ماتم کدہ

خیبر پختونخوا وہ بدقسمت صوبہ ہے جو کھبی چین سے ایک دن بھی نہیں جی سکا یہ وہ صوبہ ہے جس میں کھبی دہشتگردوں کا بولبالہ ہوتا ہے تو کھبی زن زر اور زمین کی ذاتی دشمنیوں کی وجہ سے گولیوں اور نفرتوں کا نشانہ بنتا رہا ہے اس خون کی ہولی کے اثرات یہاں کے ادب پر بھی چھائے ہوئے ہے اور آج اگر پشتو شاعری یا ادب کا کوئی اور صنف اٹھا کر دیکھا جائے تو اس سے واضح اندازہ ہو جاتا ہے کہ کسطرح خون اور خاک کی باتوں سے یہ ادب بھر چکا ہے بقول صاحب شاہ صابر:
وختہ دلتہ چہ قدم گدے نو پہ خیال گدہ
د دے خاورے کانڑی بوٹی شہیدان دی
مفہوم: اے وقت یہاں پر قدم رکھنا ہو تو خیال سے رکھنا اس مٹی کے شجر وپتھر بھی شہید ہیں
اور یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ یہاں کے درودیوار وں پر بھی اگر ماتم کیا جائے تو کم ہوگا آج سے ستر سال پہلے جب برصغیر کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اس کے نتائج نہایت ہی افسوسناک نکلے سب سے بڑا مسئلہ مہاجرین کا تھا ان کی آباد کاری کا آج بھی ہر کوئی اس غم کا رونہ رو رہا ہے لیکن اس سے بدترین حال مرے خیال میں خیبر پختونخوا کا ہواہے یہاں ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی کئی دفعہ کئی جگہوں سے لوگ بے گھرہو گئے ہیں وزیرستان کے آئی ڈی پیز کا بیگھر ہونا ہم نے سہہ لیا اور سوات کے متاثرینوں کے حالات بھی دیکھ لئے بلکہ نہ صرف یہ مختلف فاٹا کے علاقوں کے لوگ آج بھی یا تو بے گھر ہے یا بے وطن ۔یہ وہ جگہ ہے جہاں آئے روز ایک نہ ایک تماشہ بنا رہتا ہے یہاں تو لوگوں کے کندے جنازے اٹھانے کو کم پڑجاتے ہونگے ۔۔
تیرے شہر میں اے کشندہ عالم
ہزاروں آتی ہوئی چارپائیاں دیکھی

یہ واحد صوبہ ہے جہاں پر ایف سی آر جیسا زنجیری قانون بھی لاگو ہے فاٹا میں ایف سی آر کا نام اس قالے قانون کا نام ہے جو کانوں سے بہرا اور آنکھوں سے اندھا ہے اور یہ ظلم آنگریز کے دور سے شروع تو ہوا لیکن اس کا خاتمہ آج بھی ممکن نہیں سمجھا گیا ہے یہاں کے لوگوں کی ااخلاقی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی ـــــلڑکیاں سورہ جیسے ظالم رسومات کی وجہ سے جانوروں سے بھی بدترین زندگیاں گزاررنے پر مجبور ہیں یہاں کے خوانین کے مظالم کی وجہ سے آج بھی اگر کوئی دہقان جنت کی خوشخبری سنتا ہے تو یہی سوال اسکی زبان پر آتا ہے کہ ۔۔ھلتہ بیگارونہ د خان شتہ او کہ نہ( جنت میں بھی خان صاحب کے کام ہونگے یا نہیں ) ۔۔۔یہاں جرگہ سسٹم بھی ہے لیکن اس پر بھی آج کے نظامیی اثرات پڑھ گئے ہے اور انصاف نہیں ملتا ملکی عدالتوں کی طرح یہاں کے جرگہ کرنے والوں کو لاکھوں روپے دینے پڑتے ہے یہاں آج بھی مزدور ہمیشہ مزدور رہتا ہے لیکن اس کی صلاحیتوں کو یا تو کوئی فیکٹری کی مشنری پی جاتا ہے یا پھر کوئی غیر ملکی سورج ۔۔آج بھی جب کوئی بیروزگار ہوتا ہے تو اسکو پردیس بہت سوہنا لگتا ہے لیکن اسکو یہ اکیسویں صدی میں بھی کسی نے نہیں بتایا کہ وہاں تو خون چوسنے والی مشین لگی ہے کیونکہ یہاں تو تعلیم نام کی بھی کوئی شے نہیں ہے لیکن آج بھی یہاں ووٹ کاسٹ کیا جاتا ہے اور یہاں کا ایم این ایے اور ایم پی اے بھی اسمبلی میں بیٹھتا ہے یہاں آج بھی انسان مرتا ہے کٹتا ہے اور گولیوں سے چھیر پھاڑ دیا جاتا ہے اور اسکا کوئی پوچھ بھی نہیں سکتا کیونکہ انسان تو زندہ ہے لیکن زبان ہی نہیں ہے اور اگر کھبی کبھار کوئی سلنڈر پھٹ جائے تو کوئی اسکو واقعہ نہیں سمجھتا کیونکہ یہاں تو واقعے نہیں بلکہ سانحے ہوئے ہیں اور اسطرح کا دھماکہ جو گونج نہ پیدا کرسکے وہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ یہاں تو المیے ہوتے رہے اور اگر المیہ نہ ہو جائے تو احساس بھی نہیں ہے ۔جب کسی ماں کا بیٹا شہر کے لئے نکل جاتا ہے تو نظر دروازے سے نہیں ہٹتی جب تک واپسی نہ ہو تب تک رہتا ہے انتظار کیونکہ یہاں تو قرار نہیں ہے ۔۔لیکن یہاں کے پختوں آج بھی پختون ہے اور یہی واحد چیز ہے جو آج بھی اس صوبے کے کونے کونے میں ملیگی آج کا پختون وہی پختون ہے جو کل تھا اور یہی ایک خوشقسمتی ہے اور شائد یہی ہماری بدنصیبی بھی ہے اور اس سے آگے میں کچھ کہہ بھی نہیں سکتا کیونکہ میرے پاس الفاظ بھی نہیں ہے

اب ہمیں صرف یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ قران کریم میں اﷲ تعالی نے واحد اور واضح قانون اپنی قومی حالت بدلنے کا یہی بتایا ہے کہ جب تک کوئی قوم خود اپنی حالت نہ بدلے تو انکی حالت خدا بھی نہیں بدلتا اور اگر ہم قرانی تعلیمات کی روشنی میں رہتے ہوئے اپنی حالت بدلنے کی کوشش کرینگے تو قرانی اصول اپناتے ہوئے ہمیں خود جاگنا ہوگا اور اگر ہم ان مسائل میں رہتے رہے تو کل کو بھی خیر کی توقع نہیں رکھنی ہوگی کیونکہ ماضی کے کے نتائج ہم آج دیکھ رہے ہیں اور کل کے نتائج آج ہم خود طے کرینگے اب سوچنے کی بات یہی ہے کہ فیصلہ تو کرنا ہوگا یا تو اسی ماتم کدے میں ہی رہنا ہوگا اور یا پھر اس ماتم کو مات دے کر ایک جنت بنانا ہوگا کیونکہ جہنم اپنے حصے کا دیکھ چکے ہیں اب باری خوشیوں کی ہے

Waqar Ahmed
About the Author: Waqar Ahmed Read More Articles by Waqar Ahmed: 15 Articles with 30307 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.