بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دماغ کی غذا علم ہے، ساری غذائیں چمچ سے نہیں کھائی جاتیں، کچھ ہاتھ سے،
کچھ گلاس سے اور کچھ کپ سے لی جاتی ہیں، اسی طرح ہر غذا کا ایک مناسب وقت
ہوتا ہے، صبح ناشتے میں جو غذائیں پسند کی جاتی ہیں وہ دوپہر کے کھانے سے
مختلف ہوتی ہیں اور رات کے کھانے میں جن چیزوں کا انتخاب کیا جاتا ہے وہ
ناشتے اور دن کے کھانے سے مختلف ہوتی ہیں۔
جس طرح جسم کے رشد اور ارتقا کے لئے مختلف غذاوں کی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح
دماغ کے رشد اور ارتقا کے لئے بھی مختلف علوم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماہرینِ
تعلیم، طالب علم کی عمر ،اس کے ماحول اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق علوم کی
بھی درجہ بندی کرتے ہیں۔
ہر عمر کے تناسب سے طالب علم کو مناسب مقدار میں علم دیا جاتا ہے اور ہر
زمانے کے تقاضوں کے مطابق طالب علم کو مفید علم سیکھنے اور حاصل کرنے کی
ترغیب دی جاتی ہے۔ بدن کی غذا کی طرح دماغ کی غذا یعنی علم دینے کے بھی
مختلف طریقے اور روشیں ہیں جن سے مناسب استفادہ ضروری ہے۔
جس طرح بچوں کی تعلیم و تربیت کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے اسی طرح مجموعی
طور پر ایک ملت کو بھی تعلیم و تربیت کی ضرورت پیش آتی ہے۔یہ دانشمندوں
اور ہمارے ماہرین تعلیم کا کام ہے کہ وہ بحیثیت ملت اپنی قوم کی تعلیم و
تربیت کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل مرتب کریں۔
مسجد کےمحراب و منبر سے لے کر میڈیا تک یہ سب انسانی تعلیم و تربیت کے
ذرائع ہیں، انہی ذرائع کو بروئے کار لاکر ہم اپنے ملی و قومی شعور میں
بطریقِ احسن اضافہ کر سکتے ہیں۔ انسان فطری طور پر علم کا تشنہ ہے، اگر
انسان فطری تقاضوں کا ساتھ دے تو پورا نظامِ کائنات اس کی مدد کرتا ہے۔
آج ہمارے ہاں ہر چیز میں بگاڑ ہے، ہر شخص ناراض ہے، ہر شعبہ خراب ہے چونکہ
ہم بحیثیت قوم نظامِ فطرت سے ہٹے ہوئے ہیں، جس طرح اسلام، دینِ فطرت ہے اسی
طرح علم، انسان کی فطری ضرورت ہے ، چنانچہ دینِ اسلام میں بھی بار بار حصولِ
علم کی تاکید کی گئی ہے ۔
کبھی کہا گیا ہے کہ علم حاصل کرو مہد سے لے کر لحد تک یعنی علم حاصل کرنے
میں عمر کی کوئی قید نہیں، کبھی کہاگیا ہے کہ علم حاصل کرو خواہ چین جانا
پڑے یعنی علم کی خاطر ہجرت کرنے میں اور دوسرے ممالک کی طرف جانے میں کوئی
مضائقہ نہیں، کبھی کہاگیا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مردو عورت پر فرض ہے یعنی
علم کے حصول میں لڑکے اور لڑکی کا کوئی فرق نہیں۔
بلاشبہ علم انسانی معاشرے کی مسلسل ضرورت اور انسانی فطرت کی مسلسل آواز
ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثر طور پر اُن لوگوں کا منبر و محراب
اور میڈیا پر قبضہ ہوتا ہے جو خود علمی طور پر عقب ماندہ ہوتے ہیں۔ جب
محراب و منبر اور میڈیا پر عقب ماندہ لوگ براجمان ہوتے ہیں تو معاشرہ بھی
پسماندگی کی طرف جاتا ہے اور معاشرے پر ایسے لوگ حکومت کرتے ہیں جن کی
تعلیمی ڈگریاں تک جعلی ہوتی ہیں۔
جب محراب و منبر ، میڈیا اور سیاست میں تعلیمی و اخلاقی طور پر زوال پذیر
لوگ چھائے ہوئے ہوں تو ماہرین تعلیم اور دانشمندوں کی اوّلین زمہ داری بنتی
ہے کہ وہ منبر و محراب، سیاست اور میڈیا کے حوالے سے ٹھوس منصوبہ بندی کریں
اور شائستہ اور بہترین افراد کی تعلیم و تربیت کا بیڑہ اٹھائیں۔
جب تک ہم اپنی قوم کی تعلیمی و شعوری سطح بلند نہیں کرتے ، بچوں کی طرح
مساجد و مدارس اور سیاست دانوں نیز میڈیا پرسنز کے ایک مخصوص تعلیمی و
اخلاقی معیار کے قائل نہیں ہوجاتے اس وقت تک صرف ووٹ ڈالنے اور الیکشن
کرانے سے ملکی و قومی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔
سیاسی شعور اور بازار سے آٹا اور صابن خریدنے کے شعور میں بہت فرق ہے، جب
ووٹ ڈالنے والے کو ہم نے سیاسی شعور ہی نہیں دیا اور اس کی سیاسی تربیت ہی
نہیں کی تو وہ کبھی آٹے کی ایک بوری کی خاطر اور کبھی برادری، فرقے یا
علاقائی و لسانی تعصب کی خاطر ہی ووٹ دے گا۔
اس وقت انتخابات سے پہلے سیاسی دانشوروں اور عمومی مفکرین کی ذمہ داری بنتی
ہے کہ وہ لوگوں کو سیاسی طور پر بیدار کریں، انہیں ملک و قوم کا نفع و
نقصان سمجھائیں، انہیں سیاست کی ابجد سے آشنا کریں اور ان کے سامنے ایک
صاف و شفاف سیاسی نظریہ پیش کریں۔
خصوصا جو تنظیمیں اپنے آپ کو الٰہی و نظریاتی کہتی ہیں ان کی ذمہ داری سب
سے زیادہ بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو الٰہی سیاست کے اصولوں کی تعلیم دیں۔
چونکہ جس طرح تعلیم و تربیت کے بغیر بچہ عقب ماندہ رہ جاتا ہے اسی طرح
تعلیم و تربیت کے بغیر اقوام بھی پسماندہ اور عقب ماندہ رہ جاتی ہیں ۔
آج ہمیں ایک ایسی اسلامی حکومت کی ضرورت ہے کہ جسمیں کم از کم مندرجہ زیل
خصوصیات پائی جائیں:
۱۔ لوگوں کا انتخابات میں انتخاب اُن کے ایمان ، تعلیم اور کردار کی وجہ سے
کیا جائے
۲۔ کچہری سسٹم اور عدالتی نظام میں رشوت خور بابو حضرات اور ہرکاروں کا
خاتمہ کیا جائے
۳۔امیر و غریب سب کے بچوں کے لئے ایک جیسا معیاری اور جدید نظامِ تعلیم
فراہم کیا جائے
۴۔کام اور روزگار کے مواقع رشوت اور سفارش کے بجائے ، تعلیم، میرٹ اور
تجربے کی بنیاد پر سب کے لئے یکساں ہوں
۵۔ تھانوں اور دیگر سرکاری داروں میں عوام کے احترام کو یقینی بنایا جائے
اور سرکاری اہلکاروں کی تربیت و نگرانی کی جائے تاکہ رشوت و سفارش کا خاتمہ
ہو
۶۔ عوام کو قانونی اداروں کے ساتھ تعاون کرنے کی تعلیم اور شعور دیا جائے
۷۔بنیادی انسانی حقوق پر سب کا حق تسلیم کیا جائے
۸۔ صحت کے سہولتیں امیر و غریب کے لئے ایک جیسی ہونی چاہیے
یہ ہم نے کم از کم خصوصیات کا ذکر کیا ہے ۔ جب تک ہم عوام کو اسلامی نظام
ریاست و سیاست سے آشنا نہیں کریں گے ، عوام کو آٹے کی بوری اور برادری سے
باہر نہیں نکالیں گے تب تک ، پاکستان بحرانات سے نہیں نکل سکتا اور عوام کے
دکھوں کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ |