سمجھ سکا نہ یہاں کوئی بھی مرے دل کو
سو خود کو توڑ کے آسان جوڑنا ہے مجھے
نگل نہ جائے کہیں مجھ کو میری خاموشی
سو اپنے کان میں خود آج چیخنا ہے مجھے
(نسیم شیخ)
مندرجہ بالا دو اشعار کہنے کو چار مصرعے ہیں مگر ان میں موجود جو عکس ہے وہ
نسیم شیخ ہے جو نہ جانے کیسی جنگ اپنے آپ سے لڑ رہا ہے وہ یا تو خود نسیم
شیخ جانتا ہے یا پھر نسیم شیخ کو تخلیق کرنے والا ہم نے سخن کدے میں جس
نسیم شیخ اور اس کی فیملی سے ملاقات کی ہم اسے بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں
کیونکہ نسیم شیخ اب نسیم شیخ نہیں بلکہ تشنہ ادب سماعتوں کی جاگیر بن چکا
ہے
نسیم شیخ عہد حاضر کے ممتاز اور قابل قدر قلم کاروں میں شامل ہیں..انھیں
الفاظ کے فنکارانہ استعمال اور برمحل انتخاب پہ قدرت حاصل ہے وہ جو لکھتے
ہیں اسے بیان اس سے کہیں زیادہ خوبصورت انداز میں کرتے ہیں اگر یہ کہا جائے
کہ نسیم شیخ ایک عالمی شعلہ بیاں شاعر اور ایک جرأت مند بے باک رائٹر ہیں
تو یقیننا غلط نہیں ہوگا انکی تحریر زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی نظر
آتی ہے چاہے وہ شعری سخن پرواز ہو یا حالات حاضرہ پہ لکھی گئی تحریر جدید
تحقیق سے سجی فنی ریاض و فنکارانہ چابکدستی اور خوبصورت برمحل اظہار کا ایک
انوکھا امتزاج نظر آتا ہے وہ بلاشبہ مبتدی کے لیے ایک گھنے سایہ دار تناور
درخت کی مانند ہیں جسکی چھاؤں میں کچھ دیر سستالینا بھی کسی نعمت سے کم
نہیں وہی نسیم شیخ جب اپنے مشاہدات اور تجربات نئے سیکھنے والوں کی رہنمائی
کے لیئے صفحہ ء قرطاس پہ الفاظ کی صورت بکھیرتا ہے تو وہ ایک شاہکار کی شکل
پاتا ہے جسے دنیا موج سخن کے نام سے پہچان جاتی ہے اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ
آیا موج سخن کیا ہے یقینا یہ ایک کتاب ہے اور وہ بھی علم العروض کے وسیع
سمندر کو اپنے سینے میں بسائے رواں دواں ہے آج تک جتنی بھی کتب اس علم کے
حوالے سے دنیا کے سامنے آئیں وہ اس قدر دقیق ہیں کہ انہیں ایک مبتدی کو
سمجھا بہت مشکل اور کٹھن ہے اس لیے دو چار صفحات پڑھ کر بندا اکتا جاتا ہے
اور اس فن کو سیکھنے کی ہمت دم توڑ دیتی ہے مگر موجِ سخن کا خاصا یہ رہا کہ
اس میں نسیم شیخ نے اس علم کو پہلے سمجھا اور پھر اسے آسان زبان میں آسانی
سے بیان کر دیا موجِ سخن صرف رموز شاعری سکھانے والی دوسری اوزان شاعری کی
طرح عام سی کتاب ہے یا واقعتا اس میں کچھ ایسا ہے جو کسی بھی علم کی پیاس
رکھنے والے مبتدی کی پیاس کو مٹاتے ہوئے اسےحقیقتًا مکمل سیراب کرنے کی
صلاحیت رکھتی ہے-
"موج سخن رموز شاعری پر مشتمل ایک کتاب ہی نہیں بلکہ ایک ایسا ٹھاٹھے مارتا
سمندر ہے جسے ایک کوزے کے اندر قید کردیا گیا ہے.شاعری کے وزن سے لے کر
الفاظ کی تراکیب، تلفظ اور املا تک اس میں بیان کیا گیا ہے نیز مروج بحور
اور ان کے موجدز حافات اور انکی تفصیلات سے لے کر ارکان کی تشکیل اور حرکات
کی معلومات تک، علم القوافی کے ساتھ ہم قافیہ الفاظ کی ایک طویل فہرست
تشبیہات اور ان کی تفصیلات یعنی علم البدییع اور ان سے متعلق تفصیلی بحث ،مشق
سخن اور اساتذہ کے تقطیع شدہ اشعار بطور مثال ،رباعی کی تعریف اور شجروں کے
تفصیلی بیان سے لے کر اس کے چوبیس ارکان کے تفصیلی بیان تک،نظم اور غزل ،قطعہ
اور شعر کے مابین فرق کی پہچان اور شناخت کراتی، تحت اللفظ کی اہمیت باور
کراتی یہی نہیں اس کے تحت مشاعرہ پڑھنے کے طریقے سے روشناس کراتی اردو زبان
کی تمام تر خوبیوں اور صناعی کو اجاگر کرتی اس کی اہمیت کا احساس دلاتی وہ
کتاب ہے جس میں اغلاط کی موجودگی اور علم بدیع سمیت کئی مزید اہم رموز پر
مشتمل بہترین اور جامع گفتگو آسان زبان میں کی گئی ہے موجِ سخن ایک انمول
کتاب ہے جو خود کو طفل مکتب سمجھتے ہیں اور ایک طالب کی حیثیت سے سیکھنا
چاہتے ہیں ان کے لیئے یہ بلاشبہ ایک بہترین کتاب ہے جس کا ہدیہ اس کے عشر
عشیر بھی نہیں .... ہمیں یہ کہنے میں ذرا سا بھی تامل یا ہچکچاہٹ محسوس
نہیں ہوتاـ کہ یہ ایک بلاشبہ جامع کتاب ہے جس سے یقینابہت کچھ سیکھا جاسکتا
ہے میرے خیال میں شعر و سخن سے جڑے ہر انسان کی لائبریری میں اس کتاب کا
ہونا ضروری ہے؎
شاعری بے شک خداد صلاحیت ہے لیکن جذبوں اور قوت اظہار کی تکمیل کے لیئے
بہرحال ان صلاحیتوں کی تربیت نہایت ضروری ہے کیونکہ ہیرا تب تک انمول نہیں
کہلاتا جب تک اس کا ماہر اس کی بہترین تراش خراش نہیں کردیتا تبھی اس کی
ظاہری و باطنی خوبی صحیح معنوں میں اجاگر ہوتی ہے ایک استاد کی حیثیت بے شک
اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اگر آپالفاظ سے باتیں کرنے کا ہنر سیکھنا
چاہتے ہیں تو اس کتاب سے استفادہ کریں ہمیں امید ہے فن سخن آسانی سے آپ کی
روح کو سرشار کر جائے گا ہماری خوش قسمتی کل سخن کدہ یعنی دولت کدہِ نسیمی
پر جانے کا اتفاق ہوا وہاں علم کے دریا کو ہر جا بہتا دیکھ کر حیرت نہیں
ہوئی بلکہ اپنی خوش قسمتی پر ناز کر اٹھے مگر یہ حقیقت ہے کہ حیران ضرور
ہوئے مختلف کتابوں کو ترتیب سے شیلف میں دیکھ کر کتاب کی عزت کرتے سخن کدے
کے ہر رکن کو ان کی گفتار سلیقہ اور ادب سے محبت ہمیں چند لمحے ساکت کر گئی
پھر جب نسیم شیخ کے ہاتھوں قیمتی کتابیں تحفتا ہمیں ملی تو ہماری خوشی قابل
دید تھی جنہیں لفظ دینا ہمارے اختیار میں کہاں نسیم شیخ نے جس اعتماد سے
وشمہ خان وشمہ کی کتاب جانِ محسن نعیم جاوید نعیم کی کتاب دشتِ ہجراں ہما
صمدانی کی کتاب کیوں آنکھوں میں نمی رہتی ہے اپنی کتاب منتشر سوچیں اور سب
سے بڑھ کر اپنی دس سالہ محنت کا نچوڑ موجِ سخن جب ہمیں دی تو ہمیں اپنی
اہمیت کا احساس ہوا کیونکہ نسیم شیخ نے جس انداز میں ان شاعر و شاعرات کی
کتابیں ہمیں دیں وہ قابل دید تھا ہم حیران تھے کہ ایک قدآور شخصیت دوسرے
انسان کے سخن کی کس طرح تعریف کر رہا ہے اور ہمیں تاکید کر رہا ہے کہ ان کا
سحر اپنے تخیل پر طاری کیے بنا مطالعہ کریں اور شعر کے اند کا شعر تلاش
کریں جو یقینا ہمارے لیے حیران کن تھا نسیم شیخ کا فخریہ انداز کسی اور کی
کتاب پر ہمیں حیران کر گیا اور ہمیں نسیم شیخ ادب کے آسمان پر چمکتا سورج
دکھائی دئیے مختصر یہ کہ موجِ سخن کتاب کو پاکر ہم اپنے آپ کو سیراب سمجھتے
ہوئے گھر کی جانب سفر باندھ بیٹھے اور موجِ سخن پر لکھنے پر مجبور ہوئے موجِ
سخن ایک ایسی سہل کتاب ہے جسے پڑھ کر انسان اپنے سخن کی اصلاح کر سکتا ہے
اور زمین بنانا شعر کہنا مصرعوں میں ربط قائم کرنے کے ساتھ ساتھ شعر کے اصل
رنگ روپ سے واقف ہو سکتا ہے؎ہمارے دل میں بحثیت استاد نسیم شیخ کا ایک مقام
تو تھا ہی مگر آپ سے مل کر سخن کدے میں جانے اور وہاں کی آب و ہوا سے سیراب
ہونے کے بعد نسیم شیخ ہمارے لیے کیا ہو گئے یہ کہنا ہمارے لیے نا ممکن ہے
یہ تو ہم ہیں جسے ادب کی تشنگی تھی مگر یہی حال ہمارے سرتاج اور بیٹیوں کا
تھا جن کی کیفیت ہم سے مختلف نہیں
دعاگو
حیاغزل |