ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی کی کہانی ان کی زبان

تعارف:
ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے شعبہ لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس کا ہر طالب علم اور محقق ان کے نام سے شناسائی رکھتا ہے آپ نے کراچی یونی ورسٹی سے لائبریری سائنس میں اوّلین پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ اسلامی کتب خانے ان کا خاص موضوع ہے یہی مقالہ آپ کی وجہ شہرت بنا یہ مقالہ کسی طفلِ مکتب کا نہیں بلکہ ایسی شحصیت کا ہے جس نے اپنی زندگی کے ۲۰ سال لائبریری میں عملی تجربہ حاصل کیا اور اردو فارسی، عربی زبانوں کی کتابوں کا مطالعہ کیا آپ کو ان زبانوں پر دسترس حاصل تھی صرف اپنے مقالہ کے لیے آپ نے چھ سو کتابوں سے استفادہ کیا اور تیس ہزار سے زائد حوالے درج کیے یہ مقالہ ایک علمی، تاریخی دستاویز ہے اردو ادب کے علاوہ اسلامی تاریخ اور لائبریری سائنس کے طالب علموں کے لیے بھی اس میں معلومات کا بیش بہا خزانہ موجود ہے۔ جو اسلامی تہذیب و ثقافت اور تاریخ پر مستند اور جامع معلومات پیش کرتا ہے اور بہترین حوالہ جاتی مآخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ محقق نے اس مقالہ میں عہد رسالت سے اُموی دور تک کتب خانوں سے متعلق تاریخ و حقائق کو بہت جستجو اور دقیق نظری کے ساتھ یکجا کیا ہے یہ دل جمعی اور دیدہ ریزی کا کام ہے جو اسلامی تاریخ اور اداروں سے ان کی محبت کا بیّن ثبوت ہے۔ شعبہ لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس کی سابق صدر ڈاکٹر نسیم فاطمہ کی رائے یہ ہے کہ ’’یہ کتاب کتب خانوں کے بنیادی فروعی اصولوں کا مفصل تعارف پیش کرتی ہے کتب خانوں کی نشوونما اور ارتقا پر ایک جامع تحریر ہے۔ املا کے عہد بہ عہد تاریخی سفر کی روئیداد پیش کرتی ہے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کے کتب خانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ کیٹلاگ سازی، علوم کی درجہ بندی، کتاب سازی کے بنیادی مباحث کا خوبصورت مرقع ہے۔ نامور کتابیات سازوں ، کتابیاتی سرگرمیوں اور فن کتابیات کی اصطلاحات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو یہ پورے ایک عہد کے نظام کتب خانہ کی تشکیل و ترتیب کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے۔

تعلیمی پس منظر
نام عبدالحلیم چشتی آپ کی ولادت جے پور انڈیا میں ۱۶؍اپریل ۱۹۲۹ء میں ہوئی آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسۃ تعلیم الاسلام، جے پور راجستھان میں حاصل کی اس کے بعد درس نظامی کی تکمیل کی پھر دیوبند سے پانچ سال تعلیم حاصل کی آپ کے استاد مولانا حیدر حسن خان تھے جن کا تعلق ٹونک سے تھا دیوبند میں آپ کا قیام ۱۳۶۳۔۱۳۶۹ ھ تک رہا۔

آپ نے ۱۹۶۷ء میں کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم۔اے کیا اور ۱۹۷۰ء میں لائبریری سائنس میں ماسٹرز کیا۔ ۱۹۸۱ء میں آپ نے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ڈاکٹر صاحب کی اندرون و بیرون ملک پیشہ ورانہ خدمات کا عرصہ تقریبًا ۳۴ سال پر محیط ہے۔ آج کل جامع الرشید میں استاد کی حیثیت سے دینی علوم کی تعلیم دے رہے ہیں۔

خاندان:
آپ کے والد مولانا عبدالرحیم عالم دین تھے ڈاکٹر صاحب کا گھرانہ علم و فضل کا گہوارہ تھا آپ ۵ بھائی ہیں جن میں آپ کو شامل کرکے تین بھائی عالم دین عربی، فارسی کے ماہر اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ بڑے بھائی عبدالرشید نعمانی نے ’’لغت القرآن‘‘ ندوۃ المصنفین سے شائع کی دوسرے بھائی عبدالعلیم ندوی لکھنؤ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد راجپوتانہ یونی ورسٹی میں فارسی کی تعلیم دیتے تھے۔

آپ کے والد مولانا عبدالرحیم شاعر تھے ،خاطرؔ تخلص رکھتے تھے۔ پرنٹنگ کا کاروبار کرتے تھے آپ کا پرنٹنگ پریس ’’مطبع رحیمی‘‘ کے نام سے مشہور تھا وہ خود بھی بہت اچھے خوش نویس تھے۔

حالاتِ زندگی:
بقول ڈاکٹر صاحب میرے والد مذہبی ذہن رکھتے تھے وہ خود عالمِ دین تھے اور مجھے بھی عالمِ دین بنانا چاہتے تھے ڈاکٹر صاحب نے مسکراکر اپنے ماضی میں جھانکتے ہوئے فرمایا کہ ابتدا میں میرا دل پڑھنے لکھنے کی طرف مکمل راغب نہیں تھا شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ تایا کے بچے انگریزی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ تایا مالی طور پر خوش حال تھے ان کا رہن سہن جدید طرز پر تھا والد صاحب مجھے دین دار اور عالم بنانا چاہتے تھے مگر میں سلیم شاہی جوتی اور روایتی لباس پہننے کو تیار نہیں تھا میری خوب پٹائی بھی ہوئی مگر مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا میں نے پڑھ کر نہ دیا یہ ۱۹۳۹ء یا ۱۹۴۰ء کی بات ہے جب میرے والد نے مجھے جنرل اسٹور پر بٹھا دیا کچھ عرصہ بعد بھائی کی شادی ہوئی تو ان کے ساتھ میری بھی شادی کر دی گئی کم عمری تھی مجھے تجارت کا کوئی تجربہ نہیں تھا مجھے اسٹور چلانا نہیں آیا بھائی کو والد نے حیدرآباد دکن بلالیا میرے مزے آگئے میں نے اسٹور کو خوب لُٹایا والد صاحب بھی ’’معجم المصنفین‘‘ (اس کتاب میں ۶۰ ہزار مصنفین اور علما کے حالات زندگی درج کیے گئے ہیں۔) کی تیاری کے سلسلے میں دکن جا چکے تھے۔ اب کوئی دیکھنے والا تو تھا نہیں لہٰذا دکان چلنے کے بجائے تباہ ہوگئی محلہ والوں نے والد کو شکایتیں لگائیں تو والد صاحب مجھے بھی دکن لے گئے دکن میں والد صاحب کا دفتر علمی و ادبی تہذیب کا گہوارہ تھا۔ بڑے بڑے علما، فضلا یہاں آئے محفلیں جمتیں مشاعرے ہوتے جن میں میں بھی شریک ہوتا تھا۔ اب ان لوگوں کے سامنے مجھے شرم آنے لگی کہ مجھے تو کچھ نہیں آتا پھر مجھے پڑھنے کا شوق پیدا ہوا چنانچہ میں کتب خانہ آصفیہ سے کتابیں لا کر پڑھنے لگا اور طے کرلیا کہ مجھے ہر قیمت پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہے۔ ۱۹۴۰ء میں والد صاحب نے مدرسہ نظامیہ حیدرآباد دکن میں داخلہ کروا دیا جہاں ابتدائی عربی تعلیم حاصل کی اس کے بعد جے پور راجستھان کے مدرسہ تعلیم میں داخلہ لیا یہاں سے میں نے ’’منشی فاضل‘‘ کیا اس کا امتحان دلّی میں ہوا اور اس کا ایک انگریزی اخبار میں رزلٹ آیا تھا۔

اس کے بعد دو سال تک عربی پڑھی جو ’’الکافیہ‘‘ نحو کی کتاب تک پڑھی یہاں سے مجھے دیوبند بھیج دیا گیا اور میرے لیے وظیفہ مقرر ہوا جو الکافیہ پڑھنے کے بعد ملتا تھا دیوبند کے داخلہ میں مشکل ہوئی تو بھائی جان کی معرفت کام آگئی ۵ سال تک دیوبند میں تعلیم حاصل کی جس کا سلسلہ ۱۹۴۷ء میں پاکستان آنے کی وجہ سے ختم ہوگیا۔

ملازمت:
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ہجرت کے بعد مسائل کا سامنا ہوا پہلا مسئلہ روزگار کا تھا پورا خاندان ہمارے ساتھ تھا ایک جاننے والے حضرت جو پوسٹ آفس میں اعلیٰ عہدے پر تھے ہمارے گھر ٹھہرے ان کی معرفت بھائی کو پوسٹ آفس میں نوکری مل گئی ہم آرام باغ کی ایک بلڈنگ میں ٹھہرے تھے مہاجروں نے جگہ جگہ مکانات اور بلڈنگوں میں رہائش اختیار کرکے قبضہ کرلیا تھا مگر ہم عزت کے خوف سے ایڈوانی ہائی اسکول کی بلڈنگ میں آگئے جہاں بہت سے مہاجر پناہ لے چکے تھے۔ پھر ہم نے اپنے بڑے بھائی کو (جو اردو عربی کتابوں کے مصنف تھے اور عالم دین تھے انھوں نے لغات القرآن ندوۃ المصنفین سے شائع کی تھی) پاکستان بلالیا۔

ان کے جاننے والوں نے رنچھوڑ لائن میں ایک فلیٹ دے دیا تو ہم سب اس میں رہنے لگے ۱۹۴۸ء میں، میں نے اپنی بقیہ تعلیم مکمل کی اور مجھے ’’سند فراغ‘‘ ملی جو ۵ سال بعد ملتی تھی۔ ۱۹۴۹ء میں، میں ریڈیو پاکستان میں ملازم ہو گیا اس زمانے میں مولانا احتشام الحق ریڈیو پاکستان سے قرآن کی تفسیر بیان کرتے تھے میں وہاں ان کے اسسٹنٹ کے طور پر ۲ سال تک کام کرتا رہا جب احتشام الحق صاحب کو سبکدوش کر دیا گیا تو میں نے بھی وہاں کی ملازمت چھوڑ دی اور پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی میں ملازمت حاصل کرلی۔

اس زمانے میں مسجد خضرا کے پاس صدر میں بیرکوں کے اندر لیاقت نیشنل لائبریری بنا دی گئی تھی ابن حسن قیصر اس وقت لائبریرین تھے۔ ایک دن ان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے لائبریری کی کچھ کتابیں داخلہ رجسٹر میں درج کر دو میں نے ۱۰۰ کتابیں درج کر دیں کچھ دن بعد انھوں نے بتایا کہ وہاں جگہ ہے میں نے جا کر انٹرویو دے دیا اس طرح میں ۱۸۰ روپے تنخواہ پر گورنمنٹ ملازم ہو گیا۔ اس وقت ولایت حسین شاہ لائبریرین تھے یہاں میں نے ۱۴ سال ملازمت کی میرا ڈائریکٹر ایک بنگالی نورالصفا تھا وہ چھٹی بالکل نہیں دیتا تھا جو پریشانی کا باعث تھا اس زمانے میں ڈاکٹر عبدالمعید بھی اکثر لائبریری میں آتے رہتے تھے۔ ایک دن انھوں نے مجھے اطلاع دی کہ کراچی یونی ورسٹی کے اورینٹل سیکشن میں جگہ خالی ہونے والی ہے آپ ان کی جگہ آجائیں۔

چنانچہ میں نے درخواست دے دی میرا انتخاب ہو گیا اس وقت عبید اللہ قدسی کراچی یونی ورسٹی اورینٹل سیکشن کے انچارج تھے۔ ان کے بہنوئی کا منسٹری سے تعلق تھا وہ جوائنٹ سیکریٹری تھے لہٰذا قدسی صاحب کو توسیع مل گئی اور میں ان کا اسسٹنٹ بن گیا ۱۰ سال بعد مجھے ان کی جگہ ملی یعنی ۱۷ گریڈ میں میرا تقرر ہوا کچھ عرصہ میں نے یونی ورسٹی مسجد کے خطیب کے فرائض بھی انجام دیے۔ ۳۱ مارچ ۱۹۹۰ء کو میں نے توسیع لی اور ۲۷ جولائی ۱۹۷۷ء میں دو سال کی چھٹی لے کر نائیجریا چلا گیا جہاں بیرو یونی ورسٹی میں سینئر کیٹلاگر کی حیثیت سے ۱۰ سال خدمات انجام دیں ۔

۱۴ مارچ ۱۹۸۱ء میں مجھے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری ایوارڈ ہوئی ۱۹۷۱ء میں میں نے پی۔ایچ۔ڈی میں داخلہ کی درخواست جمع کرائی تھی اس طرح یہ عرصہ ۱۰ سال میں ڈاکٹریٹ مکمل ہوا۔ عبدالمعید صاحب میرے نگراں تھے اب سات سال سے جامع الرشید میں استاد کی حیثیت سے تعلیم دے رہا ہوں۔

مدرسہ بنوریہ ٹاؤن میں شعبہ تحقیق و حدیث کا نگران اعلیٰ ہوں۔ میرے بیٹے حافظ محمد ثانی اسلامیات میں پی۔ایچ۔ڈی ہیں اور لائبریری سائنس میں بھی ماسٹرز کیا ہے آج کل وہ DHA کالج میں پڑھا رہے ہیں۔
میرے ۴ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں سب حافظ قرآن ہیں محمود اور حماد دو بیٹے گورنمنٹ ملازم ہیں اور ایک حافظ محمد اول گارنمنٹ کا کاروبار کرتے ہیں بیٹی حبیبیہ مدرسہ البنات بنوری ٹاؤن کی نگران ہیں۔

تصانیف:
ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی اسلامیات، کتب خانوی سائنس دونوں پر دسترس رکھتے ہیں ہمہ وقت مطالعہ اور تحقیق میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی تصانیف درجِ ذیل ہیں:

۱۔ چشتی، عبدالحلیم:
اسلامی قلم رو میں اقراء اور علّم بالقلم کے ثقافتی جلوے (دو جلدیں)/مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی۔ کراچی: مکتبہ الکوثر، ۲۰۱۵ء
۲۔ چشتی، عبدالحلیم:
اسلامی کتب خانے/مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی۔ لاہور: الفیصل، ناشران و تاجران کتب،۲۰۰۰ء
۳۔ چشتی، عبدالحلیم:
تذکرہ علامہ جلال الدین سیوطی/مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی۔ کراچی: الرحیم اکیڈمی،۱۴۲۱ھ
۴۔ چشتی، عبدالحلیم:
حیات امام جزری/مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی ، کراچی: نور محمد کتب خانہ ۔ت،ن
۵۔ چشتی، عبدالحلیم:
حیات وحیدا لزماں /مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی، کراچی۔ نور محمد کتب خانہ،۱۹۷ء
۶۔ چشتی، عبدالحلیم:
رموز تدریس و تربیت /ارشادات ،کراچی۔ مدرسہ عثمانیہ ۲۰۱۰ء
۷۔ چشتی، عبدالحلیم:
زادالمتقین فی سلوک طریق الیقین ترجمہ و تشریح مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی، کراچی ۔ الرحیم اکیڈمی ، ۱۹۹۸ء
۸۔ چشتی، عبدالحلیم:
سئد احمد شہید کی اردو تصانیف اردو ادب پر ان کی تحریک کا اثر/ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی، طباعت دوم، کراچی، الرحیم اکیڈمی،۱۴۲۹ھ
۹۔ چشتی، عبدالحلیم:
عدۃ الحصن الحصین /محمد بن جزری، ترجمہ و تشریح مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی، کراچی، مکتب الکوثر ، ۲۰۱۲ء
۱۰۔ چشتی، عبدالحلیم:
عہد نبوی میں صحابہ کرام کی فقہی تربیت /مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی، کراچی، مکتبہ الکوثر ، ۲۰۱۶ء
۱۱۔ چشتی، عبدالحلیم:
فرزندکامل پوری و معتمد بنوری /مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی، کراچی، مکتبہ الکوثر ، ۲۰۱۲ء
۱۲۔ چشتی، عبدالحلیم:
فوائد جامعہ شر ح عجالہ نافعہ/مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی، کراچی، مکتبہ الکوثر ، ۲۰۱۲ء
۱۳۔ چشتی، عبدالحلیم:
مشارق الانوار،مرتبہ مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی،کراچی، نور محمد کتب خانہ، ۱۳۷۵ھ
۱۴۔ چشتی، عبدالحلیم:
نصیحتہ المسلمین /مولانا خرم علی بلہوری ،مرتبہ مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی، کراچی، نور محمد کتب خانہ، ت۔ن
آپ نے بہت سی کتابوں کے مقدے ،تقریظ اور تاثرات رقم کیے ۔
۱۵۔ اطہر مبارک پوری ،قاضی
علم و علماء/قاضی اطہر مبارک پوری ،تاثرات مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی، (باقی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں )۔
۱۶۔
البھاعتہ المزجاۃ لمن یطایع المرقاۃ/مقدمہ مولانا ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی، ملتان، مکتبہ امدادیہ ،۱۹۷۲ء
۱۷۔ جمیل نقوی
مسند عائشہ /مرتبہ جمیل نقوی، مقدمہ ڈاکٹر مولانا عبدالحلیم چشتی، کراچی، اردو اکیڈمی سندھ، ۱۹۹۲ء
۱۸۔اراشیدی ،محمد ایوب
احناف حفاظ حدیث کی فن جرح و تعدیل میں خدمات /محمد ایوب الراشیدی ،تاثرات ڈاکٹر مولانا عبدالحلیم چشتی، کراچی،زمزم پبلشر ز، ۲۰۰۴ء
۱۹۔رشید احمد
سوئے حرم ،رشید احمد ،تقریظ ڈاکٹر مولانا عبدالحلیم چشتی، کراچی،زمزم پبلشر ز، ۲۰۰۶ء
۲۰۔
نبوت اور سلطنت ،تقریظ ڈاکٹر مولانا عبدالحلیم چشتی، کراچی،مکتبہ البخاری ،ت۔ن
۲۱۔ مناظر احسن گیلانی
تدوین قرآن افادات ،مناظر احسن گیلانی، مقدمہ ڈاکٹر مولانا عبدالحلیم چشتی، کراچی،مکتبہ البخاری ، ۲۰۰۵ء
۲۲۔ مناظر احسن گیلانی

ہزار سال پہلے، مناظر احسن گیلانی، مقدمہ ڈاکٹر مولانا عبدالحلیم چشتی، کراچی،بیت العلم ،ت۔ن
کبر سنی کے باوجود آپ کا تصنیف وتالیف کا سلسلہ جاری ہے ۔آپ کو کتابیں پڑھنے اور جمع کرنے کا شوق ہے ،آپ کی رہائش گاہ کے کئی کمرے کتابوں اور رسائل سے بھرے ہوئے ہیں ،آپ کے شخصی ذخیرہ کتب کی اہمیت و افادیت ایک الگ مضمون کی متقاضی ہے ۔

Amna Khatoon
About the Author: Amna Khatoon Read More Articles by Amna Khatoon: 17 Articles with 39272 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.