اردو میں عوام کی زبان بولنے والے عوامی زبان سمجھنے والے
اور عوامی موضوعات کو شاعری میں ڈھالنے والے شاعر نظیر اکبرآبادی ہے انکو
عوامی شاعر کہا جاتا ہے اور اسکی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے عوامی موضوعات کو
شاعری کے لئے منتخب کیا ۔نظیر اکبر آبادی کا اصل نام شیخ ولی محمد تھا اور
نظیر تخلص رکھ کر شاعری کینظیر اکبر آبادی سترہسو چھیالیس عیسویں میں دلی
میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام محمد فاروق تھا نظیر اکبر آبادی بچپن میں
ہی والدہ کے ساتھ آگرہ منتقل ہوئے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی نظیر
اکبر آبادی قناعت پسند آدمی تھے اور یہی وجہ تھی کہ امراء اور حاکمین کے
بلانے پر بھی کسی دربدر سے منسلک نہ ہوئے کئی جگہوں سے حکمرانوں نے دعوت
نامے بھی بھیجے لیکن نظیر اکبر اابادی نے قبول نہیں کئے۔پیشے کے لحاظ سے
نظیر اکبر آبادی معلم تھے اور آخری عمر تک درس و تدریس سے وابستہ رہے نظیر
اکبر آبادی ایک سادہ اور صوفی منش آدمی تھے آخری عمر میں فالج کا حملہ ہوا
اور اٹھارہ سو تیس عیسوں میں انتقال کرگئے ۔
نظیر اکبر آبادی کی شاعری
نظیر اکبر آبادی کی شاعری کا ایک منفرد مقام ہے اور اپنے دور کے شعراء سے
ایک الگ راستے پر چلتے رہے میر تقی میر اور سودا جیسے معزز شعراء کی بہار
سخن دیکھی اور دبستان لکھنو کا نکھار بھی دیکھا لیکن وہ ایک آزاد منش اور
منفرد شخصیت رکھتے تھے اور ان ہی وجوہات نے نظیر اکبر آبادی کو کسی دبستان
کا پابند نہیں ہونے دیا ۔نظیر اکبر آبادی کو آٹھ زبانوں پر عبور حاصل تھا
اور وہ اپنے زمانے کے علاقائی زبانوں سے بھی واقف تھے ان ہی زبانوں سے
واقفیت نے ان کی شاعری کو ایک منفرد رنگ دیا نظیر اکبر آبادی کی شاعری پر
ان کی زندگی کے اثرات رہے آپکی ساری زندگی عام لوگوں کے درمیان گزری طبیعت
خوش مذاق اور آزاد منش ،ہر جگہ اٹھنا بیٹھنا ،میل جول ،تمام طبقوں اور
فرقوں سے تعلقات اور ہر رنگ کی محفلوں میں پہنچ جانا ان سب کا عکس انکی
شاعری میں ملتا ہے اس ہی سے نظیر اکبر آبادی نے وسیع مشاھدہ کیا اور وقت کے
ساتھ ساتھ تجربہ بھی ہوتا رہا یہی وجہ ہے کہ آخری عمر میں حقیقت پسند بنتے
رہے اور درویشی اور صوفیانہ مشرب اختیار کرلیا نظیر اکبر آبادی نے ایک نظم
میں خود کی زندگی کا عکس پیش کیا
کہتے ہیں نظیر جسکو سنئے ٹک اسکا بیاں
تھا وہ معلم غریب بزدل و ترسدہ جاں
کوئے کتاب اسکے تیئں صاف نہ تھی درس کی
آئے تو معنی کہے ورنہ پڑھائے رواں
رشید حسن خاں نے انتخاب نظیر اکبر آبادی کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی ہے
جس کے مقدمے میں نظیر کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :نظیر نے
جن چیزوں اور باتوں کو اپنی شاعری کا خاص موضوع بنایا وہ اسوقت تک اردو
شاعری سے غیر متعلق سی تھی لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ تھی کہ نظیر نے جس
اسلوب اور جس سادہ و صاف ڈھنگ سے ان باتوں کو کہا اس کو زیادا نا مناسب
سمجھا گیا نظیر کی زبان پر اردو کے معیاری لب و لہجے سے زیادہ بول چال کا
اثر تھا ۔ گویا کہ نظیر اکبر آبادی نے شاعری کے لئے ان موضوعات کا چناؤ کیا
جن کو اس سے پہلے شاعری میں جگہ نہیں ملی تھی اور ان موضوعات کو بیان کرنے
کے لئے جو زبان و اسلوب اختیار کیا وہ بھی منفرد تھا نظیر اکبر آبادی کے
موضوعات کو کچھ اسطرح تقسیم کیا جا سکتا ہے
تہوار: عید ،ہولی ،دیوالی،شب برائت وغیرہ
کھیل: بسنت
مذہبی نظمیں: خواجہ معین الدین ، گرونانک ،حضرت علی ٓ وغیرہ
فطرت پر نظمیں :برسات کی بہاریں ،ہنس نامہ وغیرہ
ان کے علاوہ انہوں نے عوامی موضوعات کے متعلق شاعری کی جن میں بنجارا
نامہ،کوڑی نامہ،مفلسی،پیسہ نامہ، چپاتی نامہ،پیٹ کی فلاسفی،آٹا دال،جیسے
موضوعات پر شاعری تخلیق کی۔
جب پھول کا سرسوں کے ہوا آکے کھلنتا
اور عیش کی نظروں سے نگاہوں کا لڑنتا
ہم نے بھی دل اپنے تئیں کرکے پختہ
اور ہنس کر کہا یارائے لکڑ بھونتا
سب کی تو بسنتیں ہے یاروں کا بسنتا۔۔۔۔نظم بسنت سے اشعار۔۔
نظیر کو اردو شاعری کا پہلا عوامی شاعر تسلیم کیا جاتا ہے نظیر اکبر آبادی
کی سوانح عمری عبدالغفور شہباز نے زندگانی بے نظیر کے نام سے لکھی ہے عوام
میں مقبول عوامی زندگی کی عکاسی کرنے والے یہ شاعر اردو شاعری میں ایک
منفرد مقام رکھتے ہے جس کو اپنے وقت میں تو شہرت نہ ملی لیکن بعد میں انکی
شاعرانہ خدمات کو سراہا گیا ہے
ٹک خرص و ہوس کو چھوڑ میاں نت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
کیا بدھیا بھینسا بیل شتر ،کیا گوئیس پلہ سر بھارا
کیا کہیوں چاول موٹھ مٹر کیا آگ دھواا¡ اور انگارا۔۔۔۔سب ٹھاٹھ پڑے گا جب
لاد چلیگا بنجارا |