بے گناہ کی قبر پر جھکی، جاپانی پولیس کا اعتراف جرم

ایسے مقدمات انسانوں کی زندگیاں برباد کر دیتے ہیں۔ آئیشیما کی کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انصاف میں تاخیر دراصل انصاف کا قتل ہے۔ ایک بے گناہ کو مجرم بنانا دراصل معاشرے کو مجرم بنانے کے مترادف ہے۔
فضل خالق خان (مینگورہ سوات)
دنیا میں انصاف کا تصور اس وقت مکمل ہوتا ہے جب بے قصور کو تحفظ ملے اور مجرم کو سزا۔ لیکن اگر عدالت اور قانون خود کسی بے گناہ کو مجرم بنا دے تو پھر اس سے بڑا ظلم کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ حال ہی میں جاپان میں ایسا ہی ایک افسوسناک واقعہ منظرِ عام پر آیا جس نے نہ صرف جاپانی معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ پوری دنیا کے لیے بھی ایک سبق چھوڑ گیا۔
مارچ 2020 میں جاپان کے ایک معروف بزنس مین شیزو آئیشیما کو تین دیگر افراد کے ساتھ اس الزام میں گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے حساس مشینری غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک ایکسپورٹ کی۔ گرفتاری کے بعد آئیشیما پر فردِ جرم عائد کر دی گئی اور انہیں ضمانت پر رہائی دینے سے مسلسل انکار کیا گیا۔
یہی وہ وقت تھا جب آئیشیما کو ایک اور مصیبت نے آ لیا، اس کے جسم میں کینسر کی تشخیص ہو چکی تھی۔ وہ بار بار عدالت اور حکام سے درخواست کرتے رہے کہ علاج کے لیے رہائی دی جائے، مگر پراسیکیوٹرز نے ان کی درخواستیں مسترد کر دیں۔ اس دوران بیماری تیزی سے پھیلتی رہی اور آخرکار فروری 2021 میں وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔
حیرت انگیز اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ان کے انتقال کے صرف پانچ ماہ بعد عدالت نے فیصلہ دیا کہ آئیشیما پر لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد تھے۔ یعنی جس شخص کو "قانون" نے زندہ رہنے کے حق سے محروم کیا تھا، وہ اصل میں بے قصور نکلا۔
ستمبر 2021 میں آئیشیما کی کمپنی نے عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت نے یہ مقدمہ غیر قانونی قرار دیتے ہوئے حکومت کو حکم دیا کہ متاثرہ خاندان کو تقریباً 166 ملین ین (یعنی تقریباً 11 لاکھ امریکی ڈالر) ہرجانہ ادا کیا جائے۔ عدالت نے واضح کہا کہ یہ فردِ جرم نہ صرف غلط بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی بھی تھی۔
مگر سوال یہ ہے: کیا پیسہ کسی کی زندگی کی تلافی کر سکتا ہے؟ کیا کروڑوں ین کسی بیوی کے آنسو سکھا سکتے ہیں یا کسی خاندان کے زخم بھر سکتے ہیں؟
کچھ دن قبل ایک ایسا منظر بھی دیکھنے کو ملا جس نے جاپان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جاپانی پولیس اور پراسیکیوٹرز کے اعلیٰ حکام آئیشیما کی قبر پر گئے، پھول رکھے اور جھک کر معافی مانگی۔ انہوں نے کہا:
“ہم اس بات پر معذرت خواہ ہیں کہ غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے اور ضمانت مسترد کرنے کے باعث ہم نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی۔ ہم نے انہیں علاج سے محروم کر دیا، جس پر ہمیں افسوس ہے۔”
آئیشیما کی اہلیہ نے یہ معافی سن لی مگر ان کے دل کی گہرائیوں سے ایک کڑوا جواب نکلا:
“میں معافی کو قبول کرتی ہوں… لیکن میں کبھی معاف نہیں کروں گی۔”
یہ جملہ تاریخ میں ایک زخم کی مانند نقش ہو گیا ہے۔
اس واقعے نے جاپان کے عدالتی نظام پر بھی سوال اٹھا دیے ہیں۔ جاپان میں Hostage Justice کے نام سے معروف ایک متنازعہ طریقہ ہے، جس کے تحت مشتبہ افراد کو طویل عرصے تک بغیر کسی الزام کے حراست میں رکھا جا سکتا ہے، تاکہ وہ دباؤ میں آ کر اعتراف کر لیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں طویل عرصے سے اس پر تنقید کر رہی ہیں کہ یہ نظام انصاف کے بجائے ظلم کو فروغ دیتا ہے۔ آئیشیما کا کیس اسی نظام کی ایک بھیانک مثال ہے۔
یہ واقعہ دنیا کے ہر معاشرے کے لیے ایک سبق ہے۔ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں بھی اکثر بے گناہوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ کبھی سیاسی انتقام کے لیے، کبھی ذاتی دشمنی کے لیے، اور کبھی اداروں کی طاقت دکھانے کے لیے۔ ایسے مقدمات انسانوں کی زندگیاں برباد کر دیتے ہیں۔
آئیشیما کی کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انصاف میں تاخیر دراصل انصاف کا قتل ہے۔ ایک بے گناہ کو مجرم بنانا دراصل معاشرے کو مجرم بنانے کے مترادف ہے۔
عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اصل فرض یہ ہے کہ وہ کمزور کو سہارا دیں، نہ کہ طاقت کے نشے میں اُس کی زندگی چھین لیں۔ اگر انصاف قبر پر جا کر معافی مانگنے تک محدود ہو جائے تو یہ انصاف نہیں، المیہ ہے۔
شیزو آئیشیما کی قبر پر جھکی پولیس دراصل پوری دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ انصاف میں معمولی سی کوتاہی بھی انسانی جان لے سکتی ہے۔ یہ کہانی ہر قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہمیں ایسا نظام کیوں نہیں قائم کرنا چاہیے جہاں کسی آئیشیما کو قبر پر جا کر انصاف نہ دینا پڑے بلکہ زندہ رہتے ہوئے اس کے حقوق محفوظ ہوں۔

 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 155 Articles with 93661 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.