ہمارا گھر لاہور پارک ویو سٹی کے ساتھ ہے۔ ہم نے بڑی امیدوں اور خوابوں کے ساتھ 28 اپریل کو نئے گھر میں شفٹ کیا تھا۔ سب کچھ نیا، خوشیوں سے بھرا اور روشن مستقبل کی ضمانت لگ رہا تھا۔ لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ٹھیک 28 اگست کو، یعنی پورے چار ماہ بعد، سیلاب آیا اور وہ خواب جو ابھی ادھورے تھے، سب بہا لے گیا۔ پل بھر میں ہم بے گھر ہو گئے۔
سوسائٹی والوں نے انتظامات مکمل کر رکھے تھے، مشینری بھی موجود تھی اور مالکان تین دن سے موقع پر موجود تھے۔ سب کو یقین تھا کہ یہاں پانی نہیں آئے گا، اسی یقین نے ہمیں بھی گھر چھوڑنے سے روکے رکھا۔
لیکن شام سات بجے اچانک پہلا ریلا آیا اور اعلانات شروع ہو گئے: "جلدی نکلیں، پانی آ گیا ہے!" لوگ بھاگنے لگے۔ امی اور بہن کو محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیا اور وہ بہن کی colleague کے گھر چلی گئیں۔ ابو کو بھی سب نے کہا: "یہاں خطرہ ہے، نکل جائیں!" لیکن ابو کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ بار بار کہہ رہے تھے: "میں اپنا گھر ڈوبتا تو دیکھ لوں…"
اسی دوران میرا بھائی بائیک لینے گھر واپس گیا تو دوسرا ریلا آ گیا۔ پانی پیٹ سے اوپر تک چڑھ گیا۔ لوگوں نے آواز دی: "بائیک چھوڑو، جان بچاؤ!" بھائی بمشکل باہر نکلا اور ابو کے پاس پہنچا۔ دونوں بے بسی سے اپنے گھر کو پانی میں ڈوبتا دیکھ رہے تھے۔
رات کو خواتین تو محفوظ مقام پر پہنچ گئیں لیکن ابو اور بھائی ایک دوست کے گھر گئے۔ بدقسمتی سے رات دو بجے وہاں بھی پانی بھر گیا اور انہیں سڑک پر پناہ لینا پڑی۔ پوری رات کھلے آسمان تلے، ٹھنڈی ہوا اور خوفناک منظر کے بیچ وہ جاگتے رہے۔
صبح کا منظر قیامت سے کم نہ تھا۔ پورا گھر پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ نہ کھانے پینے کا سامان بچا، نہ کپڑے، نہ ہی کوئی اور چیز۔ وہ گھر جسے ہم نے صرف چار ماہ پہلے بڑے مان اور محبت سے بسایا تھا، لمحوں میں اجڑ گیا۔ ہم صرف خالی ہاتھ کھلے آسمان کے نیچے رہ گئے۔ یہ صرف ایک خاندان کی کہانی ہے۔ آج پورا پاکستان ایسی ہزاروں لاکھوں کہانیوں سے بھرا ہوا ہے۔ اللہ ہم سب پر اپنا کرم کرے۔ 🤲
|