امتِ مسلمہ جن مصائب و مشکلات کا شکار ہے وہ کسی دیدہ ور
سے پوشیدہ نہیں۔ ہر دن اپنے جلو میں نت نئے فتنے لئے جلوہ گر ہورہاہے اور
ہر رات اپنے ساتھ آزمائشوں کی نئی ظلمت لئے چلی آرہی ہے۔جس طرح تسبیح کا
دھاگہ ٹوٹ جانے پر ایک کے بعد ایک دانے گرنے لگتے ہیں اسی طرح نئے نئے فتنے
ایک کے بعد ایک اس امت میں پیدا ہوتے جارہے ہیں۔نبی صادق حضرت محمد مصطفی ﷺ
نے آج سے چودہ سو برس پہلے ان حادثات و واقعات کی نشاندہی کر دی تھی۔ ہماری
شامتِ اعمال کہ تعلیماتِ شریعت سے لاعلمی اور بسا اوقات روگردانی کی وجہ سے
آج نوبت یہ آگئی ہے کہ دنیا میں امت محمدی سے مظلوم اور کوئی امت نہیں ہے۔
صحیح مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ
نے ارشاد فرمایا کہ جلد از جلد اعمالِ صالحہ اختیار کرلو، ان فتنوں کے آنے
سے پہلے جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح یکے بعد دیگرے آئیں گے،(حال یہ
ہوگا کہ) آدمی اس حال میں صبح کرے گا کہ وہ ایمان والا ہوگا اور شام اس حال
میں کرے گا کہ وہ ایمان سے محروم ہو چکا ہوگا۔ دنیا کی حقیر متاع کے عوض وہ
اپنا دین و ایمان بیچ ڈالے گا۔
یہ فتنے گمراہ تحریکوں اور دعوتوں کی شکل میں بھی نمودار ہو سکتے ہیں اور
مال و دولت اور اقتدار کی ہوس اور دوسری نفسانی خواہشات کی شکل میں بھی ان
کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔اگر انسان کو شریعت پر استقامت کی نعمت حاصل نہ ہو تو
ان فتنوں سے اپنے ایمان کو محفوظ رکھنا بہت دشوار ہے۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ صبر اور استقامت کے ساتھ دین
پر قائم رہنے والا بندہ اس آدمی کی مانند ہے جو ہاتھ میں جلتا ہوا انگارہ
تھام لے۔(جامع ترمذی)
ان فتنوں کی احادیثِ مبارکہ میں مختلف صورتیں ذکر کی گئی ہیں مثلاََ وقت
جلدی جلدی گزرنے لگے گا، نیک اعمال کی کمی ہو جائے گی، دین سے ناواقفیت
پھیل جائے گی اور دین کا علم اٹھ جائے گا، بخل اور پیسے کی محبت عام ہوگی،
قتل و غارتگری کا دوردورہ ہوگا، خود قاتل کو معلوم نہ ہوگا کہ وہ کیوں قتل
کررہا ہے اور نہ مقتول کو پتہ ہوگا کہ اسے کیوں قتل کیا گیا۔ شراب کو شربت
، سود کو تجارت اور رشوت کو ہدیہ کہہ کر حلال کیا جائے گا۔ اولاد سے کراہت
ہوگی، بارش سے ٹھنڈک کے بجائے گرمی کی سی تکلیف ہو گی۔بدکار سیلاب کی طرح
پھیل جائیں گے۔ ہر قبیلے اور گروہ کی سربراہی اس کے منافقوں کے ہاتھ میں
ہوگی۔ہر بازار کی سربراہی اس کے بدکاروں کے ہاتھ میں ہوگی۔ مرد مردوں سے
جنسی خواہش پوری کریں گے اور عورتیں عورتوں سے۔ لوگ نمازوں کو ضائع کریں گے
اور امانتیں برباد ہوں گی۔ انصاف کمزور ہوجائے گا اور ظلم کا دور دورہ
ہوگا۔امن کم ہوجائے گا۔ طلاقوں کی کثرت ہوجائے گی۔ناگہانی اموات بڑھ جائیں
گی۔ عدالتی فیصلوں کی خرید و فروخت ہوگی۔ آخر زمانے کے لوگ اپنی امت کے
پہلے لوگوں پر لعن طعن کریں گے۔یہودیوں اور نصرانیوں کی پوری پوری نقالی کی
جائے گی۔معمولی نا اہل آدمی جمہور کے اہم معاملات میں رائے زنی کریں گے۔یہ
چند مثالیں ہیں ان پیشگی خبروں کی جو آنحضرت ﷺ نے فتنوں کے دور کے بارے میں
چودہ سو سال پہلے بیان فرمائیں۔جب ہم حالاتِ عالم کے تناظر میں ان احادیثِ
مبارکہ پر غور کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ احادیث موجودہ حالات کی
مکمل آئینہ دار ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے جہاں فتنوں کے زمانے کے حالات کی پیشگی خبر دی وہاں مختلف
قسم کے فتنوں کے برے اثرات سے بچنے کے لئے وہ بنیادی نکات بھی بیان فرما
دئیے کہ اگر کوئی شخص ان کی پابندی کرلے تو کم از کم وہ اپنے آپ کو ان برے
اثرات سے بچا سکتا ہے۔اگر ان پر عمل کرنے والوں کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھتی
جائے تو یہی ان فتنوں کا اجتماعی علاج بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔چنانچہ رسولِ
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم اس وقت ایسے زمانے میں ہو کہ جو کوئی اس
زمانے میں احکامِ الٰہی کے بڑے حصے پر عمل کرے لیکن صرف دسویں حصہ پر عمل
ترک کردے تو وہ ہلاک ہو جائے گا اور بعد میں ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ
جو کوئی اس زمانے میں احکامِ الٰہی کے صرف دسویں حصے پر عمل کرلے وہ نجات
کا مستحق ہوگا۔(جامع ترمذی)محدثینِ کرام اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں
کہ یہاں دسویں حصے پر عمل سے مراد اخلاص ہے کہ خیرالقرون کے مسلمانوں کی
ہلاکت اخلاص کے دسویں حصے کے چھوڑنے پر ہو سکتی ہے لیکن امت کا آخری حصہ دس
فیصد اخلاص بھی اختیار کرلے تو اس کی نجات ہو جائے گی۔گویا کہ امت کی نجات
درحقیقت اتباعِ شریعت و سنت ہی پر موقوف ہے اگرچہ وہ خیر القرون کے مقابلہ
میں قلیل ہی کیوں نہ ہو۔
حضرت مقداد بن اسود رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسولِ کریم ﷺ سے خود
سنا آپ فرما رہے تھے کہ یقیناًوہ بندہ نیک بخت اور خوش نصیب ہے جو فتنوں سے
محفوظ رہ گیا، وہ بندہ نیک بخت اور خوش نصیب ہے جو فتنوں سے الگ رکھا گیا
اور جو بندہ مبتلا کیا گیا اور وہ صابر اور ثابت قدم رہا تو اس کے لئے
شاباشی اور مبارکباد ہے۔(ابو داؤد شریف)
اگر کبھی مسلمانوں میں باہمی خانہ جنگی کا فتنہ کھڑا ہو تو ان سنگین حالات
سے نبرد آزما ہونے کے لئے آنحضرت ﷺ کی تعلیمات میں واضح ہدایات موجود
ہیں۔بخاری و مسلم کی صحیح حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو
جہنم کے دروازوں کی طرف دعوت دیں گے(یعنی ان کی دعوت ایسی گمراہی پر مشتمل
ہوگی جو جہنم کی طرف لے جانے والی ہے)جو شخص ان کی دعوت کو قبول کرے گا وہ
اسے جہنم میں پھینک دیں گے(حدیث کے راوی کہتے ہیں) میں نے کہا کہ یا رسول
اﷲ ﷺ ؛ اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو میرے لئے آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے
فرمایا کہ مسلمانوں کی اکثریت اور ان کے امام(سربراہ) کے ساتھ وابستہ رہنا۔
میں نے عرض کیا کہ اگر مسلمانوں کی نہ کوئی اکثریتی جماعت ہو، نہ امام(یعنی
برحق سربراہ)تو پھر میں کیا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایسے میں ان تمام
فرقوں / پار ٹیوں /گروہوں سے مکمل علیحدگی اختیار کرلینا۔
جب فتنوں کا ظہور کثرت سے ہونے لگے تو ان سے بچاؤ کے لئے نبی کریم ﷺ کا
ارشاد ہے کہ عنقریب فتنے پیدا ہوں گے۔ ان فتنوں میں بیٹھنے والا، کھڑے ہونے
والے سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے
والا سعی کرنے والے ( یعنی کسی سواری کے ذریعہ یا پیدل دوڑنے والے اور جلدی
چلنے والے)سے بہتر ہوگا اور جو شخص فتنوں کی طرف جھانکے گا فتنہ اس کو اپنی
طرف کھینچ لے گا، پس جو شخص ان فتنوں سے نجات کی کوئی جگہ یا پناہ گاہ پائے
تو اس شخص کو چاہیئے کہ اس کے ذریعہ پناہ حاصل کرلے۔
آپ ﷺ نے نہ صرف فتنوں کے زمانے میں ان سے بچنے کی ہدایات اپنی امت کو دی
ہیں بلکہ نبی رحمت ﷺ نے پر فتن ماحول میں دین پر قائم رہنے کی فضیلت بھی
بیان فرمائی ہے۔ مسلم شریف کی روایت میں حضرت معقل بن یسار رضی اﷲ عنہ سے
مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ فتنے کے زمانے میں عبادت و نیکی
کرنے کا ثواب میری طرف ہجرت کرنے کے ثواب کی مانند ہے۔ |