بسم اﷲ الرحمن الرحیم
پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی کابل میں منعقدہ چیف آف ڈیفنس
کانفرنس میں شرکت اس لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس کا انعقاد ایسے
موقع پر ہو رہا ہے جب افغانستان کے حوالے سے پاک امریکہ تعلقات انتہائی
شدید اختلافات کا شکار ہیں اور کابل اس تنازعہ میں ہمیشہ کی طرح امریکہ کی
حمایت میں امریکہ سے بھی دو قدم آگے نظر آرہاہے ۔ اس کانفرنس میں امریکی
سنٹرل کمانڈر کے سربراہ ، افغانستان میں امریکی مشن کے سربراہ کے علاوہ
افغانستان، تاجکستان ، کرغزستان ، قازقستان ،ازبکستان اور ترکمانستان کے
بری افواج کے سربراہان نے بھی شرکت کی ۔کانفرنس کے اختتام پرخطے میں امن
واستحکام کے لیے تعاون جاری رکھنے پر اتفاق رائے کیا گیا۔آرمی چیف نے
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں امن کا راستہ افغانستان سے
گزرتا ہے۔خطے کی ترقی کا انحصار کسی ایک ملک نہیں بلکہ مجموعی ترقی پر
منحصر ہے ۔اس خطاب میں آرمی چیف نے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے
ذریعے حاصل کی گئی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان میں
دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے ۔ پاکستان خطے میں امن کے
لیے بھرپور کردار ادا کر رہا ہے لیکن دوسرے ممالک کوبھی تعاون کرنا ہوگا ۔آرمی
چیف نے کہا کہ پاکستان نے خطے میں امن و استحکام اور بالخصوص انسداد دہشت
گردی کے لیے جو اقدامات کیے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں ۔پاکستان میں اس وقت
2.7ملین افغان مہاجرین موجود ہیں جن کی آڑ میں شاید کچھ بچے کچھے دہشت گرد
عناصر چھپے ہوئے ہیں جن کو جلد ہی باہر نکال دیا جائے گا ۔پاکستان یقین
دلاتا ہے کہ اپنی سرزمین کسی بھی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں
گے اور ایسا ہی دوسرے ممالک سے بھی توقع کرتے ہیں ۔انہوں نے واضح انداز میں
کہا کہ پاکستان اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے ۔ یہ خطاب جہاں خطے
کی مجموعی صورتحال کے حوالے سے بہت اہم ہے وہاں پاکستان کا افغانستان اور
اس سرزمین پر موجود دیگر طاقتوں کو بھی ایک بڑا واضح پیغام تھا کہ وہ اب
اپنے حصے کا کردار ادابھی کریں ۔آرمی چیف کا دورہ اس لحاظ سے بھی اہم تھا
کہ اس وقت دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک دوسرے کے لیے شدت میں بہت ذیادہ
اضافہ ہو چکا ہے ۔سال 2017افغانستان میں موجود امریکہ اور اس کے اتحادیوں
کے لیے نہایت ہی خوفناک ثابت ہوا جس میں طالبان نے مختلف حملوں میں امریکہ
اور اس کے اتحادیوں کی سیکورٹی اور کامیابیوں کے دعووں کی قلعی بھی کھول دی
۔ ابھی سال 2018کا آغاز ہی ہو اہے کہ پھر سے چند دنوں میں بڑے بڑے حملوں کے
باعث اتحادی افواج بری طرح مشکلات کا شکار نظر آتی ہیں ۔ ان حالات میں
امریکہ اور افغانستان نے اپنی سیکورٹی کی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر
ڈالنے کی کوشش کی جسے پاکستان نے اپنے موقف سے مسترد کر دیا ۔ گزشتہ دوماہ
میں دونوں ممالک میں مختلف وفود کے تبادلے بھی ہو چکے ہیں تاکہ ایک دوسرے
کی شکایات کا ازالہ کیا جا سکے ۔ تاہم یوں محسوس ہو رہا ہے کہ پاک افغان
تعلقات کی بہتری خود امریکہ اور اس کی چھتری تلے موجود افغان حکومت کے چند
اہم عناصر کو قبول نہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ ایک ٹھوس موقف اپنایا ہے کہ
افغانستان کے مسئلہ کاحل ہر صورت افغان گروہوں کوہی نکالنا ہے اور جب تک ان
گروہوں کو ایک ساتھ نہیں بٹھایا جاتا امن عمل کامیاب نہیں ہو سکتا ۔
پاکستان کے اس موقف کی کسی حد تک افغان رہنما بھی تائید کرتے ہیں ۔ البتہ
افغان حکومت کے مخالفین اس عمل میں امریکہ کا کردار کسی صورت ماننے کے لیے
تیار نہیں جو امریکہ کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔جس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔
اس وقت مغربی دنیا میں بالعموم اور امریکہ میں بالخصوص افغانستان میں چین
کے ممکنہ فوجی اڈے پر تشویش کا عنصر پایا جا رہا ہے ۔ افغانستان وزارت دفاع
کے ترجمان کے مطابق چین نے فوجی اڈے کے لیے مالی وسائل اور سازوسامان کی
فراہمی کے لیے رضامندی ظاہر کر دی ہے ۔اس اڈے میں چین افغان فوج کو تربیت
بھی فراہم کرے گا ۔ یہ فوجی اڈا چین سے متصل سرحد پر واقع واخان کی پٹی میں
قائم کیا جائے گا ۔مغرب کے لیے یہ سوال نہایت اہم ہے کہ کیا یہ اڈا چین کے
مفاد میں ہے یا چین جنوبی ایشیا میں اپنی تزویراتی ترجیحات کو مدنظر رکھتے
ہوئے طویل المیعاد منصوبے پر عمل کر رہا ہے ۔ اس اڈے کے حوالہ سے یہ ذکر
کرنا بھی ضروری ہے کہ فوجی اڈا چین کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس کے
سرحدی علاقوں میں ممکنہ بغاوت کے حوالے سے بھی اہمیت رکھتا ہے ۔چین کواپنے
صوبے سنکیانگ میں ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ سے خطرہ ہے جن کے بارے میں
کہا جاتا ہے کہ اس تنظیم کے اکثر رہنما اور جنگجو افغانستان میں موجود ہیں
۔ داعش کی افغانستان میں موجودگی جہاں دیگر اسلامی تحریکوں کے لیے خطرے کا
باعث بن رہی ہیں وہاں چین کے لیے بھی خدشہ موجود ہے کہ ایسٹ ترکستان موومنٹ
کے جنگجو بھی داعش کی سرگرمیوں سے متاثر ہو کر اس میں شمولت اختیار کر سکتے
ہیں اور چین کے لیے ایک نیا چیلنج بن سکتے ہیں ۔ چین کے سامنے مارچ 2017کی
وہ ویڈیو بھی موجودہے جس میں داعش کے ہمراہ یغور مسلمان جنگجوؤں کو دکھایا
گیا تھا ۔اس آدھے گھنٹے کی ویڈیو میں جنگجوؤں نے یہ دھمکی دی تھی کہ وہ چین
کے خلاف دریاؤں کی طرح خون بہاد یں گے۔اس ویڈیو میں اسلامک اسٹیٹس (داعش)
نے کہا تھا کہ ہم خلافت کے سپاہی ہیں، اگر تم نے وہ نہ سمجھا جو سنکیانگ کے
لوگ کہہ رہے ہیں تو ہم ہتھیاروں کی زبان سے وضاحت کریں گے اور ظالموں (چین)
سے ایسا انتقام لیں گے کہ خون دریاؤں کی طرح بہے گا۔یہ داعش کی جانب سے چین
کو پہلی براہ راست دھمکی سمجھی گئی ۔ اس لحاظ سے فوجی اڈے کا قیام چین کی
اپنی دہشت گردی کے خلاف پالیسی کا حصہ معلوم ہوتا ہے ۔ یہاں یہ ذکر کرنا
بھی ضروری ہے کہ واخان کی اس پٹی میں جہاں فوجی اڈے کا قیام زیر غور ہے
افغانستان اور چین کی مشترکہ فوجی دستے گشت کرتے ہیں ۔تاہم امریکہ اور اس
کے اتحادیوں کے لیے چین کے اپنی سلامتی کے حوالے سے کیے گئے اقدامات سے قطع
نظر یہ اہم ہے کہ وہ بغیر کسی قربانی کے یہاں اپنا فوجی اڈا ( جسے عالمی
تعلقات میں فوجی تسلط کے لیے پہلا قدم بھی قرار دیا جاتا ہے )قائم کرنا ایک
بڑا چیلنج نظر آتا ہے ۔یاد رہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا دائرہ کار
افغانستان تک بڑھانے کی بات پہلے ہی کی جا چکی ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ یہ
اقتصادی راہداری کا منصوبہ اس وقت تک ثمر آور نہیں ہو سکتا جب تک افغانستان
میں مکمل امن نہ ہو جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ وسط ایشیا تک تجارتی راہداری کے
لیے چین خصوصی طور پر پاک افغان تعلقات کو بہتر کرنے اور خطے میں امن کی
بحالی کے لیے اہم کردار ادا کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ امن کے قیام کے لیے
چین طالبان کو بھی اس امن عمل کا حصہ بنانے کیلیے مختلف اقدامات کررہا ہے
جن کے خلاف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اعلان کر چکے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی
مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ چین کے معاشی منصوبے بالخصوص پاک چین اقتصادی
راہداری اور ون بیلٹ روڈ کی کامیابی کے لیے افغانستان میں امن ایک ایسی
کنجی ہے جس سے انکار ممکن نہیں ۔تاہم ان معاشی منصوبوں اور بالخصوص
افغانستان میں چین کی حکمت عملی کو منفی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی جارہی
ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور جنوبی ایشیا میں اس کا مضبوط اتحادی بھارت ان
منصوبوں کے خلاف ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔
اسی طرح اس موقع پر جب پاک چین تعلقات معاشی منصوبوں کے ذریعے عروج کی طرف
جا رہے ہیں امریکہ نے پاکستان کے خلاف سفارتی جنگ بھی تیز کر دی ہے یا یوں
کہیے کہ اس نے سفارتی میدان میں طبل جنگ بجادیا ہے۔ افغانستان میں پاکستان
کوکلی طور پر آؤٹ کرنے کی بھارتی و امریکی کوششیں کسی صورت ڈھکی چھپی نہیں
ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سال نو میں جہاں امریکہ نے سفارتی میدان میں پاکستان
پر سخت حملوں کا آغاز کیا وہاں پر افغانستان میں ہر ہونے والے حملوں کا ذمہ
دار پاکستان کو ٹھہرا کر اسے مطعون کرنے کی ہر کوشش کی جارہی ہے ۔یہی زبان
بھارت اور افغانستان میں موجود امریکی مفادات کا تحفظ کرنے والے لوگ کر رہے
ہیں ۔
اس منظر نامے میں آرمی چیف کا خطاب بہت واضح پیغام ہے جسے خطے کے مجموعی
مفاد میں سمجھنا بہت ضروری ہے ۔افغان قیادت کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ
اس خطے کی معاشی ترقی صرف افغانستان کے عمل سے جڑی ہے اور امن کا قیام اسی
صورت ممکن ہے جب تمام ممالک اپنا اپنا کردارادا کریں گے ۔ بیرونی عناصر کی
ناکامیاں کسی ایک پر نہیں ڈالی جا سکتیں ۔ بیرونی قوتوں کا عمل دخل کم کرکے
ہی اس خطے میں امن ممکن ہو سکتا ہے جس کے لیے پہلی ترجیح افغان گروپوں کو
ایک ساتھ بٹھانا ہونا چاہیے ۔
|