وہ ایک نڈر باپ کی بیٹی تھی۔ اہلِ طاقت کے مقابلہ میں
کھڑا ہونا اس کے خون میں شامل تھا۔اس بے بس اور پسے ہوئے لوگوں کے معاشرے
میں وہ جرأت کا نشان تھی۔ وہ عورت تھی لیکن مردوں کے اس جنگل میں مردوں سے
بڑے حوصلہ اور ہمت کی حامل تھی۔ مظلوم جانتے تھے کہ اگر کسی نے ان کی نہ
سنی تو وہ ضرور سنے گی۔ ان کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ راستے میں آنے والی ہر
دیوار سے ٹکرا جائے گی لیکن ان کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو گی۔ اس نے
جہاں قدم رکھے انمٹ نقوش چھوڑے۔ عاصمہ جیلانی کیس سے لے کر راؤ انوار کے
جعلی پولیس مقابلہ میں قتل ہونے والے نقیب اور دیگر پشتونوں کے حق کے لیے
شروع کیے گئے احتجاج تک مزاحمت اور احتجاج کا ایک طویل سفر ہے جس میں عاصمہ
جہانگیر صفِ اول میں نظر آئی۔ اُس کی جنگ قائد کے پاکستان میں قائد کی سوچ
کے فروغ کے لیے تھی۔ اس کی جنگ آمر اور آمرانہ اقدار سے تھی۔ وطنِ عزیز میں
جب بھی آئین، قانون، بنیادی انسانی حقوق پہ زد پڑی تو عاصمہ جہانگیر وہ
پہلی شہری تھی جس نے احتجاج کا علم بلند کیا۔ ضیا کے دورِ ظلمت میں جہاں
بڑے بڑے سیاست دان سمجھوتوں میں اپنی بقا ڈھونڈ رہے تھے اور اپنے سیاسی و
فکری نظام سے اس لیے تائب ہو رہے تھے کہ اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی اور
مستقبل سنوار سکیں تو ایسے میں عاصمہ جہانگیر نے نہ تو اپنی فکر پہ سمجھوتہ
کیا اور نہ اس کے اظہار پہ۔ جنرل یحییٰ ہو یا جنرل ضیا و مشرف…… عاصمہ
جہانگیر ہمیں ہر آمر کے خلاف احتجاج کرتی نظر آتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا
سرمایا جرأت اظہار تھا اور اس سے اختلاف رکھنے والوں کو سب سے زیادہ جو شے
کھٹکتی تھی وہ بھی یہی تھی۔ لیکن اس سے اختلاف رکھنے والوں کی اکثریت ایسے
لوگوں پہ مشتمل تھی جن کے ہاتھوں میں یا تو سرکاری ہتھیار تھے یا پھر مذہبی
مہریں…… سو اس سے اختلاف رکھنے والوں نے ان دونوں ہتھیاروں کا خوب استعمال
کیا۔ ملک بھر میں منظم اور غیر منظم انداز میں عاصمہ جہانگیر اور اس سے جڑے
لوگوں کے خلاف گھناؤنی مہم چلائی گئی۔ لیکن ان سب کے باوجود اس عورت کے عزم
میں کمی نہیں آئی بلکہ اس نے پوری طاقت کے ساتھ اپنی بات کہنا جاری رکھا۔
بنا کسی خوف و ڈر کے۔ حتیٰ کہ اس نے خود اپنے شعبہ میں پائی جانے والی
خامیوں کی نشاندہی میں بھی کوئی رعایت روا نہ رکھی۔ ایسے سچے اور کھرے
کردار ہمارے معاشرے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ورنہ یہاں تو سچ اور کھرا پن
تو صرف نام تک محدود ہے۔
مرد ایک طاقت کی علامت ہے اور وطنِ عزیز تو ہے ہی مردانہ معاشرہ سو یہاں یہ
طاقت ویسے ہی دوگنی چوگنی ہو جاتی ہے۔ اس مردانہ معاشرے میں کسی عورت کا
چار عشروں سے زائد عرصہ سچ پہ کھڑا رہنا کوئی معمولی امر نہیں ہے۔ اور پھر
وہ سچ اپنے تک بھی محدود نہ ہو بلکہ پورے معاشرے کا دکھ ہو۔ اس معاشرے کا
الم ہو جس کا ادراک خود معاشرے کو نہیں۔ اپنے لیے تو کوئی بھی کھڑا ہو سکتا
ہے۔ دوسروں کی آواز بننا ہر کسی کے بس کا کام نہیں۔ طاقت وروں کے مقابل
مظلوموں اور کمزوروں کے حقوق کا علم بلند کرنا بڑا دشوار ہے لیکن عاصمہ
جہانگیر نے یہ کیا۔ آج جو لوگ عاصمہ جہانگیر کی وفات پہ ڈھول پیٹ رہے ہیں
اور شادیانے بجا رہے ہیں ان کے لیے میاں محمد بخش بہت پہلے کہہ چکے ہیں:
دشمن مرے تے خوشی نہ کریے، سجناں وی مر جانا
ڈیگر تے دن ہویا محمد اوڑک نوں ڈب جانا
جو لوگ خوشی کا اظہار کر رہے ہیں ان میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو
مذہب و ریاست سے غیر معمولی وابستگی کا اظہار کرتے نہیں تھکتے۔ یا یوں کہہ
لیجیے کہ وہ خود کو ہی سب سے زیادہ محبِ وطن او ر دیندار تصور کرتے ہیں۔
لیکن ان لوگوں کے ٹویٹس اور فیس بک اسٹیس دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نہ تو
انھوں نے مذہب سے اخلاقیات کی تعلیم حاصل کی اور نہ ہی ریاست کے اس نظام سے
جس سے عقیدت کے نام نہاد اظہار میں وہ دوسرے کو مطعون کرنا اپنا حق سمجھتے
ہیں۔میں حیران ہوں کہ ایسا کون سا دین یا مذہب ہو سکتا ہے جو کسی کی موت پہ
خوشی منانے کی تعلیم دیتا ہے۔ یا پھر وہ کون سا آئین و قانون ہے جس کے
بنانے والوں نے کسی موت پہ رقص کے جشن کی اجازت دی ہو۔ ضرور ایسا کہیں ہو
گا تبھی یہ سارا منظر ہمیں دیکھنے کو ملا ہے اور ایسا نہیں ہے تو جو لوگ
ایسا کر رہے ہیں ضرور ان تک غلط تعلیمات پہنچی ہیں اور پہنچانے والوں کی
صلاحیت اور علمیت پہ سوال اٹھتے ہیں۔ ایسے میں ایک معروف دفاعی تجزیہ کار
کا ٹویٹ بھی سامنے آیا ہے۔ گو کہ وہ صاحب پہلے ہی کئی جگہوں پہ متنازعہ رہ
چکے ہیں اور خود ان کے عقائد اور یوسف کذاب کی خلافت کے الزامات کے جواب
میں ان کی جانب سے کوئی واضح اور دو ٹوک مؤقف پیش نہ ہونے پہ ان کی حیثیت
مشکوک ہو چکی ہے لیکن اپنی کتب (جنھیں عسکری عہدے داروں کی تائید بھی حاصل
ہے) اور لیکچرز کی وجہ سے اپنے معتقدین کا ایک حلقہ رکھتے ہیں جو جدید
ذرائع ابلاغ فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب پہ خاصا مضبوط نیٹ ورک رکھتے ہیں۔ ان
صاحب کی جانب سے شروع کردہ منفی مہم نے سوشل میڈیا پہ ایک آگ لگا رکھی ہے۔
ان کے معتقدین میں سے کوئی خوشی کا اظہار کر رہا ہے تو کوئی مرحومہ پہ لعن
طعن کر رہا ہے۔ قدامت پسندوں کا ایک بڑا حلقہ بھی ان کی آواز میں آواز ملا
رہا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آج قدامت پسندوں کی عید ہے۔ لیکن اس میں
بھی عاصمہ جہانگیر کی فتح ہے۔ انسانی حقوق کی علمبردار اور جمہوریت کی جنگ
لڑنے والی نے آج مر کر بھی جو فتح حاصل کی ہے اس کا ادراک اس کے دشمنوں کو
نہیں ہے۔ مؤرخ لکھے گا کہ وہ جب اس جہاں سے لوٹی تو ان لوگوں کے من کا حال
کھول گئی کہ جو اپنے من کا گدلا پن کبھی مذہب اور کبھی ملک سے نام نہاد
تعلق کے چولے میں چھپا کے پھرتے تھے۔ اس بے حسی کا ماتم آئندہ نسلیں کریں
گی اور ضرور کریں گی۔ یہاں سے آگے لکھا جائے تو کیا لکھا جائے کہ ہر آنے
والے دن ہمارے معاشرے کا پہلے سے زیادہ بھیانک چہرہ سامنے آتا ہے۔ میں ذاتی
طور بیرونِ ملک مقیم ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو پاکستان میں موجود
انسانی حقوق اور جمہوریت کے علمبرداروں کے خلاف دن رات سوشل میڈیا پہ لعن
طعن کرتے رہتے ہیں لیکن خود بیرونِ ملک غیر قانونی رہائش رکھتے ہیں اور اسی
پہ اکتفا نہیں کرتے بلکہ اسائلم لینے کے لیے اپنے عقائد سے برعکس معلومات
ایمی گریشن کو دیتے ہیں اور دھڑلے سے درخواست میں لکھتے ہیں کہ انھیں
پاکستان میں جان کا خطرہ ہے۔ ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو بیرونِ ملک
موجود مساجد میں امامت بھی کرتے ہیں۔ خیر عام لوگوں کا کیا کہا جائے کہ
یہاں تو بڑے بڑے جغادری یہ کارنامے سرانجام دے چکے ہیں۔ یہ سب اسی منافقت
کا اظہار ہے جس کی جڑیں ہمارے معاشرے میں بہت گہری ہو چکی ہیں۔ |