جب دیواریں کمزور ہوجائیں ، چھت میں سوراخ تو اس کے
مکینوں کا پریشان ہونا قدرتی عمل ہے۔ ہر مکین محفوظ سائے باں کی تلاش میں
شروع کردیتا ہے اس ڈر و خوف سے کہیں مکان کی چھت اور دیواریں زمین بوس نہ
ہوجائیں اور انہیں کھلے آسماں کے نیچے رہنا پڑ جائے کیونکہ وہ تو عالی شان
محل میں رہنے کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں، انہیں کیا معلوم کے گرمیوں میں گرم ،
سردیوں میں سرد کمروں میں کیسے زندگی بسر کی جاتی ہے، بارشوں میں برسات کا
پانی چھت کے سوراخوں سے کیسے مکینوں کو سرد کردیتا ہے، کھلے آسمان کے نیچے
اور فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے والوں کا دکھ اور تکلیف کیا ہوتی ہے۔ سیاسی
جماعتوں کی حیثیت ایک عالی شان محل کی سی ہوتی ہے۔ خاص کر وہ جماعت جو
برسرِ اقتدار ہو، وزارت ، سفارت، جھنڈے والی گاڑیوں کا استعمال کرنے والوں
کو جب کھلے آسمان تلے آجانے کی صورت دکھائی دینے لگتی ہے تو وہ متبادل سائے
باں کی تلاش شروع کردیتے ہیں۔تاکہ بے سروسامانی کی صورت آن پہنچے اس پہلے
ہی کسی دوسری مضبوط چھت تلے چلے جائیں۔
نون لیگ جو گزشتہ 30سالوں کسی نہ کسی طور اقتدار میں چلی آرہی ہے۔ صوبہ
پنجاب کی حکومت میں وز ارت سے اقتدار کا آغاز ہوا تھا جنرل ضیاء الحق کے
دورمیں ، اس کے بعد پنجاب کی حکومت ، پھر مرکزی حکومت میں اقتدار ۔ تیسری
بار وزیر اعظم کا منصب عطا ہوا ،مگر کیا کیا جائے نہ پہلا ، نہ دوسرا اور
نہ ہی تیسرے دور کی تکمیل نصیب ہوئی۔ میاں صاحب تیسری باری کے چار سال پورے
کر سکے اور عدالت اعظمیٰ نے انہیں نا اہل قرار دے دیا۔ حکومت بہر طور انہیں
کے اختیار میں رہی، حکمرانی کاسکہ انہیں کا چلتا ہے، پنجاب کی حکومت پر بھی
تلوار لٹک رہی ہے، ویسے بھی انتخابات قریب ہی ہیں۔ مشکلات میں اضافہ ہی
ہوتا جارہا ہے ، میاں شریف کا پورا خاند ن میاں صاحب ،بیٹے، بیٹی، داماد سب
عداالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ عدالت میں می لارڈ اور عدالت سے باہر نکلتے
ہی اپنے انتخابی نشان شیر کی طرح دھاڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ میاں صاحب سے
زیادہ ان کے درباری واویلا کر کر کے تھک چکے ہیں ، بظاہر نااہلی کو اہلیت
میں تبدیل ہونے کی کوئی امید ، کوئی آس، کوئی توقع دور دور نظر نہیں آرہی۔
اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کے اکثرنون لیگی میاں صاحب کی پالیسیوں سے
اختلاف رکھتے ہیں، اب میں سے بعض واضح طور پر مخالفت کر چکے، کچھ ڈرو خوف
کے مارے خامو ش ہوکر بیٹھ رہے، کچھ گو مگو کی کیفیت میں ہیں کریں تو کیا
کریں۔ نہ مخالفت نہ حمایت۔ ان میں میاں صاحب کی قربت رکھنے والے ساتھی
جنہیں میاں صاحب ہر دور میں اہم وزارت سونپتے رہے ہیں موجودہ حکومت کے
خاتمے پر وہ وزیر داخلہ کے منصب پر فائز تھے یعنی چوہدری نثار خان صاحب،
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں، میاں صاحب سے مہینوں ملاقات نہیں
کی لیکن وزارت نہ چھوڑی اور نہ ہی نکالے گئے۔ میاں صاحب کے قریبی ساتھیوں
سے بات چیت نہیں پر وزارت برقرار، نون لیگ کے اجلاسوں میں غیر حاضر لیکن
وزارت قائم و دائم۔ وہ از خود کچھ کہیں یا نہ کہیں ان کا عمل بتا رہا ہے کہ
انہیں میاں صاحب کی حکمت عملی سے اتفاق نہیں ، وہ اداروں سے ٹکراؤ کے حامی
نہیں، وہ طاقت ور ادارے کو نشانہ بنانے کے حق میں قطعناً نہیں۔ وہ اس بات
کے بھی مخالف ہیں جس طرح بعض نون لیگی وزیر میڈیا پر شاہ سے زیادہ شاہ کے
وفادار ہونے کا کردار ادا کررہے ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود میاں صاحب نے
اپنی زبان سے کبھی جب اہل تھے اس وقت بھی اور جب سے نا اہل ہوئے چودہدری
نثار کی پالیسی پر ایک لفظ نہیں کہا۔ وہ خاموشی سے اپنے اس وفادار کی کڑوی
کسیلی پالیسی کو صبر سے دوسرے معنوں میں کڑوی گھونٹ پی رہے ہیں اور خاموشی
اختیار کیے ہوئے ہیں۔ لیکن آخر برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ یاتو ہاں
کرو یا نا، یہ کیا کہ میرا لیڈر تو نواز ہے، اگر نواز ہے تو کرو اس کی تمام
تر صحیح اور غلط باتوں کی حمایت جیسے دیگر درباری کر رہے ہیں اگر اختلاف ہے
تو کھل کر تنقید کر و ، ساتھ رہو یا نکل جاؤ ، یہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے
آتے بھی نہیں والی کیفیت زیادہ عرصہ نہیں چلنا تھی اور نہیں چلی آخرکار
نواز شریف کے بہت وفادار، عقیدت مند ، یہاں تک کہ ایک موقع پر نواز شریف نے
کان پکڑ کر آوٹ کر دیا ، قربانی دیدی پھر بھی وہ وفادار سر جھکائے کھڑا
رہا۔ یہ وفا دار ہے پرویز رشید۔
پرویز رشید میاں صاحب کے اس قدر وفا دار ہیں کہ اب ان کی برداشت نے جواب دے
دیا، وہ چوہدری نثار کے خلاف پھٹ پڑے ۔ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ پارٹی
چوہدری نثار علی خان کو نکال دے، کہا کہ میرا ووٹ ان کے خلاف ہوگا، کہتے
ہیں کہ انہوں نے پارٹی پالیسی کے خلاف گمراہ کن بیانات دیے، ڈان لیکس پر
وزارت سے ہاتھ دھو ئے جانے اور کیبنٹ سے نکالے جانے پر انہوں نے چوہدری
نثارعلی خان پر الزام لگا یا کہ وہ ڈان لیکس کے معاملے پر کسی کی خوشنودی
کے لیے مجھے پارٹی سے نکالنا چاہتے تھے۔اچھا تو یہ معاملا تھا کہ پرویز
رشید کو چوہدری صاحب نے کسی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نکلوایا، بظاہر
خوشنودی تو میاں صاحب کی تھی تب ہی تو وزارت داخلہ کی کرسی کو جنبش تک نہیں
ہوئی۔ اب نہیں معلوم پرویز رشید کی بلی تھیلے سے باہر کیسے نکل آئی، انہوں
نے الزام عائد کیا کہ چوہدری نثارانہیں یعنی (پرویز رشید کو )نکال کر فوج
کے ایک گروہ کو خوش کرنا چاہتے تھے۔ الفاظ صاف ، جملہ واضح، کوئی لگی لپٹی
نہیں صاف صاف کہہ ڈالا۔ پھر فرمایا کہ اگر وہ (چوہدری نثار) اتنے ہی با
اصول آدمی ہیں تو پارٹی کی جان چھوڑ دیں۔کہتے ہیں کہ پارٹی چوہدری نثار کے
بارے میں فیصلہ کرے میرا ووٹ انھیں نکالنے کے حق میں ہوگا۔ پرویز رشید نے
اپنے انٹر ویو میں وضاحت کی کہ میں ادارے کی بات نہیں کررہا بلکہ فوج کا
ایک گروہ تھا جس کی خوشنودی انہوں نے میری برطرفی سے حاصل کی۔ اور میاں
نواز شریف اتنے بھولے بادشاہ تھے کہ انہوں نے پرویز رشید کو پہلی فرصت میں
قربان بھی کردیا۔ پرویز رشید کو میاں صاحب سے بھی جواب طلب کرنا چاہیے کہ
انہوں نے اس گروہ کی خوشنودی کو کیوں یقینی بنا یا۔ پرویز رشید کا فرمانا
یہ بھی ہے کہ چوہدری نثار کو پارٹی میں نہیں ہونا چاہیے اور قیادت کو اس کا
فیصلہ کرنا چاہیے۔پرویز رشید اپنی اس انٹر ویو میں نواز شریف کے اسپوکس مین
بنتے بھی دکھائی دیے ، فرمایا کہ نوازشریف زینب کے قتل کے بعد اس کے والد
کے پاس اس وجہ سے نہیں گئے کہ ان کا گھر جانا اس ایشو پر سیاست ہوناہوتا۔
اسی طرح کے بہت سے الزام پرویز رشید نے چوہدری نثار پر لگائے۔ ابھی تک
خواجہ آصف اور چوہدری نثار آمنے سامنے تھے اب ایک اور نوازیہ چودھری نثار
کے سامنے کھلم کھلا آگیا، دو کا مطلب ہوتا ہے گیارہ۔ چوہدری نثار کواب سمجھ
لینا چاہیے کہ نون لیگ میں ان کے خلاف 11مخالفین ہی نہیں بلکہ اور بھی ہیں،
کسی تجزیہ کار کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بیان پرویز رشید سے دلوایا گیا
ہے، یہ سب کچھ در اصل میاں صاحب کے اندر کی آواز ہے جو انہوں نے پرویز رشید
کے ذریعہ کہلاوائی ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی ، یہ تو پرویز رشید کا شکوہ
تھا ، اگلے ہی روز جوابِ شکوہ بھی سامنے آیا۔ وہ کچھ اس طرح سے ہے۔
چوہدری نثار علی خان کا جواب شکوہ برائے راست نہیں آیا بلکہ چوہدری صاحب نے
اپنے ترجمان کے توسط سے پرویز رشید کی گولاباری کا جواب مارٹر گولوں سے
دیا، گویا سیر کو سوا سیر والی صورت ہے۔ڈان لیکس رپورٹ عام کرنے کا مطالبہ
کیا گیا، کہ گیا، تعجب ہے کونسلر تک کا الیکشن نہ لڑنے والا اور بیشتر
زندگی دوسری پارٹی میں گزارنے والا نون لیگ کا خود ساختہ پردھان منتری بن
بیٹھا، ستم ظریفی ہے کہ فوج کے بارے میں مودی جیسی سوچ رکھنے ولا پاکستان
کی خالق جماعت کا سیاسی وارث بنا ہوا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ کسی ایسے
شخص کی مضحکہ خیز باتوں کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتے جس کا خود مسلم لیگ
(ن) سے تعلق واجبی ہے ۔ ترجمان نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ نون لیگ کے صدر نواز
شریف اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی خود ڈان لیکس کی رپورٹ منظر عام پر
لانے کے احکامات جاری کردیں تاکہ بیان دینے والے شخص کے کرتوت سب کے علم
میں آجائیں۔ یہ ہے گھر کا بھیدی، ڈان لیکس کی رپورٹ وزیر داخلہ کی حیثیت سے
چوہدری نثار علی خان نے ضرور دیکھی ہوگی، ان کے علم میں کچھ ہوگا تب ہی تو
انہوں نے اسے عام کرنے کی بات کی۔ اسے کہتے ہیں سیاست اور گندی سیاست، یہ
ہے مفاد کی سیاست اور یہ سب کچھ گولا باری کیوں ہورہی ہے اس کی وجہ صرف
میاں نواز شریف ہیں۔ انہیں صرف وہ لوگ اچھے لگتے تھے اور اب بھی وہی لوگ
پسند ہیں جو ان کے مفاد کا تحفظ کریں، ان کے قصیدے پڑھیں ۔ وقت گواہ ہے کہ
میاں صاحب نے ہر اُس شخص کو نوازا جو ان کا وفادار رہا ہو، ان کے قصیدے
گاتا رہا ہو، ان کی خاطر اپنی تذلیل، بے آبروئی، رسوائی کرواتا رہا ہو۔
مثالیں بے شمار ہیں ، میاں صاحب کو اپنے تیسرے دور میں کوئی ایسا شخص نہیں
ملا جو وزارت خارجہ کے فرائض انجام دے سکتا، انہیں اپنے سمدھی کا متبادل آج
تک نہ مل سکا، اس لیے کہ ان کے ہاں وفادار ہونا شرط ہے قابلیت ، اہلیت اور
میرٹ کی کوئی حیثیت نہیں ۔ جس کا نتیجہ انہوں نے خود بھی بھگتا اور قوم نے
بھی بھگتا ، وزیر خزانہ کی قابلیت اور ھنر مندی دیکھئے کہ آ ج پاکستان کا
ہر شہری ایک لاکھ روپے کا مقروض ہے،ماضی میں ماہرِ معاشیات جو اس وقت لندن
میں زیر علاج ہے، چھٹی پر بھی ہے، پر وزارت خزانہ آج بھی اسی کے پاس ہے ،
یہ بھی اسی ماہر کاکارنامہ ہے پاکستان حکومت نے قرضوں کی قسط دینے کے لیے
قرض لیا ۔ کشکول قوم کے ہاتھ میں دھمادیا ۔ یہ ہے اس کی مہارت ۔ خیر بات
نون لیگ کے دو سابق وزیروں کی تھی ، دونوں ہی اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے
زمانے میں میاں صاحب کی قربت میں رہے ہیں، آج یہ باہم دست وگریباں ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں یہ کوئی اہم بات نہیں ابھی تو اور بھی کچھ ہونا ہے،
کہتے ہیں کہ جوتوں میں دال بٹے گی۔ کوئی ادھر جائے گا کوئی ادھر۔ تماشہ خوب
ہوگا کہ دنیا دیکھے گی۔(19جنوری2018) |