تابندہ ستارے

حضرت نظام الدین اولیا مریدین کے سامنے جلوہ افروز تھے اور روزانہ کی طرح آج بھی آپ کی زبان مبارک سے علم و حکمت اور محبت کے چشمے پھوٹ رہے تھے، ہر دور کے ولی اﷲ کی طرح آپ بھی ہر وقت اپنے مریدین کی کردار سازی پر توجہ دیتے آپ کے دربار میں ہر وقت ہزاروں کا ہجوم دیدار کے لیے بے تاب رہتا ہجوم کو دیکھ کر یوں لگتا کہ دستِ قدرت نے زنجیر پہنا کر لوگوں کو آپ کے آستانہ پر لا کھڑا کیا ہے، مریدین کے چہروں پر عقیدت کا نور اور محبت کا سمندر موجزن نظر آرہاتھا، آج آپ اﷲ تعالی کے نام ستار یعنی عیبوں کو چھپانے والا پر روشنی ڈال رہے تھے۔اگر خالق ارض و سما دنیا داروں کی خلوتوں اور راتوں کے راز ظاہر کردے تو بے شمار لوگ اپنے مکروہ کرتوتوں کی وجہ سے منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں لیکن یہ اس رحیم و کریم کی شان کریمی ہے کہ وہ اپنے بندوں کی حماقتوں ، کوتاہیوں اور گناہوں پر پردہ ڈال دیتا ہے اور خدائے بزرگ و برتر انسانوں سے بھی یہی توقع رکھتا ہے کہ وہ بھی ایک دوسرے کے عیبوں کو ظاہر کرنے کی بجائے ان پر پردہ ڈالیں تاکہ روز محشر اﷲ تعالی ایسے بندوں کے گناہوں پر پردہ ڈالے پھر نظام الدین اولیا نے حضرت شیخ عثمان خیرآبادی کی اِسی صفت کے بارے میں بیان شروع کیا جو نہایت پر ہیزگار اور متقی انسان تھے اپنی عبادت ریاضت اور مجاہدوں کو عوام کی نظر سے پوشیدہ رکھتے تھے اور وہ چاہتے بھی یہی تھے کہ ان کے اور اﷲ تعالی کے درمیان جو عشق کا رشتہ ہے لوگ اس کے بارے میں نہ جانیں حضرت عثمان خیرآبادی غزنی میں قیام پذیر تھے آپ کا کاروبار زندگی سبزیوں کا سالن بنا کر بیچنا تھا، ایک دن آپ کے پاس ایک شخص کھوٹا سکہ لے کر آیا اور کہا کہ مجھے اِس کا سالن دیا جائے حضرت نے کھوٹے سکے کو دیکھا اور پہچان لیا کہ یہ تو کھوٹا سکہ ہے خریدار کو احساس ہو گیا کہ آپ کو کھوٹے سکے کا پتہ چل گیا ہے اور اب آپ یہ سکہ واپس کردیں گے لیکن خریدار کو اس وقت شدید حیرت ہوئی جب حضرت صاحب نے اس کی طرف دیکھے اور احساس جتائے بغیر اس کو سالن دے دیا، اب خریدار کو یہ لگا کہ آپ کو کھوٹے سکے کی پہچان نہیں ہے لہذا وہ چنددن بعد پھر آیا اور چند کھوٹے سکے دے کر اپنی ضرورت کا سامان لے کر چلا گیا پھر یہ بات پورے شہر میں پھیل گئی کہ حضرت عثمان کو کھوٹے کھرے سکوں کی پہچان نہیں ہے اب لوگوں نے ہر دور کی طرح کھوٹے سکے لانے شروع کر دیے۔حضرت شیخ عثمان کھوٹے سکے لیتے رہے یہاں تک کہ ان کے پاس کھوٹے سکوں کا ڈھیر لگ گیا آپ ساری زندگی کھوٹے سکے لیتے رہے اور جب آخری وقت آیا تو آپ نے بارگاہ الہی میں رو رو کر عرض کیا اے بے نیاز مالک تو خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ میں تیرے بندوں کے کھوٹے سکے جانتے ہوئے بھی اِس لیے قبول کرتا رہا کہ وہ میرے سامنے شرمندہ نہ ہوں ، اے رحیم و کریم رب پاک میری عبادات بھی چاہے کھوٹی ہوں، کمزور ہوں، قابل قبول نہ ہوں تو اپنی شان رحمت کے صدقے قبول کر لے انہیں میرے لیے باعث شرمندگی نہ بنانا مجھے شرمندگی سے بچا لینا۔حضرت نظام الدین اولیا پرسوز لہجے میں بیان فرمارہے تھے آپ مزید بولنا شروع ہوئے کہ حضرت شیخ ساری عمر خود کو لوگوں سے چھپاتے رہے لیکن آخری وقت میں آپ کے روحانی تصرف اور کرامت کا اظہار اِس طرح ہوا کہ ایک دن ایک درویش آپ کی دکان پر آیا اس کے پاس ایک روٹی تھی حضرت شیخ نے فرمایا کیا چاہیے تو آنے والا درویش بولا میرے پاس صرف روٹی ہے سالن نہیں ہے کیا آپ مجھے سالن دیں گے حضرت شیخ نے شفقت بھرے لہجے میں جواب دیا کیوں نہیں ضرور دوں گا، میرے پاس سالن موجود ہے آنے والے درویش نے کہا میرے پاس سالن خرید نے کے لیے پیسے نہیں ہیں اب آپ سالن قرض دوگے یا مفت؟حضرت شیخ عثمان مسکرائے اور کہا نہ مفت نہ قرض یہ میری طرف سے آپ کے لیے نذر ہے ، درویش نے شکریہ کہا اور غور سے آپ کی طرف دیکھا اورکہا ٹھیک ہے نذر ہی سہی، اب حضرت شیخ عثمان نے دیگ میں کفگیر ڈالا بھرا اور درویش کی طرف بڑھادیا درویش نے سالن دیکھا اور لینے سے انکار کردیا کہ یہ سالن کی بجائے پتھر ہیں جو میں نہیں کھا سکتا، حضرت نے اپنے کفگیر کی طرف دیکھا تو اس میں موتی بھرے ہوئے تھے آپ نے شرمندگی سے فورا وہ موتی دیگ میں ڈال دیے اور دوبارہ کفگیر بھرکے درویش کی طرف بڑھادیا تو درویش دیکھ کر پھر بولا آپ پھر مجھے پتھر دے رہے ہیں، اب درویش تھوڑا سا ناراضگی سے بولا میں آپ سے سالن مانگ رہا ہوں تاکہ میں روٹی کھا سکوں جبکہ آپ مجھے بار بار پتھر دے رہے ہیں حضرت شیخ نے کفگیر کی طرف دیکھا تو اب وہ سونے کے سکوں سے بھرا ہواتھا۔آپ نے شرمندگی اور معذرت سے کفگیر کو دوبارہ دیگ میں ڈالااور کہا میں معذرت کرتا ہوں آپ کو زحمت ہوئی اب جو شیخ نے کفگیر نکالا تو اس میں آج پکایا ہوا سالن موجود تھا اب درویش نے سالن لیا اور دوکان کے سامنے ہی کھڑے کھڑے روٹی کھا لی اور پھر پانی مانگا، جب حضرت مٹکے سے پانی نکالنے لگے تو درویش نے کہا میں نے تم سے پانی مانگا ہے مجھے پانی ہی دینا اب کہیں پیالے میں ہیرے جواہرات نہ بھر دینا حضرت نے معذرت کرتے ہوئے کہا نہیں اب ایسا نہیں ہوگا، پھر درویش نے پانی پیا اور حضرت شیخ عثمان خیرآبادی کا شکریہ ادا کیا اور غور سے آپ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا اب تمھیں اِس دنیا میں نہیں رہنا چاہیے، حضرت شیخ نے حیرت سے درویش کی طرف دیکھا لیکن درویش بار بار یہی بات دہراتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔پھر چند دنوں بعد ہی حضرت شیخ عثمان کا انتقال ہوگیا، آپ کا نورانی جسم پیوندہ خاک اور پاک روح بالائے آسمان چلی گئی، خوش قسمت ہوتے ہیں وہ معاشرے اور کرہ ارض کے گوشے جن پر ایسے روشن لوگ طلوع ہوتے ہیں اپنی زندگی کا وقت پورا کرتے ہیں اس دور کے زنگ آلود بے نور روحوں کے زنگ کو اپنے کردار اور تعلیمات سے دور کرتے ہیں، اِن کے کردار اور تعلیمات کی روشنی سے بھٹکے ہوں کو روشنی اور گناہ گاروں کو ہدایت نصیب ہوتی ہے، خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو اِن کی صحبت میں چند گھڑیاں گزارنے کا موقع ملتا ہے یہ چند لمحات جو اِن کی قربت میں گزرتے ہیں سالوں کی عبادت سے بہتر ہوتے ہیں۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735499 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.