عظیم عالی و قار عمارات کو نقصان پہنچا اور اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں
حاضر اس کے فرمانبردار بندوں کو شہید کیا گیا یہاں تک کہ ہمارے سکولوں میں
معصوم بچوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا ۔ امریکی ڈرون پاکستانی علاقے میں
دندناتے ہوئے آتے ہیں اور ایک گناہگار کے پیچھے کئی بے گناہ جان سے چلے
جاتے ہیں۔ پوری قوم نفسیاتی مسائل سے دوچار ہے ہماری فوج مسلسل قربانیاں دے
رہی ہے بے تحاشہ و سائل اس جنگ پر خرچ کیے جا رہے ہیں اس امداد سے کہیں
زیادہ جو امریکہ دے رہا ہے۔ پاکستانی قوم نے اگر اپنے مسائل اور مصائب کی
قیمت امریکہ اور ٹرمپ سے مانگ لی تو وہ اسے سو سال میں بھی ادا نہیں کر
سکتا ۔ پاکستانیوں کی اپنی حکومتوں اور حکمرانوں سے شکایت ہی یہی ہے کہ
انہوں نے پرائی جنگ کو گلے کیوں لگایا، کیوں دوسروں کی کامیابی کی خاطر
اپنی قومی زندگی ، اپنے عوام اور اپنی فوج کو داؤ پر لگادیا۔ ہمارے محب وطن
قبائل کو مصیبت میں ڈالا گیا، کیا امریکہ نہیں جانتا یہ سب کچھ کیوں ہوا ۔ہمارے
حکمرانوں کی غلطیوں کا ہم اعتراف کرتے ہیں لیکن کیا امریکہ نے یہ سب کچھ ہم
پر مسلط نہیں کیا۔ وہ افغانستان میں ایک عرب باشندے اُسامہ بن لادن کا
پیچھا کرتا ہوا آیا جس نے اُس کے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ٹوئن ٹاور
پر ہوائی حملہ کیا تھا اور امریکہ کا خیال تھا کہ اُسامہ افغانستان سے آیا
تھا اب اس سارے معاملے میں کہیں پاکستان کا نام نظر نہیں آئے گا لیکن اس
جنگ کا سب سے بڑا حصہ پاکستان میں لڑا گیا۔ اب امریکہ کا غیر سنجیدہ صدر
ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان سے اپنی امداد کا حساب مانگ رہا ہے کہ 34 ارب ڈالر کہاں
گئے لیکن سچ یہ ہے کہ ہمار ا حساب اُسکی طرف اس سے بھی زیادہ ہے کیا وہ اس
نقصان کو پورا کر سکیں گے پاکستانی قوم بھی اس کا جواب چاہتی ہے ۔ امریکہ
کے صدر ٹرمپ کے حالیہ بیانات امریکہ کا کوئی نیا رویہ نہیں پاکستان ستر سال
سے اُس کی مطلب کی دوستی اور مطلب پورا ہوجانے کے بعد بے اعتنائی بھی دیکھ
رہا ہے بلکہ دوستی کے دوران بھی وہ اپنی بالا دستی قائم رکھتا ہے لیکن جب
سے مسٹر ٹرمپ جیسا غیر سنجیدہ بلکہ کافی حد تک مسخرہ امریکہ کا صدر بنا ہے
وہ معاملات پر زیادہ غور کرنے کا قائل ہی نہیں وہ اس وقت صرف فیصلے کر رہا
ہے خود امریکہ میں اُس کو ایک غیر متوازن اور پھکڑپن کا شکار شخص سمجھا جا
رہا ہے اُس نے اسی پھکڑ پن میں پہلے بیت المقدس میں اپنا اسرائیلی سفارت
خانہ منتقل کرنے کا اعلان کیا اس عظیم کارنامے سے فارغ ہوا تو پاکستان پر
برس پڑا اُسے دہشت گردی کے خلاف’’ اُس کی‘‘ جنگ میں پاکستان کا کردار نظر
آنا بند ہو گیا جبکہ صرف ڈھائی تین ماہ پہلے جب پاک فوج نے ایک امریکی
خاتون اور اس کے خاندان کو طالبان کی قید سے رہائی دلائی تو اس نے پاکستان
کے کردار کا اعتراف اور تعریف کی تھی اگرچہ میرے خیال میں پاکستانیوں کو اس
تعریف کی کوئی ضرورت ہی نہیں، انہیں تو اس بات پر ہی اعتراض ہے کہ پاکستان
کو آخر اس جنگ میں گھسیٹا اور ڈالا ہی کیوں گیاپاکستانی حکمرانوں کو بھی یہ
بات یاد رکھنی چاہیے تھی کہ امریکہ نے کبھی پاکستان کے ساتھ مشکل وقت میں
مدد نہیں کی ہمیشہ اسے تنہا چھوڑا بلکہ دشمن کی کچھار میں ڈالا، جب اسے
ضرورت پڑی تو پاکستان کو امداد دی اور جب چاہا روک دی لیکن جب یہ امداد
رُکی بھی تو تب بھی الحمداللہ پاکستان زندہ رہا بلکہ زندگی زیادہ پُر امن
اور پُر سکون رہی اور اب بھی اگر میں انتہائی غیر جذباتی ہو کر بات کروں تو
ہمیں امریکہ کے موجودہ اقدام کو اپنی بقا ء اور نئی زندگی کا نکتۂ آغاز بنا
لینا چاہیے ۔ پاکستان نے اب تک جو کچھ کیا وہ بھی غیر ضروری طور پر زیادہ
تھا لیکن نہ ہی امریکہ خوش ہوا اور نہ ہی عشروں تک پاکستان کی معیشت ،
معاشرت اور دفاع پر بوجھ بنے رہنے والا افغانستان بلکہ احسان فراموشی کی
انتہا کرتے ہوئے اس نے ہمارے دشمن یعنی بھارت کو اپنا دوست بلکہ مرشد مان
لیا اور ’’را‘‘ کا مدد گار بن کر پاکستان کے امن و امان کو تباہ کیا اُسے
پاکستان کی سرحد پر موجودگی کے لیے قونصل خانے بناکر دیے اور دہشت گردی میں
ا س کا معاون بن گیا اور امریکہ کے لیے اپنے ملک اور علاقے میں موجودگی کا
جواز فراہم کرتا رہا اور کر رہا ہے۔ امریکہ افغانستان سے نکلنے کے لیے ہرگز
تیار نہیں اگر فوجوں کی تعداد میں کوئی کمی کی گئی تھی تو اس میں پھر اضافہ
کر دیا گیا یعنی ادھر رہنا ہے اور بس۔ لیکن پاکستان کو بھی فیصلہ کر لینا
چاہیے کہ یا خود داری کی زندگی جینا ہے اور یا امریکہ کی مرضی سے۔ ایسا
نہیں ہے کہ امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کیا جائے لیکن خود کو اس کی پالیسیوں
سے آزاد کرنا ہوگا امریکہ کا یہ مطالبہ کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف مزید
کاروائیاں کرے ایسا ہی ایک مطالبہ پاکستان کا بھی ہے کہ امریکہ اور اُ س کی
نوآبادی افغانستان پاکستان کے مطلوب دہشت گردوں کو اس کے حوالے کردے، دہشت
گرد تنظیموں کی پشت پناہی چھوڑ دے داعش جیسی تنظیموں کی افغانستان اور خاص
کر پاکستان کے سرحدی علاقوں میں افزائش روک دے جس طرح پاکستان بلا تفریق
دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما ہے اسی طرح وہ بھی بلا امتیاز تمام دہشت
گردوں سے نمٹے ، اپنے اسلحے کے سب سے بڑے خریدار اور دہشت گرد ی میں اپنے
حلیف بھارت سے مدد لینا چھوڑ دے اور جیسا کہ پاک آرمی چیف نے کہا کہ اب’’
ڈومور ‘‘کی باری امریکہ کی ہے پاکستان جتنا کر سکتا تھا اُس سے بہت زیادہ
کیا لہٰذا اب ’’نومور‘‘ ۔ ان کا یہ کہنا پوری قوم کی تر جمانی ہے اور اب کی
بار تو پوری قومی قیادت کم از کم تا حال اس بات پر متفق ہے تو اس بار یہ
فیصلہ بھی ہو جانا چاہیے کہ اب ہم اپنے فیصلے خود کریں گے اور کسی ٹرمپ اور
مودی کی سازشوں کا شکار نہیں ہونگے ۔ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامی کا
ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی بجائے اپنی پالیسیاں درست کرے بلکہ خطہ چھوڑ کر
چلا جائے تو امید ہے کہ امن خود بخود بحال ہو جائے گا کیونکہ وہ خود ہی وجہ
ء جنگ ہے اور اس کا ختم کیا جانا ہی امن کی ضمانت ہے۔ |