بونیر کا المناک سانحہ، ایک گھر سے 21 جنازے

وہ لمحہ جب ایک خاندان شادی کی تیاریوں میں مصروف تھا، سب لوگ خوشی اور مسرت کے رنگوں میں ڈوبے ہوئے تھے، لیکن قدرت نے اچانک ایسی کروٹ بدلی کہ خوشیوں کی محفل چند لمحوں میں قیامت صغریٰ میں تبدیل ہوگئی۔
فضل خالق خان (مینگورہ سوات)
پاکستان کی سرزمین نے قدرتی آفات کا سامنا کئی بار کیا ہے، لیکن کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو اجتماعی حافظے پر گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ بونیر میں 15 اگست 2025 کی صبح بادل پھٹنے اور سیلابی ریلوں کا المناک واقعہ انہی سانحات میں سے ایک ہے۔ وہ لمحہ جب ایک خاندان شادی کی تیاریوں میں مصروف تھا، سب لوگ خوشی اور مسرت کے رنگوں میں ڈوبے ہوئے تھے، مستقبل کی خوابناک تصویریں بنا رہے تھے، لیکن قدرت نے اچانک ایسی کروٹ بدلی کہ خوشیوں کی محفل چند لمحوں میں قیامت صغریٰ میں تبدیل ہوگئی۔ قادر نگر میں شادی کے گھر کو خوشبوؤں اور روشنیوں سے سجایا جا رہا تھا مگر بادل پھٹنے کے بعد اچانک آنے والے سیلابی ریلے نے سب کچھ بہا دیا۔ اس ایک حادثے میں اکیس قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں، جن میں بچے، خواتین اور بزرگ شامل تھے۔ وہ لمحہ نہ صرف اس خاندان کے لیے بلکہ پورے علاقے اور ملک کے لیے ایک کربناک یادگار بن گیا ہے۔
یہ سانحہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ اُس طوفانی بارشوں اور بادل پھٹنے کے سلسلے کا حصہ ہے جو رواں برس خیبر پختونخوا پر قہر بن کر ٹوٹا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق جون کے آخر سے اگست کے وسط تک پورے ملک میں سیلابی ریلوں اور لینڈ سلائیڈز کے باعث 657 افراد جاں بحق جبکہ 929 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ خیبر پختونخوا ہے جہاں 390 اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔
صرف ضلع بونیر کی اگر بات کی جائے تو یہ خطہ قدرتی آفات کے اس حالیہ سلسلے کا سب سے بڑا نشانہ بنا ہے۔ رپورٹس کے مطابق یہاں 207 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ درجنوں ابھی تک لاپتہ ہیں۔ بونیر کے علاقے قادر نگر میں ہونے والی اجتماعی ہلاکتیں تو ایک الگ سانحہ ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی پورے ضلع میں درجنوں خاندان صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ گھروں کی بنیادیں زمین بوس ہو گئیں، کھڑی فصلیں اور باغات بہہ گئے، سینکڑوں مویشی ہلاک ہوئے اور چھوٹے بڑے بازاروں میں پانی بھر جانے سے کروڑوں روپے مالیت کا سامان ضائع ہو گیا۔
ضلع بونیر میں محض ایک گھنٹے کے دوران 150 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، جسے ماہرین "غیر معمولی بادل پھٹنے" کا واقعہ قرار دیتے ہیں۔ پہاڑی ڈھلوانوں سے یکدم اُترنے والے سیلابی ریلے نہ صرف گھروں کو بہا لے گئے بلکہ سڑکیں، پل، اسکول اور ہسپتال بھی تباہی کی نذر ہوگئے۔ متاثرہ گاؤں اور قصبے ایسی صورت حال سے دوچار ہوئے جیسے ان پر بمباری کی گئی ہو۔ مٹی اور پتھروں کے ڈھیر، ٹوٹی سڑکیں، ندی نالوں کی سطح سے اوپر اُٹھا ہوا پانی اور روتے بلکتے متاثرین وہ منظر ہیں جو بونیر کے باسی کئی برس تک فراموش نہیں کر سکیں گے۔
اگرچہ بونیر سب سے زیادہ متاثر ہوا، لیکن اس آفت نے دیگر اضلاع کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں سیلابی ریلوں نے درجنوں افراد کی جان لے لی، درجنوں زخمی ہوئے اور سینکڑوں خاندان بے گھر ہو گئے۔ تجارتی مراکز میں پانی بھرنے سے اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ شانگلہ، دیر، چترال اور مانسہرہ بھی اس آفت کی لپیٹ میں آئے۔ کئی سڑکیں اور پل ٹوٹ جانے کے باعث امدادی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔
سانحہ کے بعد حکومتِ خیبر پختونخوا اور وفاقی ادارے حرکت میں آئے۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، متاثرین کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا اور فوری امداد کی یقین دہانی کرائی۔ صوبائی حکومت نے ریلیف کے لیے ابتدائی طور پر 3 ارب پچاس کروڑ روپے جاری کیے ہیں جبکہ متاثرہ خاندانوں کے لیے خیمے، ادویات، خوراک اور ضروری سامان پہنچانے کا عمل جاری ہے۔ پاک فوج اور ریسکیو ٹیمیں بھی ریلیف آپریشنز میں مصروف ہیں۔ دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں پھنسے ہوئے افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
تاہم اس سب کے باوجود متاثرین کی شکایات ہیں کہ امداد ناکافی ہے، بروقت نہیں پہنچتی اور متاثرہ خاندانوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جو ہمارے اداروں کی کمزوری اور منصوبہ بندی کے فقدان کو نمایاں کرتا ہے۔
بونیر کا یہ سانحہ محض ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ ایک انتباہ ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب کوئی کتابی تصور نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے جس کا اثر ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ غیر معمولی بارشیں، بادل پھٹنے کے واقعات اور اچانک آنے والے سیلاب اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارا خطہ ماحولیاتی خطرات کی زد میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے ماضی کے سانحات سے کیا سبق سیکھا؟ کیا ہماری حکومت اور ادارے آئندہ کے لیے کوئی موثر حکمت عملی اپنائیں گے یا ہر آفت کے بعد محض بیانات اور اعلانات پر ہی اکتفا کریں گے؟
آج جب ہم بونیر کے اس المناک سانحے پر کالم لکھ رہے ہیں، سینکڑوں خاندان اپنے پیاروں کی لاشوں کے پاس بیٹھے آہ و زاری کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ ابھی بھی اپنے لاپتہ رشتے داروں کی تلاش میں ہیں اور کچھ کے لیے پوری زندگی کی محنت چند لمحوں میں ختم ہو گئی ہے۔ شادی کی وہ محفل جو خوشیوں سے سجی تھی آج اجتماعی قبرستان میں بدل گئی ہے۔ یہ منظر ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی کس قدر ناپائیدار ہے اور قدرت کی طاقت کے آگے انسان کس قدر بے بس۔
یہ سانحہ ہمارے لیے محض دکھ اور غم کا پیغام نہیں بلکہ ایک نصیحت بھی ہے کہ ہمیں اپنی پالیسیاں بدلنی ہوں گی، قدرتی وسائل کا تحفظ کرنا ہوگا، جنگلات کو بچانا ہوگا، دریاؤں اور برساتی نالوں کے راستے کھلے رکھنے ہوں گے اور مستقبل کے لیے ایک جامع حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ ورنہ ہر آنے والا سال ہمارے لیے ایک نیا بونیر، ایک نیا سانحہ اور ایک نئی اجتماعی قیامت لے کر آئے گا۔

 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 152 Articles with 90956 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.