اتحاد کا مطلب اور اس کے لیے عملی مظاہرہ !

ڈاکٹرابن شفیع برکاتی
لفظ اتحاد ایک مذا ق سا بن گیا ہے اور اس کے متعلق ’اقوال ‘ تو ملتے ہیں تاہم ’افعال‘ کا کچھ معلوم نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اتحاد کا نعرہ بلند کرنے والے قدم قدم پر ملیں گے ، تاہم اس کا عملی مظاہرہ کرنے والے خال خال ہی ۔اسی طرح اتحاد کا اصل مفہوم بھی اب گڈمڈ ہوگیا ہے ۔ اتحاد کا مطلب شاید آج یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ جو مجھے اچھا لگے ، وہی میرے سامنے والے کو بھی اچھا لگے یا پھر اتحاد کے عملی مظاہرے میں ایک آدمی کی رائے سے ہر آدمی متفق ہوجائے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اتحاد وسیع معنی پر محیط ہے۔ اتحاد کا مفہوم انتشا ر او ر افتراق سے بچنا ہے ۔ ایک ایسی فضا کو تقویت پہنچنانے سے پچنا ہے ، جو عوام الناس کے لیے مضرہو ۔

اگر اتحاد کے پس منظر میں اپنے قائدین اور خاص طور سے سیاسی لیڈران کی بات کریں تو بڑی مایوسی ہاتھ آسکتی ہے ۔ ٹرپل طلاق بل پر پارلیمینٹ میں ہونے والے ہنگاموں میں سیاسی لیڈروں نے جو ثبوت دیا ہے ، وہ سراسر انتشار اور افتراق پر مبنی ہے ۔ کیوں کہ وہ بھی اس معاملہ میں اتحاد کا مظاہرہ کرسکتے تھے ۔ مختلف پارٹیوں میں رہتے ہوئے ایک اصولی مسئلہ اور مسلم پرسنل میں بے جا مداخلت پر بات چیت کرسکتے تھے ، مگر دور دور تک کہیں بھی اتحاد کی مثال نہیں ملی ، بلکہ افتراق کو ہوا دینے کی کوشش در کوشش کی گئی ۔ یہی وجہ تھی کہ ہر اس قدم کو بھی مجروح اور مطعون کرنے کی کوشش کی گئی ، جو ایک مناسب وقت میں اٹھایا گیا قدم تھا ۔ یہاں پر ہم مولانا اسرارالحق قاسمی کی مثال پیش کرسکتے ہیں کہ انھوں نے مناسب وقت میں جو قدم اٹھا یا تھا ، اسے تقویت پہنچانے کی ضرورت تھی ، تاکہ راجیہ سبھا میں ٹرپل طلاق بل کو رکوانے والے بھی اپنے آپ کو مضبوط سمجھ سکیں ۔ انھیں لگے کہ مسلم پرسنل لا میں مداخلت کے وقت ہم نے حکومت کے خلاف آواز بلند کی تو مسلمانوں کو کم ا ز کم شکرگزار ہونا چاہیے تھا ، مگر انھوں نے ایک ہنگامہ شروع کردیا ۔ مولانا اسرارالحق قاسمی نے پارلیمنٹ نہ پہنچ پانے کی جو وجہ بیان کیا تھا ، اسے بھی سمجھنے کی ضرورت تھی ۔ ہوسکتاہے کہ وہ واقعی پہنچنے میں تاخیر ہوگئے ہوں یا کوئی ایسی مصلحت تھی ، جو لو گ بآسانی سے نہیں سمجھ سکتے ہیں ۔ اس لیے گویا ایسے موقع پر بیک زبان اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا ، تاکہ اپوزیشن پارٹیاں بھی اپنے فیصلے کے تئیں خوشی کا احساس کرتیں ،اور ان اپوزیشن پارٹیوں کو ہم زبان بنانے کے لیے عملی کوشش کرنے والے بھی خوش ہوتے ۔

عملی اتحادکے ضمن میں مولانا اسرارالحق قاسمی (ایم پی)کی مثال پیش کرسکتے ہیں ۔ کیوں کہ وہ متحدہ کردار کی وجہ سے نہ صرف اپنے حلقہ میں بلکہ ملکی سطح پر مستحسن نظر سے دیکھے جاتے ہیں ۔ اعداد وشمار کے تناظر میں کشن گنج ضلع کی بات کریں تو معلوم ہوگا کہ 78فیصد وہاں مسلم آباد ی ہے ۔ ظاہر ہے ، اس حلقہ میں مختلف مکتبہ فکر کے مسلمان رہتے ہیں ۔ دیوبندی اور بریلوی 60-40کے تناسب سے آباد ہیں ۔ کشن گنج کے اسمبلی حلقوں کی بات کریں تو کوچہ دھامن ، ٹھاکر گنج ، بہاد رگنج اور کشن گنج ساتھ ہی ساتھ پورنیہ کے اسمبلی حلقے (جو کشن گنج پارلیمانی حلقہ میں آتے ہیں )امور اور بائیسی کو بھی جوڑ لیں تو یہاں دیوبندی اور بریلوی مسلمانوں کی تعداد کافی ہیں ۔ ظاہر ہے ایسے ماحول میں وہی فرد کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے ، جو متحدہ کوشش کی مثال ہو ۔ مولانا اسرارالحق قاسمی نے یہاں جو کردار پیش کیا وہ مثالی ہے اور مشعل راہ بھی ہے ۔ مولانا قاسمی کو متحدہ کردار کی وجہ سے ہی دوبار مسلسل کامیابی حاصل ہوئی ۔ پہلی دفعہ تقریباً85لاکھ اور پچھلے پارلیمانی الیکشن میں 1لاکھ ، 94ہزار602 ووٹ کی تاریخ ساز جیت سے ہم کنار ہوئے ۔ اس اعداد وشمار کے پس منظر میں کہا جاسکتا ہے کہ مولانا اسرارالحق قاسمی سیمانچل خاص طور سے کشن گنج میں اپنے قائدانہ اور متحدہ کردار کی وجہ سے کامیاب ہوئے ہیں ۔ اسی طرح انھوں نے ترقیاتی کاموں میں بھی اپنے حلقے پر مکمل طور پر یکساں توجہ دی ہے ۔ میراتجزیہ اور آنکھوں دیکھا حال یہ ہے کہ مولانا نہ صرف اپنے ٹرم میں سیاسی اعتبار سے یہاں کے عوام کو تقویت پہنچا رہے ہیں ، بلکہ اپنے پیچھے بھی ایسے افراد تیار کررہے ہیں، جو سیاسی اعتبار سے اس علاقہ کو مزید مستحکم کریں گے ۔ ان کے اس کردار میں بھی متحدہ کرشمہ سازی نظر آتی ہے ۔ وہ اس طرح کہ مولانا نے اپنے حلقے میں بہت سے ایسے عالموں کو سیاسی اعتبار سے مضبوط کردیا ہے ، جو دینی اور سماجی سمجھ رکھتے ہوئے آج بھی حلقہ کی فلاح کے لیے کام کرررہے ہیں ۔ سیاسی اعتبار سے سمجھ بوجھ رکھنے والوں میں ہر مکتبہ فکر کے عالم موجود ہیں ۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ مولانا اسرارالحق قاسمی نے ہر جگہ اتحاد کا مظاہر ہ کیا ہے ، وہ بھی عملی مظاہرہ ۔یہی وجہ ہے کہ عوامی مقبولیت سے مالا مال ہیں اور وہاں کے عوام کو اپنے قائد پر اعتماد بحال ہے ۔ عوام کا اعتماد بحال کرنا بڑی جد وجہد کا کام ہے۔

اس مختصر تجزیاتی مضمون میں کہنے کا دراصل مقصد یہ ہے کہ جس طرح مولا نا اسرارالحق قاسمی نے عملی اتحاد کا مظاہر ہ کیا ہے ، اسی طرح اور بھی سیاستدانوں اور ملی قائدین کوکرنا چاہیے ، تاکہ ہم ملی مفاد میں پارٹی لیبل سے ذرا اوپر اٹھ کر کسی بھی معاملہ میں فیصلہ لے سکیں ۔ مولانا اپنے حلقے میں ہر مسلک کے ماننے والوں کے درمیان مقبول ہیں ، اسی طرح مسلم قائدین کو مسلمانوں کے درمیان یکساں گرفت رکھنا چاہیے ، تاکہ سیاسی اعتبارسے بھی ہماری کوئی حیثیت رہ سکے ۔ اتحاد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارے درمیان کوئی اختلاف ہوہی نہیں ، بلکہ اختلافات کو مفادات کے لیے استعمال نہ کریں ، بلکہ حسب حال ایسے فیصلے اور قدم اٹھائیں جو لوگوں کے لیے مفید ہوں ۔ کشن گنج اور سیمانچل میں ، جہاں اتحاد کی مثال قائم کرنے میں مولانا اسرارالحق قاسمی نے اہم کردارادا کیا ، وہیں کچھ لوگ مسلک کو فروغ دے کر کچھ الگ کرنا چاہتے ہیں ۔ لوگوں کی طاقت کو کمزور کررہے ہیں ، ایسے لوگوں پر جہاں عوام کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ، وہیں لیڈران کو بھی متحدہ کوشش کو مجروح نہیں کرنا چاہیے ۔ کیوں کہ ملک کے موجودہ سیاسی منظرنامہ میں مسلکیت سے کہیں زیادہ حالات کو سازگار بنا نا بہتر ہے ۔ امید ہے کہ اتحاد کا عملی مظاہر ہ کریں گے اور اتحاد کا عملی مظاہرہ کرنے والوں کو تقویت پہنچائیں گے ، جو کہ آج کا تقاضہ ہے ۔ ایک جمہوری ملک میں وقت کے تقاضے کو سمجھے بغیر کوئی مثالی کردار ادا کرنا مشکل ہے ۔

Parwaz Alam
About the Author: Parwaz Alam Read More Articles by Parwaz Alam: 3 Articles with 2115 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.