مجھےبچالو ! مجھے بچالو ـــــ

نپولین کاواقعہ

بچالو !

واقعہ کچھ یوں ہوا، یہ اُس دور کی بات ہے جب نپولین نے روس پر حملہ کیا تھا۔ اُس کے فوجی دستے ایک اور چھوٹے سے قصبے میں جنگ میں مصروف تھے۔ اتفاق سے نپولین اپنے آدمیوں سے بچھڑ گیا۔ کاسک فوج کے ایک دستے نے نپولین کو پہچان لیا اور شہر کی پُرپیچ گلیوں میں اُس کا تعاقب شروع کردیا۔ نپولین اپنی جان بچانے کے لیے دوڑتا ہوا ایک بغلی گلی میں واقع ایک سمور فروش کی دکان میں جا گھسا۔ وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔دکان میں داخل ہونے کے بعد جوں ہی اُس کی نگاہ سمور فرش پر پڑی وہ بے چارگی سے کراہتے ہوئے بولا ’’مجھے بچالو! مجھے بچالو! مجھے کہیں چھپا دو۔‘‘ سمورفروش بولا ’’جلدی کرو! اُس گوشے میںسمور کے ڈھیر کے اندر چھپ جائو!‘‘ پھر اُس نے نپولین کے اوپر اور بہت سے سمور ڈال دیے۔

ابھی وہ اس کام سے فارغ ہوا ہی تھا کہ کاسک فوجی دستہ دندناتا ہوا اُس کی دکان میں آ گھسا اور فوجی چیخنے لگے ’’وہ کہاں ہے؟‘‘ ’’ہم نے اُسے اندر آتے ہوئے دیکھا ہے؟‘‘ سمور فروش کے احتجاج کے باوجود اُن فوجیوں نے سمورفروش کی دکان الٹ پلٹ کر رکھ دی۔ نپولین کی تلاش میں اُنھوں نے دکان کا چپا چپا چھان مارا۔وہ اپنی تلواروں کی نوکیںسمور کے ڈھیر میں گھساتے رہے لیکن نپولین کو تلاش نہ کر پائے۔ بالآخراُنھوں نے اپنی کوشش ترک کر دی اور واپس چلے گئے۔ کچھ دیر بعد جب سکون ہوگیا تو نپولین سمور کے ڈھیر میں سے رینگتا ہوا باہر نکل آیا۔ اُسے کسی قسم کا کوئی گزند نہیں پہنچا تھا۔

عین اُسی لمحے نپولین کے ذاتی محافظ بھی اُسے تلاش کرتے ہوئے وہاں آن پہنچے اور دکان میں داخل ہوگئے۔ سمورفروش کوجب اندازہ ہوگیا کہ اُس نے کس عظیم شخصیت کو پناہ دی تھی تو وہ نپولین کی جانب گھوم گیا اور شرمیلے لہجے میں گویا ہوا ’’میں اتنے عظیم آدمی سے یہ سوال پوچھنے پر معذرت چاہوں گا! لیکن سمور کے اِس ڈھیر کے نیچے جب آپ کو یہ احساس ہو چکا تھا کہ اگلا لمحہ یقینی طور پر آپ کی زندگی کا آخری لمحہ بھی ہو سکتا تھا تو آپ کو کیا محسوس ہوا تھا؟‘‘ نپولین جو اب پوری آن بان کے ساتھ تن کر کھڑا ہوچکا تھا، سمورفروش کے اِس سوال پر غصے میں آگیا اور برہمی سے بولا ’’تمھیں مجھ سے، بادشاہ نپولین سے، یہ سوال کرنے کی ہمت کیوں کر ہوئی؟‘‘

پھر وہ اپنے محافظوں سے مخاطب ہوا ’’محافظو! اس گستاخ شخص کو باہر لے جائو۔ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دو اور اِسے گولی مار دو! میں بذاتِ خود اس پر فائر کھولنے کا حکم دوں گا۔‘‘ محافظوں نے اُس بے چارے سمور فروش کو دبوچ لیا اور اُسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے۔ پھر اُسے ایک دیوار کے ساتھ کھڑا کرکے اُس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ سمورفروش کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، البتہ اُس کے کانوں میں محافظوں کے حرکت کرنے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں جو دھیرے دھیرے ایک قطار میں کھڑے ہو کر اپنی رائفلیں تیار کر رہے تھے۔

ساتھ ہی اُسے سرد ہوا کے جھونکوںاور کپڑوں کی سرسراہٹ بھی سنائی دے رہی تھی۔ ہوا کے تھپیڑے اُس کے لباس سے ٹکرا رہے تھے اور اُس کے گال یخ ہونا شروع ہو گئے تھے۔ اُس کی ٹانگیں کپکپا رہی تھیں اور وہ اُن پر قابو پانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ تب اُس کے کانوں میں نپولین کی آواز سنائی دی جس نے کھنکارتے ہوئے اپنا گلا صاف کیا اور آہستگی سے بولا ’’ہوشیار… شست باندھ لو۔‘‘ اُس لمحے میں یہ جانتے ہوئے کہ اُس کے تمام احساسات و جذبات اُس سے ہمیشہ کے لیے جدا ہونے والے ہیں، سمورفروش کے اندر ایک ایسا احساس نموپذیر ہونے لگا، جسے بیان کرنے سے وہ قاصر تھا۔اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے شروع ہو گئے۔

اُسے قدموں کی چاپ سنائی دی جو اُس کی جانب بڑھ رہی تھی۔ جب وہ آواز اُس کے عین نزدیک آ گئی تو کسی نے ایک جھٹکے سے اُس کی آنکھوں پر بندھی پٹی کھول دی۔ اچانک روشنی ہونے سے سمورفروش کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں، تب اُس نے نپولین کو دیکھا جو اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اُس کے مقابل کھڑا تھا۔ اُس نے نپولین کے لب وا ہوتے دیکھے۔ وہ نرم لہجے میں بول رہا تھا ’’اب تمھیں پتاچل گیا؟‘‘
 

سید ذیشان علی شاہ
About the Author: سید ذیشان علی شاہ Read More Articles by سید ذیشان علی شاہ: 25 Articles with 53354 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.