عدلیہ کا تقدس تو ضروری لیکن منصف پر اعتماد کیوں نہیں؟

عدلیہ کا تقدس اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ اسلام میں عدل و انصاف کی ایسی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ انسان فیصلہ کرنے والے اس جج، قاضی، منصف کے فیصلہ پر کہہ اٹھتا ہے کہ واہ کیا خوب فیصلہ فرمایا۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ کا دور خلافت ہو کہ عمربن عبدالعزیز کا ۔ انصاف کی سب سے بڑی مثال تو پیارے حبیب صلی اﷲ علیہ و سلم کے فیصلوں نے دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کے جانثار صحابہ کرام ہو کہ امت کے عظیم الشان انصاف کرنے والے قاضی، منصف، ججس۔ انہوں نے نہ کبھی حکمرانوں کی پرواہ کی اور نہ ہی کسی لالچ کے لئے انصاف کے تقاضوں کو ملیامیٹ کیا۔ آج بھی عدلیہ کا تقدس اپنی جگہ برقرار ہے لیکن ججس پر بھروسہ اٹھتا جارہا ہے کہیں کسی جج کا متعصب رویہ فیصلہ کے ذریعہ محسوس کیا جاتاہے تو کہیں حرص و طمع کی عوض جج اپنی اس عظیم الشان پیشہ سے روگردانی کرتے ہوئے فیصلہ سنادیتے ہیں۔ جس کی مثالیں کئی مرتبہ منظر عام پر آچکی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اگر جج کے سامنے سیکوریٹی عہدیدار، پولیس یا کوئی اورجھوٹے شواہد پیش کرتے ہوئے انہیں قائل کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور جج ان شواہد کو سچ مان کر فیصلہ کردیتے ہیں تو اس کے ذمہ دار ان جھوٹے شوائد پیش کرنے والوں کے ذمہ ہوگا۔ اس طرح کے واقعات کئی مرتبہ ہم نے ہندوستان میں بھی دیکھے ہیں کہ کئی کیسس میں بے قصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے نام پر گرفتار کرکے مقدمات چلائے گئے لیکن انصاف کی اس کرسی پر بیٹھے ہوئے ججس نے پوری دیانت داری اور انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر فیصلے سنائے اور ان بے قصور نوجوانوں کی رہائی عمل میں آئی۔ بعض ایسے بھی واقعات جہاں ججس نے انصاف کے تقاضوں کو پورانہیں کیا جس کی زندہ مثال بابری مسجد کے مقدمہ کا فیصلہ ہے۔ گذشتہ چند ہفتے قبل بھی ہندوستانی سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین ججس نے پہلی مرتبہ پریس کانفرنس کرکے چیف جسٹس آف انڈیا کے کام کرنے پر انگلی اٹھائی ہے اور جمہوریت کیلئے خطرہ کا پیغام دیا ہے ،جس کا مشاہدہ ہندوستانی عوام ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر کیا گیا۔ گذشتہ سال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 7مسلم ممالک پر امریکہ آنے پرپابندی عائد کرنے کے فیصلہ کے خلاف امریکی عدالتوں کے ججس نے جس طرح صدارتی حکمنامہ کے خلاف فیصلہ دیا یہ بھی انصاف کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ خیر سپریم کورٹ ہو کہ سب سے نچلی سطح کی عدالت۔ ہر ایک جگہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا جج کا فرض ہے اور ان کے سچے فیصلوں سے آج دنیا عدلیہ پر بھروسہ کی ہوئی ہے یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی کوئی ایسا جج اس انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر ظالم کی مدد کرتاہے جس کی وجہ سے عدلیہ کے تقدس پر حرف آنے لگتا ہے۔ ان دنوں مالدیپ میں سیاسی اتھل پتھل چل رہی ہے ۔ مالدیپ کی پولیس نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبداﷲ سعید اور ایک جج علی حمید کو تفتیش کے لئے 6؍ فبروری کو حراست میں لے لیا گیاہے ۔ ان دونوں ججس کو حراست میں لینے سے قبل ہی مالدیپ کی حزب اختلاف کی جماعت مالدیپیئن ڈیموکریمک پارٹی کے ایک ترجمان حامد عبدالغفور نے دونوں اعلیٰ ججس یعنی چیف جسٹس اور دوسرے اعلیٰ جج کو رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کرنے کا اشارہ دیا تھا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق مالدیپ کے صدر عبداﷲ یامین کی صدارت کو 2؍ فبروری کو اس وقت شدید جھٹکہ لگا جب ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے فیصلہ سنایا کہ جلاوطن سابق صدر محمد ناشید کا ٹرائل غیر آئینی ہے اور ساتھ ہی عدالت نے زیر حراست نو ممبران پارلیمان کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا ان نو ارکان پارلیمنٹ کی واپسی کے بعد حزب اختلاف کو پارلیمنٹمیں ایک بار پھر اکثریت حاصل ہوجاتی۔ صدر یامین نے عدالیہ کے اس فیصلہ کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کئی سرکاری افسران کو ملازمت سے برخواست کردیااورپارلیمنٹ کو تحلیل کردیا تھا اور پندرہ روز کے لئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی تھی ۔ حکومت کوڈر تھا کہ صدر عبداﷲ یامین کو اقتدار سے محروم کرنے کا عدلیہ فیصلہ دے سکتی ہے اسی لئے اٹارنی جنرل انیل نے 4؍ فبروری کو ایک پریس کانفرنس کی جس میں وزارتِ دفاع کے سربراہ جنرل شیام اور پولیس کمشنر عبداﷲ نواز شریک تھے اس موقع پر اٹارنی جنرل کو یقین تھا کہ سپریم کورٹ یہ فیصلہ دینے کی کوشش کرسکتی ہے کہ صدر اقتدار میں مزید نہیں رہ سکتے ۔ ان کے مطابق ’’ہمیں معلومات ملی ہیں کہ یہ چیزیں رونما ہوسکتی ہیں جس کے نتیجے میں سلامتی کا قومی بحران پیدا ہوسکتاہے ، سپریم کورٹ کا صدر کو گرفتار کرنیکا حکم غیر آئینی اور غیر قانونی ہوسکتا ہے۔ اسی لئے انہوں نے پولیس اور فوج سے کہا کہ کسی بھی غیر آئینی حکمنامے پر عمل درآمد نہ کیا جائے‘۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹی وی پر براہ راست دکھائی جانے والی تقریب میں فوج اور پولیس کے اعلیٰ اہلکاروں کو حکومت کے دفاع میں اپنی جانیں دینے کا حلف اٹھاتے ہوئے دکھایا گیا۔ایمرجنسی کے دوران سیکوریٹی حکام کو کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت حراست میں لینے کا اختیار دے دیا گیا ہے اس طرح مالدیپ حکومت نے پوری تیاری سے صدر عبداﷲ یامین کے اقتدار پر فائز رکھنے کے انتظامات کرلئے ہیں۔ سابق صدر محمد ناشید اس وقت سری لنکا میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں انہوں نے حکومت کی جانب سے عدلیہ کے احکامات کو ماننے سے انکار کو بغاوت کے مترادف قرار دیا ہے اور کہاکہ حکومت عدلیہ کے اختیارات غصب کرنے کی کوشش کررہی ہے۔انہو ں نے صدر عبداﷲ یامین اور حکومت سے فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے سیکیوریٹی فورسز پر زور دیا ہے کہ وہ آئین کی پاسداری کریں۔سابق صدر نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں ہندوستانی حکومت سے درخواست کی ہیکہ وہ ملک میں جاری سیاسی اور آئینی بحران کے حل کیلئے ایک مندوب بھیجیں جس کو ہندوستانی فوج کی پشت پناہی حاصل ہو اسی طرح انہوں نے امریکہ سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ مالدیپ کی حکومت کے ساتھ کوئی لین دین نہ کرے۔واضح رہے کہ مالدیپ میں 2015سے سیاسی بحران جاری ہے جب ملک کے پہلے جمہوری صدر محمد ناشید کو اس وقت ملک کے انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت سزا سنائی گئی جب انہوں نے ایک جج کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان ہی کے کیس میں جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ جمعہ کو عدالت نے نو ارکان پارلیمنٹ کی فوری رہائی اور سابق صدر سمیت حزب اختلاف کے دیگر رہنماؤں کا ازسر نو ٹرائل کا حکم دیا تھا جس کے خلاف صدر عبداﷲ یامین نے چیف جسٹس کو ہی انصاف کی کرسی سے ہٹاکر قید خانے کے حوالے کردیا۔ اب دیکھنا ہیکہ مالدیپ کے عوام حکومت پر ایقان رکھتے ہیں یا عدلیہ پر۔ آخر ان دونوں میں یعنی صدر عبداﷲ یامین حق پر ہیں یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبداﷲ سعید۔ اس بات کا فیصلہ تومالدیپ کے عوام ہی بہتر کرسکتے ہیں اب دیکھنا ہیکہ عوام ڈرو خوف کے سایہ میں خاموشی اختیار کرتے ہیں یا حق بات کہنے کے لئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۰۰۰

دنیا کے امیر ترین سعودی شہزادہ کا مشورہ
سعودی عرب میں انسداد رشوت ستانی کے تحت گرفتار کئے گئے شہزادوں اور اعلیٰ افسروں میں سے بہت ساری رہائی پاچکے ہیں ان ہی میں امیر ترین سعودی شہزادہ ولید بن طلال بھی ہیں جن کی گرفتار کے بعد دنیا بھر میں حیرت کا ماحول بن گیا تھا کیونکہ ولید بن طلال کوئی معمولی شخصیت نہیں بلکہ ان کی رقم دنیا کے بڑے بڑے کمپنیوں اور اداروں میں لگی ہوئی ہے دنیا کے اس امیر ترین شخص کی نجی زندگی اس وقت منظر پر عام پر آئی جب وہ فائیو اسٹار ہوٹل سے رہا ہوئے ۔ انہوں نے ذرائع ابلاع کو بتایا کہ وہ ہفتے میں دو دن روزہ ضرور رکھتے ہیں انہوں نے کہا کہ اﷲ کی قربت کیلئے دوسروں کو بھی ہفتے میں دو دن روزہ رکھنا چاہیے،انہوں نے کہا کہ کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ولیعہد محمد بن سلمان کی تمام پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں۔سعودی عرب کے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے سبزیاں بہت پسندہیں اور آپ بھی سبزیاں کھایا کر واور ہفتے میں دو دن روزہ رکھا کرو۔شہزادہ ولید بن طلال نے اپنی زندگی کے انتہائی اہم پہلو سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ میں ایک لمبے عرصے سے ہفتے میں پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتا ہوں اور اﷲ کی قربت کیلئے دوسروں کو بھی ہفتے میں دو دن روزہ رکھنا چاہیے۔شہزادہ ولید بن طلال نے واضح کیا ہے کہ حکومت کے ساتھ انکے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ وہ ولی عہد کی تمام پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم سب وطن عزیز، بادشاہ اور ولی عہد کے تابع دار ہیں۔ اس میں کسی کو کسی طرح کا کوئی شک نہیں ہوناچاہیے۔ولید بن طلال ہو کہ دیگر سعودی شہزادے ۔ ان تمام کو ملک میں عزت کی گزارنے کے لئے ضروری ہیکہ وہ شاہ سلمان اور ولیعہد کے فیصلوں کو من و عن قبول کریں اور ان کا ساتھ دیتے ہوئے سکون و راحت کی زندگی گزارسکتے ہیں ورنہ سعودی عرب میں رہنا انکے لئے مشکل ہوجائے گا۔

رجب طیب اردغان پوپ فرانسس کے مابین ملاقات
ترکی صدر رجب طیّب اردغان نے5؍ فبروری کو عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس سے ویٹیکن اٹلی میں ملاقات کی ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ ملاقات بند کمرے میں ایک گھنٹے سے زائد عرصے تک جاری رہی۔ ویٹیکن میں ترک صدر اور ان کی اہلیہ کا استقبال سان داماسو گیٹ پر گورنر لاڈ پادری جیوج گینسوین نے کیا۔ سرکاری استقبالیہ کے بعد صدر اردغان کی پاپ سے بالمشافہ ملاقات تھی واضح رہے کہ 59سال کے بعد کسی ترکی رہنما نے ویٹیکن کا دورہ کیا۔ بعدازاں میڈیا نمائندگان سے بات چیت کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردغان نے پوپ کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا،ملاقات میں عالمی امور اور خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ سمجھا جارہا ہے کہ خصوصی طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور یہاں پر امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے منتقل کا مسئلہ زیر بحث ہوسکتاہے اسی طرح فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم ہیں۔ ترکی کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا کہ پوپ فرانسس اور طیب رجب اردغان کے درمیان شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے بے آسرا ہونے والے پناہ گزینوں کا مسئلہ ، ترکی اور ویٹیکن کے درمیان بہتر تعلقات ، دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے مؤثر کارروائی اور اسلامفوپیا پر تبادلہ خیال کیا گیا۔دونوں قائدین نے عالمی سطح پر امن و سلامتی کے لئے بات چیت کی اور آخر میں ترکی صدر کو پوپ فرانسس کی جانب سے تحفہ دیا گیا ۔ ترکی اور ویٹیکن کے درمیان جون 2016میں تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے اور دونوں ایک دوسرے پر الزامات عائد کئے تھے اب دیکھنا ہیکہ ان دونوں قائدین کے درمیان ملاقات کس نتیجہ پر پہنچتی ہے۔

کینسر فلسطین میں اموات کا دوسرا بڑا سبب
اسرائیلی درندگی کا ایک اور پہلو فلسطینی مریضوں کی کینسر سے ہونے والی موت کے ذریعہ سامنے آیا ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں ملک میں کینسر کے تیزی سے پھیلنے کے حوالے سے انتہائی خطرناک اعدادو شمار جاری کیے ہیں۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی طرف سے فلسطینی مریضوں کے علاج پر عاید کردہ پابندیوں اور دیگر قدغنوں کے باعث کینسر کے مریضوں کو علاج میں مشکلات درپیش ہیں اور اموات کی ایک بڑی وجہ اسرائیلی رکاوٹیں اور پابندیاں بھی ہیں۔ عالمی دن کی مناسبت شائع کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ17 برسوں کے دوران فلسطین میں کینسر کے باعث ہونے والی اموات میں غیرمعمولی اضافہ ہوتا رہا ہے۔ سنہ 2000 میں فلسطین میں کینسر کے باعث 1073 افراد کا انتقال ہوا جب کہ 2016 میں کینسر کے باعث فوت ہونے والوں کی تعداد 2536 تک جا پہنچی ہے۔اس طرح کینسر کا مرض فلسطینی عوام میں تیزی سے پھیل رہا ہے اس کے علاج کے لئے عالمی سطح پر اسرائیلی پابندیوں کو ہٹانے کے لئے دباؤ ڈالنا ضروری ہے۔
***

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209611 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.