میں یہاں ریڈیو پروگرام کر رہا ہوں تو اپنی رائے آپ پر
مسلط نہیں کروں گا۔بلکہ آپ کی رائے سننے کی کوشش کروں گا،کہتے ہیں کہ ہر
انسان کے صبر کا ایک پیمانہ ہوتا ہے ۔ کوئی تو غصے کو پی جاتا ہے تو کوئی
رو کر غم ہکا کر لیتا ہے ۔کوئی مار دھاڑ کو پسند کرتا ہے تو کوئی منہ پھیر
کر دل ہی دل میں گالیا ں دیتا ہے۔
پیمانہ جب لبا لب بھرا تو بہہ ،خود گیا
ہم تو خاموش رہے مگر ہاتھ ،اُٹھ گیا
کاشان کمرے میں لیٹا ریڈیو سن رہا تھا۔آر ۔جے نے اپنی خوبصورت آواز میں
نئے سننے والوں کو خوش آمدید کہا۔ اس نے جو ٹاپک بتایا وہ کاشان کے لیے
دلچسپ تھا۔ لوگ اتنا غصہ کیو ں کرتے ہیں ۔ کاشان کے دماغ میں فوراً اپنے
ابا کا خیال آیا۔ آر ۔جے پھر مخاطب ہوا ۔ آخر کیا چیز آپ کو غصہ کرنے
پر مجبور کرتی ہے۔ آپ کیوں چیزوں کو درست پہلو سے نہیں دیکھ پاتے۔ آخر اس
انسان کے دماغ میں کیا ہوتا ہے جو اچانک سے غصے سے پاگل ہو جاتا ہے۔بتائیے
اور شامل ہو جائیے آج کے پروگرام میں میرے ساتھ۔یہ بھی بتائیں کہ جب کوئی
آپ پر اپنا بے جا غصہ نکالتا ہے تو آپ غصے میں آ کر کیا کرتے ہیں ۔ فون
نمبرپر ابھی ایس ،ایم ، ایس کیجئے اور کہہ دیجئے دل کی وہ بات جو اب تک آپ
نے کسی سے نہیں کہی۔کاشان نے دل ہی دل میں سوچا ،کاش ابا بھی یہ پروگرام سن
لیتے۔ جبکہ منور اس سب سے انجان تھا۔
وہ چارپائی پر بیٹھا چھوٹے سے شیشے میں اپنی مونچھوں کو ہموار کرنے اور
سنوارنے میں مصروف تھا۔ جیسے ہی اس کی بیٹی عارفین چاے کا کپ لے کر آئی ۔
اس نے عارفین سے کہاکچھ کھانے کو بھی لاو۔ پھر مصروف ہو گیا۔ہر دو تین دن
کے بعد منور ایسا ہی کرتا تھا،وہ مونچھوں کو سنوارنے کے بعد ہی چاہے کا
گھونٹ لیتا۔ مگرآ ج جب اس نے چائے کا گھونٹ لیا اور اس میں چینی کو نہیں
پایا تو غصے میں آ کر گرم گرم چاے کی پیالی کو کسی گیند کی صورت میں سامنے
کی دیوار سے دے مارا۔ اندر سے آتی ہوئی بیس سالہ عارفین جو اپنے ہی خیالوں
میں گم چلی آ رہی تھی، اچانک سے آتی ہوئی چاے کی پیالی سے نہ بچ سکی۔
منور ہمیشہ غصہ میں بہت بُری حرکات کرتا۔ اس سے بھی ذیادہ افسوس ناک بات
تھی کہ اسے اپنی بُری حرکات پر کوئی شرمندگی نہ ہوتی ۔ اس نے چیخ کر غصے سے
کہا ۔ چینی ڈالنے کوئی اور آتا آسمان سے ۔کاشان کمرے سے نکلا ۔ جو باپ کے
رویے سے سخت خائف تھا۔ وہ منور کا اکلوتا بیٹا تھا جو تین بہنوں میں سب سے
چھوٹا تھا۔ اس نے باپ کو گھورتے ہوئے عارفین کو اُٹھایا جو درد کی وجہ سے
ابھی وہیں بیٹھی تھی اس کے پاوں گرم چائے کی وجہ سے جل چکے تھے جبکہ پیالی
کا ایک ٹکرا لگنے سے اس کے پیر میں سے خون نکل رہا تھا۔ کاشان نے افسردگی
سے منور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ابا چینی چائے میں بعد میں بھی ملائی جا
سکتی ہے۔یہ بات اس نے اس قدر دھیمی آواز میں کہی کہ اسے صرف عارفین ہی نے
سنا۔
منور جو سگریٹ جلانے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ جلنے کا نام نہیں لے رہا
تھا۔منہ میں سگریٹ دبائے وہ لائیٹر سے آگ لگانے کی ناکام کو شش کر رہا تھا
۔ کاشان عارفین کو کچن میں چھوڑنے گیا اور ماچس اُٹھا لایا۔ منورنے کا شان
کو اپنی طرف آتے دیکھا ، کاشان نے ماچس باپ کی طرف کرتے ہوئے کہا۔یہ لیں ۔
ابا آپ کبھی کبھی ہمارے ابا نہیں لگتے۔ماچس کی ڈبی اب منور کے ہاتھ میں
تھی۔ اس کا غصہ اُتر چکا تھا۔ اس نے سگریٹ جلایا اور کش لگایا پھر ماچس کی
ڈبی پر بنی گاڑی کی تصویر کو گھورتے ہوئے کہا۔ تو میں کیا ہوں ۔ کون ہوں۔
کیسا ہوں ۔ منور گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے ،کاشان سے کہہ رہا تھا۔ اس نے
عارفین کی طرف نہیں دیکھا۔
کاشان وہاں سے جا چکا تھا۔ منور نے سگریٹ اور ماچس کی ڈبی اُٹھائی اور
چارپائی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے سگریٹ تو اپنی جیب میں ڈالے مگر ماچس کی
ڈبی کو اپنے ہاتھ میں لیے کمرے میں چلا گیا۔ یہ ویسی ہی ماچس کی ڈبی تھی
،جس کو پا کر وہ خوش ہو جاتا تھا، منور کے لیے ہر ماچس کی ڈبی ایک خزانہ کی
طرح تھی ۔جو اس کی کارڈ کے مجموعہ کو بڑھا دیتی تھی۔وہ ماچس کی خالی ڈبیوں
کو کاٹ کر ان کے تصویر والے حصے کو اپنے پاس محفوظ کر لیتے ۔ وہ اور اس کے
بہن بھائی ان کارڈ سے تاش کھیلا کرتے تھے ۔ اس کی بہن مریم اور وہ جب قرآن
پڑھ کر ایک بڑی بی کے پاس سے واپس آتے تو راستے میں موجود گلیوں میں سے
اگر انہیں کچرے میں کو ئی خالی ماچس کی ڈبی نظر آتی تو فوراً سے اُٹھا
لیتے۔تا کہ اپنے اپنے تاش کے مجموعہ کو برھا سکیں ۔ منور نے ماچس کچن میں
رکھی اور باہر نکل گیا۔
کاشان اپنی ماں کے پاس بیٹھا چائے پی رہا تھا اس نے افسردگی سے کہا ۔ ابا
کو کسی نفسیاتی ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ غصے میں پاگل ہو جاتے ہیں ۔ اس کی ماں
نے مسکراتے ہوئے کہا۔ چپ کر ، مرد ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ تیرے ابا نے تو پیالی
پھینکی ہے ، مرد تو شراب پیتے ، جوا کھلتے ۔ بیویوں کو پیٹتے اور بچوں کو
اونچا سانس نہیں لینے دیتے۔ کاشان نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا، تو ابا کون
سا کم ہیں۔ پچھلے ہفتے جب سالن میں بال نکلا تھا تو انہوں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس
نے افسردگی سے آہ بھری ۔کاشان کی ماں کا منہ بن گیا ۔ وہ مذید منور کی طرف
داری نہ کر سکی۔
منور مستری اور مزدور لے کر آیا تھا۔ چھت پر مرغیاں رکھنے کے لیے کچھ پکی
جگہ بنانا چاہتا تھا۔ کیونکہ جہاں وہ رہتے تھے ،وہ قصبہ تھا۔ لوگوں نے
مرغیاں اوردیگر جانور رکھے ہوئے تھے ،جو ان کو فائدہ دیں۔یہ جگہ گاو ں جیسی
نہیں تھی۔ جگہ جگہ دوکانیں اور پکی سڑکوں کا سلسلہ تھا۔ منور نے کاشان کو
آواز دی کہ وہ اسے ہتھوڑی دے کر جائے،مگر وہ غسل خانے میں تھا۔ منور کی
بیوی نے سوچا اگراس نے دیر کی تو منور کو غصہ آئے گا ، وہ خود ہی ہتھوڑی
لے کر سیڑھیاں چڑھنے لگی جو کافی ذیادہ تھیں ۔ منور کی بیوی اب بوڑھی ہو
چکی تھی۔ اپنی طرف سے جلدی کرنے کے باوجود وہ دیر لگا رہی تھی ۔ منور غصے
سے چلایا جلدی کرو۔کاشان غسل خانے سے نکل آیا مگر بے بسی سے اپنی ماں کی
طرف دیکھا جو تقریبادس سیڑھیا ں چڑھ چکی تھی۔ کچھ دنوں سے اس کے گھٹنوں میں
بہت درد تھا۔ کاشان نے اپنی ماں کی طرف دیکھا۔ غصے میں منور نے تین سیڑھیاں
اُتری اور اپنی بیوی سے ہتھوڑی لے لی۔
کاشان نے پریشانی سے ابا کی طرف دیکھا کہیں وہ ہتھوڑی امی کو مار ہی نہ دیں
۔ جبکہ منور کی بیوی کو بھی یہ ہی گمان ہوا ، جیسے ہی منور نے ہتھوڑی کو
لہرا کر غصے سے اسے کمبخت کہا تو منور کی بیوی کا پاوں پھسل گیا اور وہ
نیچے جاگری ۔منور نےاسے گِرتے ہوئے دیکھا۔ کاشان اور منور اسے لے کر ہوسپٹل
پہنچے مگرذیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے اس کا انتقال ہو چکا تھا۔کاشان کو
اپنے باپ پر شدید غصہ تھا جو معصوم سا منہ بنائے اس کے ساتھ ہی بیٹھا تھا۔
اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرئے وہ پھوْٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ اس
کے ناز و نخرے اُٹھانے والی اور ہر غم کو ہنس کر سہنے والی ماں اب نہیں
تھی۔
ایک کتاب پڑھتے ہوئے جب اس نے یہ جملہ پڑھا ۔
وہ جو رات کو روشن کرتے تھے وہ چراغ بجھ گئے ہیں اب ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
تو وہ بے اختیار رونے لگا اسے اپنی ماں کی محبت یا دآنے لگی ۔ کیسے وہ ہر
تکلیف کو چپ چاپ سہ جاتی ۔ یہ مائیں اس قدر صابر کیسے ہوتی ہیں ؟وہ کتاب
بند کر کے بے قراری سے رونے لگا۔انسان موت کو کیوں شکست نہیں دے پایا۔ کاش
میری ماں نہیں مرتی ! اس کا منہ آنسو سے دھل چکا تھا ۔ وہ بے بسی سے
ہچکیاں لے رہا تھا۔ کافی دیر رونے کے بعد وہ چپ کر گیا۔ رب نے اس کے دل کو
جیسے تسلی دی ہو۔وہ اپنے باپ سے بات نہیں کرتا ۔ اگر غلطی سے کبھی آمنا
سامنا ہو جاتا تو وہ منہ پھیر کر جلدی سے گزر جانے کی کوشش کرتا۔کبھی کبھی
انسان رشتوں کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے۔ اس کو تکلیف دینے والا کوئی اور
نہیں اس کا اپنا باپ تھا ۔ وہ اپنے ہی باپ کے خلاف نہیں جا سکتا تھا۔ وہ اس
باپ کے خلاف کیسے جاتا ،جس کا خون اس کی رگوں میں تھا۔ اس ماں کے لیے اپنے
ہی باپ سے کیسے لڑتا ،جو ہمیشہ اس کی حمایت کرتی تھی۔ اسے ہمیشہ اپنے باپ
کی عزت اورخدمت کرنے کا درس دیتی تھی۔
کچھ دن گزر چکے تھے ،کاشان بہت خاموش رہنے لگا تھا۔ اب وہ بھی اپنے باپ کی
طرح غصہ کرنے لگا اور چیخنے لگا تھا۔ منور کاشان کے کمرے میں آیا جہاں وہ
سو رہا تھا۔ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔ کاشی کیا تم مجھ سے ناراض
ہو ۔ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتے ۔ کاشان اچھل کر بیٹھ گیا۔منور نے اپنی بات
جاری رکھتے ہوئے کہا۔ کاشی تمہاری ماں کی موت میں میرا کیا قصور ۔مجھ سے
کیوں ناراض ہو۔ میں نے اسے تھوڑا ہی مارا ہے ۔ کاشان پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے
لگا ۔ منور نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔ سچ ہے۔ مجھے غصے میں کچھ سمجھ نہیں
آتا ، مگر میں اسے مارنے تھوڑا ہی لگا تھا۔ صرف دو چار تیکھے لفظ ہی کہہ
رہا تھا۔ تمہاری ماں نے بڑے ہی صبر سے گزارا کیا میرے ساتھ۔ مجھے بھی بُرا
لگا ہے اس کی موت کا مگر مرنے والے کے ساتھ مرا نہیں جا سکتا۔
کاشان نے چیختے ہوئے کہا۔ ہاں مگر اپنا علاج تو کروایا جا سکتا ہے۔ منور نے
کاشان کی طرف دیکھا اور حیرت سے کہا ۔ کس چیز کا علاج۔ کاشان نے غصے سے کہا
۔ اپنے دماغ کا ، آج کل دماغ کے ڈاکٹر بھی ہوتے ہیں ۔
منور نے حیرت سے کہا۔ تم کہہ رہے ہو کہ میں پاگل ہوں ۔ کاشان نے غصے سے کہا
۔ میں کہہ رہا ہوں کہ آپ پاگل ہی ہو جاتے ہیں ۔اس پاگل پن کی وجہ سے میں
نے اپنی ماں کھو دی ۔ میں یہ گھر چھوڑ کر چلا جاوں گا اگر آپ نے اپنا علاج
نہیں کروایا۔ منور نے حیرت اور پریشانی سے کاشان کو دیکھا۔ وہ اس کا اکلوتا
بیٹا تھا۔ جو پندرہ سالہ جوان تھا۔ منور اسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے
حامی بھرتے ہوئے کہا۔ اچھا میں تمہارے ساتھ کہیں بھی چلنے کو تیار ہوں ۔
اپنا علاج بھی کروا لوں گا۔ مگر بیٹا تم سے بہت امید ہے مجھے ، میرے بعد اس
گھر کو کون دیکھے گا۔ اپنے آپ کو صدمہ سے نکالو۔ انسان کی زندگی تو بہت سے
غموں کا مجموعہ ہے۔ مرد اگر بیٹھ کر رونے لگے تو عورت کو سہارا کون دے ۔
معاشرہ کیسے چلے گا۔ درد کو پینا سکھو۔
ڈاکٹر فرخندہ عظیم کے سامنے وقت لینے کے بعد وہ مایوسی سے بیٹھا تھا۔ یہاں
آنا اس کی مجبوری تھی۔ ڈاکٹر فرخندہ نے اس کی تمام ہسٹری اس کے بیٹے کاشان
کے منہ سے سنی ۔ ان میں اہم واقعات کچھ یوں تھے۔
غصے میں آ کر چھوٹے بچے کو چارپائی سے پٹک دینا۔ جس سے بچے کی بازو ٹوٹ
گئی۔
غصے میں آ کر چھت سے اینٹ پھینک دینا۔
چائے کا گرم کپ بغیر دیکھے پھینکنا۔
سالن سے بال نکلنے پر بیوی کے بال کاٹ دینا۔
سوئی لگنے پر ،ملی ہوئی سوئی چبھو کر غلطی کا احساس دلانا۔
مرضی کے خلاف کام ہونے پر جسمانی تشدد کرنا ۔ مارنا پیٹنا۔اس قسم کے ان گنت
واقعات اور اس پر ہٹ دھرمی یہ کہ ۔اپنے کیے پر کوئی افسوس نہ ہونا ۔ اپنے
ہر عمل کو دوسرے کے لیے بہتر سمجھنا۔ آخری بیان پر کاشان نے کہا ،اس کی تو
کہیں مثالیں ہیں ۔ کیا آپ یہ سب نارمل کہیں گی۔ منور نے خود کی حمائت میں
کہا۔ اس میں ابنارمل کیا ہے۔ بڑے کا اتنا تو حق ہوتا ہے نا۔ خاندان کا
سربراہ ہونا آ سان نہیں ۔
ڈاکٹر فرخندہ نے کاشان کو باہر بھیج دیا ۔ وہ اب منور سے مخاطب تھیں۔ آپ
بتائیں ۔ مذید ۔ اپنے بارے میں ۔ اپنی خواہشات اور اپنے خوف سے متعلق وہ سب
کچھ جو آپ جانتے ہیں ۔ منور نے فوراً کہا۔ مجھے کوئی خوف نہیں ہے۔ میں
کوئی بچہ تھوڑ ا ہی ہوں ۔ خواہشات تو کہیں ہوتی ہیں ۔ سب پوری تھوڑی ہو
سکتی ہیں ۔ تین ملاقاتیں ہو چکی تھی ۔ڈاکٹر فرخندہ کو اندازہ ہو چکا تھا کہ
منور کسی بات کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ جو اس کے بچپن سے متعلق ہے۔ انہوں
نے نرم لہجے میں کہا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ بچے تھے تب سے خوفزدہ ہیں اور
سمجھتے ہیں کہ اپنے سے کمزور کے ساتھ کچھ بھی کرنا جائز ہے۔ کیا ایسا ہی ہے
؟منورچونک گیا ، اس نے فوراً اٹکتی ہوئی آواز میں کہا ،نہیں نہیں ۔ ایسا
تو کچھ نہیں ۔ میں کسی سے کبھی خوفزدہ نہیں ہوا ۔ میں نے کبھی کچھ غلط نہیں
کیا ۔ ایسے کہتے ہوئے اس کی آواز میں اتر انے والے خوف اور انکھوں میں
اُبھر آنے والی نمی کو ڈاکٹر فرخندہ نے محسوس کیا۔ انہوں نے بہت ہمدردی سے
کہا۔ آپ مجھے اپنی ہر بات کہہ سکتے ہیں ۔میں نہ تو آپ کی رشتہ دار ہوں کہ
آپ کا مذاق اُڑاوں گی اور نہ ہی آپ کی کوئی بات باہر جائے گی۔ بلکہ آپ
کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائےگا ۔ وہ ذہر نکل جائے گا جس نے آپ کی ذات میں
کڑواہٹ بھری ہیں ۔ ہمارے پاس تو لوگ اپنے ماں باپ کی طرف سے کی گئی
ذیادتیاں بھی بیان کر دیتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ دُکھ ان کی زندگی سے ہمشہ کے
لیے غائب ہو جاتا ہے۔ منور پریشانی اور گھبراہٹ میں اُٹھ کھڑا ہوا ۔ میں
جانا چاہتا ہوں ۔ ڈاکٹر فرخندہ نے انہیں روکنا مناسب نہ سمجھا۔
منور نے کاشان سے کہا۔ تمہیں نہیں لگتا کہ تم میرا پیسہ اور وقت دونوں خراب
کروا رہے ہو۔ وہ عورت بھلا کیا بتا سکتی ہے میرے بارے میں ۔ بے کار کی
باتیں کرتی اور کرواتی ہے۔ جن کا کوئی مقصد ہی نہیں ہوتا ۔ دیکھو پچھلی
ملاقات میں اس نے مجھ سے کہا۔ اگر میں دوبارہ بچہ بن جاوں تو کیا کیا کرنا
چاہوں گا۔ کیسا مذاق ہے۔ کوئی دوبارہ بچہ بن سکتا ہے۔ یہ لوگ پیسہ بنانے کے
لیے کسی کو بھی پاگل کہہ دیتے ہیں ۔ روزی روٹی ہے ان کی۔ بے چارے کیا کریں
۔
کاشان نے اپنے باپ کی تمام باتیں اطمینان سے سننے کے بعد کہا کوئی بات نہیں
پھر بھی چلتے ہیں ۔ ڈاکٹر فرخندہ نے معمول کے مطابق کاشان کو باہر بھیج دیا
۔ منور کی طرف دیکھ کر کہا۔ تو منور صاحب ، ہم کہاں تھے ۔ آپ کو یاد ہے
آپ کے بچبن کی بات چل رہی تھی نا۔ منور الجھ گیا۔ آپ کہتی کیوں نہیں میرے
بیٹے کو میں بلکل نارمل ہوں ۔ آپ کو جو پیسے چاہیے مجھے بتا دیجیے ۔ میں
سمجھ سکتا ہوں ۔ آپ مجھے کیوں نہیں چھوڑ رہی۔ ڈاکٹر فرخندہ نے مسکراتے
ہوئے کہا۔ آپ پردہ ڈالنا نہیں چھوڑ رہے۔ اگر آپ اپنا مسلہ مجھے بتا دیں
گئے تو آپ کے اندر جو خلش دبی ہوئی ہے نکل جائے گی۔ آپ امید رکھیے ، آپ
کا کوئی راز اشکار نہیں کیا جائے گا۔ ہم میں جو بات ہو گی ہم ہی میں رہے
گی۔ منور نے غصے سے میز پر پڑے پیپرے ویٹ کو اُٹھایا اور میز پر مارنے ہی
والا تھا کہ ڈاکٹر فرخندہ نے کہا۔ اگر میز ٹوٹا تو میز کی قیمت آپ دیں
گئے۔ یہ سوچنے کے بعد اس پتھر کا استعمال کیجئے گا۔ آپ خوشی سے میز توڑ
دیں ۔ ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔
منور بھر بھڑایا ، پھر اس نے ڈاکٹر فرخندہ سے پوچھا کیا میں سگریٹ پی سکتا
ہوں ۔ ڈاکٹر فرخندہ نے اسے اجاذت دے دی ، مگر جیسے ہی اس نے سگریٹ کی ڈبی
نکالی تو جلانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ ڈاکٹر فرخندہ نے گھنٹی آنے والے کو
ماچس لانے کا بولا تو اس نے اپنی جیب سے نکال کر ماچس منور کو دے دی۔ منور
نے ماچس لی اور اسے گھورنے لگا۔ ڈاکٹر نے اس آنے والے کو جانے کا اشارہ
کیا۔ منور ماچس پر بنے کارٹون کو گھورنے لگا ۔جو اسے اس کے بچبن میں لے
گیا۔ ڈاکٹر فرخندہ نے جب اس سے پوچھا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے تو اس نے غیر
دانستہ تور پر کہا، خود کو ۔
ڈاکٹر فرخندہ سامنے سے اُٹھ کر اس کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی ۔ وہ بھی ماچس
پر بنے کارٹون کو دیکھ رہی تھی۔ڈاکٹر فرخندہ نےنر لہجے میں کہا۔ اپنے دل
میں جو آپ سوچتے ہیں اسے چھپانے سے دل پر بوجھ بڑھتا ہے۔ آپ ہر وہ بات
مجھے بتا سکتے ہیں جو آپ نے آج تک کسی سے نہیں کہی ۔ میں نہ آپ کی رشتہ
دار ہوں کہ آپ کا مذاق اُڑاوں گی۔ نہ ہی آپ کو میرے سامنے کسی شرمندگی کا
سامنا ہو گا ۔ ممکن ہے کہ ہم اس ملاقات کے بعد پھر زندگی بھر نہ ملیں ۔
ہمیں ملنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔
نے اپنی بات دہرائی ۔ آپ اپنے آپ کو بتائیں ۔ کب آپ نے رحم اور محبت کے
جذبات کو اپنے اندر کم ہوتا محسوس کیا۔ آپ کیوں بے رحم ہوئے۔ آپ کا غصہ
کب سے آپ کے اندر ہے ۔ مجھے نہیں اپنے آپ کو بتائیے ۔ منور صاحب خود سے
بات کرنا بے حد ضروری ہے۔ میں آپ کو آپ سے ملوانا چاہتی ہوں ۔ منور نے
ماچس کی ڈبی کو مٹھی میں بند کر لیا۔ وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح رونے لگا۔
ڈاکٹر فرخندہ نے پانی دیتے ہوئے ، ایک بار پھر منور کو تسلی دیتے ہوے کہا۔
آپ اپنے آپ کو بتائیں ۔ آخر کیا ہوا ۔آپ کیوں سمجھتے ہیں کہ خوفزدہ بچے
ہوتے ہیں ۔ بڑے بھی خوفزدہ ہو سکتے ہیں۔
منور نے اپنی انکھوں کو ملتے ہوئے کہا۔ بچوں کو خوفزدہ کرنا آسان ہے۔بلکہ
ہر کمزور کو خوفزدہ کرنا آسان ہے ۔جس سے آپ قوی ہوں ۔اس پر سارا غصہ
نکالا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر فرخندہ نے دھیرے سے کہا۔یہ آپ کو کس نے بتایا ہے۔
آپ کے والدین نے یا پھر بڑے بہن ، بھائیوں نے۔ منور نے خود کو سنبھالتے
ہوئے کہا۔ کسی نے نہیں ۔ میں یہاں سے جانا چاہتا ہوں ۔ڈاکٹر فرخندہ نے منور
کو ایک پنسل اور کاغذ دے کر کہا۔ ٹھیک ہے آپ چلے جانا ۔ مگر میں چاہتی ہوں
کے آپ میرے لیے کچھ تصاویر بنائیں ۔ کم سے کم ایک تو بنا ہی سکتے ہیں۔
منور نے بے دلی سے کاغذ لیا اور اس پر پنسل چلانے لگا۔دیکھتے ہی دیکھتے اس
نے کاغذ پر کارٹون بنا کر چھوڑ دیا۔ڈاکٹر فرخندہ نے اس سے پوچھا ۔ منور
صاحب آپ نے کیا بنایا۔ اس نے کھوئے کھوئے انداز میں کہا ۔ تاش۔ ڈاکٹر
فرخندہ نے کاغذ کو دیکھتے ہوئے کہا۔ آپ کو تاش کھیلنا پسند ہے۔ منور نے بے
دلی سے کہا نہیں ۔ مجھے بچبن میں تاش کھیلنا پسند تھا ۔ اس کے لیے میں ماچس
کی خالی ڈبیوں کو جمع کرتا ۔ یہاں تک کہ سکول سےآتے ہوئے راستے میں سے اگر
کو ڈبی مل جاتی تو وہ بھی اُٹھا لیتا ۔ ڈاکٹر فرخندہ نے دھیرے سے کہا۔ آپ
کے پاس تو پھر بہت سے تاش ہو گئے ہوں گئے۔ منور نے افسردگی سے کہا۔ کاش کہ
میں کبھی ماچس کی ڈبیاں جمع ہی نہ کرتا۔
ڈاکٹر فرخندہ نے کھریدنے کے انداز میں پوچھا ۔ یہ کوئی غلط بات تو نہیں ۔
میں چھوٹی تھی تو مجھے چھوٹے چھوٹے خوبصورت پتھر جمع کرنے کا شوق تھا۔ میں
بھی راستے میں سے اُٹھا لیا کرتی تھی۔ منور نےافسردگی سے کہا، مگر پتھر لوگ
اپنی جیبوں میں لیے نہیں پھرتے۔ ڈاکٹر فرخندہ نے فوراًکہا۔ ماچس کون سا سب
کی جیب میں ہوتی ہے۔ منور کی انکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے اپنے ہونٹوں
پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ایک بار جب میں نے ماچس اُٹھائی ،جو سڑک پر پڑی
تھی ، میں صرف نو سال کا تھا۔ تو ایک آدمی نے مجھے آ کر غصے سے کہا ،
میرا پرس دے۔ ڈاکٹر فرخندہ خاموشی سے منور کے چہرے کی طرف دیکھ رہی تھی ،
جو بتالیس سال کا ہونے کے باوجود کسی نو سال کے بچے کی طرح خوفزدہ محسوس ہو
رہا تھا۔ منور نے ایک آہ بھری، میں نے ماچس کی ڈبی اپنی مٹھی میں بند کر
لی اور اس پہلوان ٹائپ آدمی سے کہا۔ میرے پاس کوئی پرس نہیں ۔ اس نے ایک
ذور دار طمانچہ میرے منہ پر مارتے ہوئے کہا۔ ایک تو چوری کرتا ہے دوسرے
جھوٹ بولتا ہے۔ دو گندی گندی گالیاں بھی دیں۔ میں نے طمانچہ پڑتے ہی مٹھی
کھول دی۔کچھ لوگ جمع ہو گئے تو اس نے اپنا مدعا یوں بیان کیا کہ اس کی جیب
میں نے کاٹی ہے ماچس چونکہ میرے ہاتھ میں ہے تو پرس بھی میرے پاس ہی ہو گا۔
میں نے روتے ہوئے کہا ۔ میں چور نہیں ۔ مگر وہ آدمی غصے میں پاگل ہو رہا
تھا۔
اس نے میری تلاشی لینے کے لیے میری قمیض ہی اتار دی ۔ مجھے ایسے لگا کسی نے
مجھے سب کے سامنے ننگا کر دیا ہو۔ میں بتا نہیں سکتا میں کیسا محسوس کر رہا
تھا۔ وہاں کھڑے لوگوں میں سے کوئی آگے نہیں بڑھا کہ ایک نو سالہ لڑکے کی
مدد کرے۔ اس پہلوان نے مجھے پیٹھ میں دو مکے مارے کہ شاہد اس کا پرس میں نے
جو چھپا دیا ہے بتا دو ں۔ مگر جو چیز میرے پاس تھی نہیں۔ دیتا کہاں سے؟
کافی دیر کمرے میں خاموشی تھی۔ ڈاکٹر فرخندہ نے افسردگی سے کہا۔ آپ نے کسی
کو بتایا نہیں۔ منور نے افسردگی سے کہا۔ میرے بہن، بھائی میرا مذاق اُڑاتے۔
کسی کو کیا بتاتا کہ ماچس کی ڈبی میں نے لی اور چور بن گیا۔ میں نے کبھی
کسی کو نہیں بتایا۔ مجھے اس دن جتنی تکلیف ہوئی اس سے پہلے اورپھر کبھی
نہیں ہوئی۔میں نے کبھی پھر نیچے سے پڑی کوئی چیز نہیں اُٹھائی ۔ ڈاکٹر
فرخندہ نے کچھ دیر تامل کے بعد کہا۔ اسی ایک واقعہ نے آپ کی شخصیت بدل دی
۔ آپ نے یہ بات کسی کو نہ بتا کر ہمیشہ اپنے اندر ایک زخم کو رسنے دیا۔ جو
اب نا سور بن چکا تھا۔ اگر ابھی بھی آپ میرے پاس نہ آتے تو نہ جانے مذید
سال بیت جانے پر آپ کی شخصیت کس قدر بیمار ہوتی ۔ کاش کہ ہم لوگ سوچ پائیں
کہ ہمارے عمل کس قدر دوسرے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں ۔مگر اس آدمی نے نہیں
سوچا کہ ایک نو سال کا معصوم بچہ اس کے رویہ کی وجہ سے کس قدر متاثر ہو گا
اور نہ ہی اب آپ اس بات کی پروا کرتے ہیں کہ آپ کے رویے سے آپ کے اردگرد
کے لوگ کس قدر پریشان ہوتے ہیں۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ کوئی اور منور اپنے
اندر ذہر جمع کر لے جو آپ اس کے وجود میں اپنے رویے سے اتارتے ہیں۔
آپ اپنا غم تو اپنے اندر لیے رہے اور دوسروں کو غم دیتے رہے۔ منور صاحب
اپنے اندر ہم جو دبا کر رکھتے ہیں وہی دوسروں کو دے رہے ہوتے ہیں ۔ ہم خود
بھی نہیں جان پاتے۔ آپ اس آدمی سے متعلق کیا سوچتے ہیں وہ بہت ظالم تھا ۔
اس نے آپ کو سب کے سامنے ذلیل کر دیا۔ منور نے سر ہلاتے ہوے ہاں میں جواب
دیا۔ آپ بھی تو وہی کر رہے ہیں ۔ اس سے بدلہ نہیں لے پائے ،آپ بھی تو
ایسے لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو آپ سے بدلہ نہیں لے سکتے۔ اگر آپ اسے
معاف کر دیتے تو آپ کی زندگی خوشگوار ہو جاتی۔
ہم دوسروں کو وہی کچھ دیتے ہیں جو ہمارے پاس ہوتا ہے۔ غصہ پال کر رکھنے
والا شخص دوسروں کو غصہ ہی دے گا۔ آپ کے ساتھ جو ہوا ایک غلط فہمی کا
نتیجہ تھا۔ اس کی وجہ سے آپ نے اپنی زندگی کو خراب کیا ہوا ہے۔ کیا آپ
سمجھ نہیں پا رہے کہ آپ مظلوم ہو کر ظالم بن گئے۔ ایسا ظالم جو ظلم کر کے
خود کو مظلوم سمجھتا ہے۔ آپ ہی نہیں ہمارے ہاں بہت سے لوگ صرف اسی وجہ سے
ذہنی دباو کا شکار ہیں کہ وہ یا تو اپنی بات کسی کو بتاہی نہیں پاتے یا
بتانا ہی نہیں چاہتے۔
منور نے اپنے بھیگے ہوئے چہرے کو ڈاکٹر فرخندہ کے دیے ہوئے ٹشو باکس سے ٹشو
نکال نکال کر صاف کیا۔ اسے لگا جیسے اس کے اندر کا پھوڑا پھٹ گیا ہوا ۔
سارا ذہر کسی نے نکال لیا ہو۔ وہ عجیب سکون محسوس کر رہا تھا۔ اسے اندازہ
ہی نہیں تھا کہ وہ گند اپنے اندر سنبھال سنبھال کر رکھے ہوئے تھا۔ جبکہ گند
کی جگہ گھر نہیں ہوتا وہ بھی وہ گھر جہاں رب کی ذات بستی ہے۔ اس نے اپنے دل
میں خوشی محسوس کی اور ڈاکٹر فرخندہ کی طرف شکریہ بھری نظروں سے دیکھا۔ اس
نے دھیرے سے کہا۔ آپ ٹھیک کہہ رہی تھیں ۔ آپ نےمجھے مجھ سے ملا دیا۔
منور اس ملاقات کے بعد کبھی ڈاکٹر فرخندہ سے کبھی نہیں ملا۔ اس کی شخصیت
مکمل بدل گئی تھی۔ ایک ماچس کی ڈبی نے اس کی جذباتی زندگی میں آگ لگا ئی
ہوئی تھی ۔ اسے خود یہ بات نہیں معلوم تھی۔ کچھ لوگ آپ کو اپنے آپ سے
ملانےکی وجہ بن جاتے ہیں ۔منور بھی ڈاکٹر فرخندہ کی وجہ سے اپنے آپ کو جان
پایا۔ وہ اب اپنے ہر ملنے والے کوسمجھانے کی کوشش کرتا اور بتاتاکہ ہر
انسان کے لیے عزت بہت اہم ہے ۔خواہ وہ بچہ ہو بڑا ہو ،عورت ہو یا مرد۔
دوسرے انسانوں سے معاملات کرتے ہوئے نرمی اور محبت کے جذبے کو نہ چھوڑیں ۔
خو د سے ملنا بہت ضروری ہے۔اپنی ذات کو ٹٹولتے رہیے ۔ جب کہیں گندمحسوس ہو
۔ اسے صاف کریں کہ اشرف المخلوق گندگی سمیٹنے کے لیے نہیں ہے۔
ہر مٹی اپنی ذات میں منفرد تھی
ہر پھول جدا خوشبو کا حامل تھا
آنا جانا دیکھا،نہیں ہم جان پائے
کون نامکمل تھا اور کون کامل تھا
وہ جس کا رونا روتا رہا کہ ظالم ہے
وہ ظلم کی صورت مجھ میں شامل تھا
کاشان کا بیٹا بھاگتا ہوا آ کر منور سے لپٹ گیا ۔ دو سا ل کا ہونے کو تھا
۔ منور نے پیار سے اسے اوپر اُٹھایا تو وہ ضد کرنے لگا اور اوپر اور اوپر ۔
منور نے اسے ہوا میں لہرایا تو وہ کھل کر ہنسنے لگا۔ اس کے منہ سےتھوک منور
کے منہ پر جا گِرا۔اتفاق سے منور کا منہ بھی کھلا تھا۔اسے گندا تو لگا لیکن
وہ مسکرا دیا۔ اس نے ہنستے ہوئے گندا کہہ کر بچے کو پیار سے نیچے اتار دیا۔
سچ ہے جہاں گندگی جمع نہ ہو ،وہاں سے بدبو بھی نہیں آتی۔ ہمارے ہاں کے
لوگوں کا سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ وہ گندگی کے ساتھ جینے کے اس قدر عادی ہو
چکے ہیں کہ انہیں بدبو اور خوشبو کافرق ہی نہیں پتہ ۔بہت ہی خوش نصیب ہوتے
ہیں وہ لوگ جو زندگی میں وقت رہتے خود سے مل لیتے ہیں ،ورنہ اکثر مرتے وقت
آخری سانسوں میں اعتراف کرتے ہیں کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم ایسی زندگی نہ
جیتے جو ہم جیتے رہے اور افسردگی سے کہتے ہیں کہ کاش کہ وقت لوٹے۔جو کبھی
نہیں لوٹ سکتا ۔ اپنے آپ کو جانچتے رہیے ۔کہیں آپ بھی تو کوئی ماچس کی
ڈبی دل میں لیے نہیں پھر رہے ،جس کی چنگاریاں دوسروں کو جلانے کا سبب بن
رہی ہیں؟ |