جب ہم نے کہا آپ برا مان گئے

7 فروری2018ء کے اخبارات میں دخترانِ ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی صاحبہ کاہڑتال سے متعلق بیان پڑھنے کو ملا جس میں انھوں نے کہاہے کہ’’ہڑتالوں سے ہم آزادی حاصل نہیں کر سکتے ہیں اوریہ کہ متحدہ قیادت کے پاس نقشِ راہ نہیں ہے ‘‘۔میں نے یہ بیان پڑھنے کے بعد ہڑتال سے متعلق لکھی پرانی فائیلیں کھنگالیں تو معلوم ہوا کہ میں نے اسی عنوان پر مختلف مواقع پر نو کے قریب مضامین لکھے ہیں ۔انہیں دوبارہ پڑھنے کے بعد محسوس ہوا کہ پہلے ان میں سے چند ایک سطور قارئین کرام کی دلچسپی کے لئے پھر پیش کروں تاکہ پتہ چلے کہ’’ہڑتال‘‘سے متعلق جب ہم نے کہا تو آپ برامان گئے ۔میں نے 11اگست2009ء کو اپنے شائع شدہ مضمون بعنوان ’’ہڑتال شوق یا مجبوری‘‘میں لکھا تھا کہ ’’ ہڑتالوں اور احتجاجوں کے اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کے قبضے کے بعد سر زمین کشمیرپر جتنے ہڑتال اور مظاہرے ہوئے ہیں اس کی مثال دنیا کے کسی بھی خطے کی موجود نہیں ہے۔احتجاجوں اور ہڑتالوں کا سلسلہ مہاراجہ ہری سنگھ کے وقت سے شروع ہوا ہے یہ آگے کب تک جاری رہے گا اس کے متعلق کوئی بھی شخص پیشن گوئی نہیں کر سکتا ہے ۔ہڑتال اب یہاں زندگی کا ایک جز بن چکا ہے ۔اس حوالے سے لوگوں کے درمیان اختلاف آرأ موجود ہے کچھ اس سے نالاں ہیں اور کچھ مطمئن۔دلا ئل دونوں طرف موجود ہیں البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہڑتال کرانے کا شوق کسی کو نہیں ہے کال دینے والے حضرات اسے ان کی ایک مجبوری قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک ہڑتال ہی ایک واحد ہتھیار ہے جس سے عالمی دنیا تک کشمیر کے مظلوم لوگ اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں کہ کشمیری بھارتی تسلط سے مطمئن نہیں ہیں اور وہ بھارت کے قبضے سے نجات چاہتے ہیں ۔ہڑتالوں سے ہو رہے نقصان کا اعتراف طرفین کو تو ہے مگر ہڑتال حامیوں کا کہنا ہے کہ آزادی کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے جس کا رونا مخالفین روتے ہیں ۔دہلی سے لیکر کشمیر تک ہر سیاستدان اور فوجی افسر ہڑتالوں سے کافی بے چین دکھائی دیتا ہے اور انکی بے اطمینانی اپنی جگہ بجا ہے اس لئے کہ مسلسل ہڑتالوں سے ریاستی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے ۔مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے کشمیر ی عوام یا دہلی کے حکمران جو ہڑتالوں کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ ہڑتال کا ان پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا اور عوام ہیں کہ بے یارو مدد گار ۔

2 جون2011ء کو ہم نے ایک اور مضمون بعنوان’’ہڑتال مضر یا مفید ایک ناگزیر بحث ‘‘میں عرض کیا تھا’’ ہڑتال احتجاج کا ایک پر امن طریقہ ہے یہ اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے یا منوانے کا سب سے مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا ہے اس کی اہمیت آج کے میڈیائی دور میں اور بھی بڑھ چکی ہے ۔ساتھ ہی ساتھ یہ حکومت کے لئے ایک طرح سے ذلت او ر ناک کٹ جانے کے مترادف تصور کیا جاتا ہے اس لئے کہ اس سے حکومت کی ناکامی اور نااہلی ہی نہیں بلکہ اس کا عوامی مسائل کو درست طریقے پر نہ سمجھنے اور حل نہ کئے جانے کا ایک جیتا جاگتا ثبوت خیال کیا جاتا ہے ۔ہڑتال کے کئی طریقے اس وقت دنیا میں رائج ہیں اور ان میں سب سے تباہ کن ہڑتال’’ مکمل طور پر دکانیں بند اورپہیہ جام جس سے سڑکیں سنسان اور ویران نظر آتی ہیں‘‘ہوتا ہے۔ اس قسم کی’ معیشت کو تباہ کرنے والی ہڑتال‘ گذشتہ تییس سال(تب تییس اور اب اٹھائیس برس) میں سب سے زیادہ وادیٔ کشمیر میں کی گیٔ ہے اور نہ معلوم آگے مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک اور بھی کتنی ہڑتالیں کرنی ہوں گی اور پہلے سے تباہ شدہ کشمیر کی معیشت کو یہاں پر کی جانے والی ہڑتالیں اور کس قدر بھسم کر کے رکھدیں گی اس کے متعلق کوئی پیشن گوئی کرنا کسی کے لئے ممکن ہی نہیں ہے اس لئے کہ مسئلہ کشمیر کی حوالے سے بھارتی حکمران ابھی بھی غیر سنجیدہ ہیں‘‘۔ جہاں تک کشمیر میں ہڑتالوں سے آزادی پسند قیادت کے پرہیز کرنے کا تعلق ہے یہ ایک سنجیدہ موضوع ہے اس پر اب تک بہت سے قلمکاروں اور دانشوروں نے لکھا ہے اور بہت خوب لکھا ہے۔میرے خیال میں اس سب کے بیچ جو چیز مفقود پائی گئی وہ ہے ہڑتالوں کے برعکس دوسرے پر امن احتجاجی اسباب ،ذرائع اور طریقہ کار کے اختیار نہ کرنے کا ہے اور ما شاء اﷲ ہماری قیادت نے اس پرکبھی بھی غور نہیں کیا اور نہ ہی ان سے اس سلسلے میں آئندہ کوئی امید وابستہ کی جانی چاہئے کیونکہ گذشتہ بیس برسوں(اب اٹھائیس برسوں) سے یہ ہمارے مشاہدے میں باربار آیا ہے کہ کوئی تجویز اور مشورہ ایک طرح سے بالکل فضول عمل اور مشقت ہے اس لئے کہ انھوں نے اپنے آپکو لقمانِ وقت سمجھ رکھا ہے حالانکہ مکمل اور مسلسل ہڑتالوں کے نتیجے میں خود تحریک آزادی پر انتہائی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس لئے کہ یہاں کے غریب عوام اپنے اور اپنے بچوں کے سلسلے میں بہت ہی پریشان ہیں، جو اپنے بچوں کی پیٹ کی آگ بھجانہیں پاتے ہیں پھروہ ان کی اچھی اور میعاری تعلیم کا بندوبست کس طرح کر سکتے ہیں ؟اور میرا یہ ماننا ہے کہ کوئی باپ اپنے بچے کو بھوک سے تڑپتا نہیں دیکھ سکتا ہے ہمارے سماج میں آج بھی ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو خطٔ افلاس سے بھی نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔

12اکتوبر2016ء کو میں نے ایک اور مضمون بعنوان ’’اجتماعی احتساب ناگزیر‘‘کے تحت عر ض کیا تھا کہ ’’2010ء میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ نوجوانوں کی ایک تعداد لیڈر شپ پر ’’بکنے اور جھکنے کا شرمناک الزام ‘‘تک عائد کرتی ہے ۔سوشل میڈیا آج کل اس طرح کی خبروں سے بھرا پڑا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر قیادت نے 2010ء کے ایجی ٹیشن سے کچھ سیکھنے کے بجائے کچھ مختلف کرنے کا حوصلہ2016ء میں کیوں نہیں کیا؟قیادت نے عوامی موڑ کے مطابق اپنی کشتی کیوں بے رحم سمندر کے لہروں کے سپرد کردی ؟اس کے لئے صرف قیادت کو موردِ الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے بلکہ ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانک لینا چاہیے کہ ہم نے 2010ء میں ہڑتال سے متعلق جو تاثر تخلیق کیا تھا اس نے لیڈرشپ کو اس حد تک پہنچا دیاہے کہ وہ ’’خالص دانشوارانہ طریقے اور بصیرت‘‘پر بہتر سیاسی فیصلوں کے برعکس عوامی مزاج کے اتاروچڑھاؤ کو ہی مد نظر رکھتے رہے ۔ہم نے 2010ء میں لیڈرشپ سے متعلق کھلے عام یہ کہا کہ اگر ان حضرات نے ہڑتال ختم نہ کی ہوتی تو ’’آزادی‘‘اپنے تمام تر جمال و کمال کے ساتھ کشمیریوں کا مقدر بن چکی ہوتی اور حیرت یہ کہ جن ’’خود ساختہ دانشوروں‘‘کواس وقت تین مہینے کے ہڑتال کی کوکھ سے آزادی جنم لیتی ہوئی نظر آرہی تھی انہی دانشوروں کو آج اس کے برعکس اسے ہزار گنا سخت اور شدید بلکہ پر تشدد احتجاج سے سو فیصد مایوسی ہوئی ہے ۔یہ سوال ان کی دانشورانہ بصیرت پر ہے تحریکی قیادت اور اسے جڑی عوام پر نہیں ۔مجھے یا د آرہا ہے کہ میں نے جب ایک محفل میں ’’صف دوم‘‘کے مشہور قائدین اور دانشوروں کے ساتھ نومبر 2010ء میں ملاقات کی تو وہ لیڈرشپ کو موردِ الزام نہ ٹھہرانے کی میری گذارش سے طیش میں آگئے ،میں چپ چاپ کئی گھنٹوں تک ان کی خوش گمانیوں پر اندر ہی اندر کڑھتا رہا ۔جب ہڑتالوں سے متعلق دانشوروں کے تصورات کا حال اس قدر سطحی ہو اور ان کی باتیں عوام الناس میں پھیل چکی ہوں توآپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چھ برس بعد جب 8جولائی2016ء کو دوبارہ ’’کلینڈروں‘‘کا آغاز کیا گیا تولیڈرشپ کے ذہن میں کن کن خدشات نے جنم لیا ہوگا اس لئے کہ وہ بھی ہماری طرح ہی کے انسان ہیں کوئی فرشتے یا مافوق الفطرت مخلوق نہیں۔

اسی طرح میں نے اکتوبر2016ء کو ’’ برہان،ہڑتال ،ڈیل اورکشمیری عوام ‘‘کے عنوان کے تحت اپنے مضمون میں عرض کیا تھا کہ ’’ 2016ء میں لیڈر شپ اس وہم میں مبتلا ہو گئی کہ اگر انھوں نے ہڑتال ختم کر دی تو انھیں عوامی غیض و غضب کا نشانہ بننا پڑے گا حالانکہ ہڑتال کی ابتدائی حدت صرف جنوبی کشمیر تک ہی محدود تھی اور اب صورتحال یہ ہے کہ ہڑتال بہر کیف ختم کرنی ہے اس لئے کہ ایک قوم اتنی طویل ہڑتال کا جو کھم نہیں اٹھا سکتی ہے جتنا کشمیریوں نے اب تک اٹھارکھاہے ۔ہڑتال سے متعلق غلط فہمیاں پھیلانے میں ہم سب کا انتہائی کلیدی رول رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہڑتال کے آپشن کو استعمال کرتے کرتے ہم نے ہڑتال کی ’’معنوی اور حسی اہمیت ‘‘خود ہی ختم کر دی ہے ۔کشمیر کے مظلوم قوم کی ’’تحریک آزادی‘‘کی یہ چند علامات تھیں جنہیں ہم نے خود ہی غیر متعلق کر دیا ہے ۔ہر عقل مند اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ چند لاکھ کی ایک محدود قوم سواارب انسانوں کے ایٹمی اور معاشی قوت کے ساتھ جنگ نہیں لڑ سکتی ہے سوائے ’’ طویل المدتی حکمت سے بھر پور علاماتی تحریک ‘‘ کے ذریعے جس میں جارح کا زیادہ اور مجروحین کا کم سے کم نقصان ہو ۔ کشمیر میں موجود بندوق کا مقابلہ بھارت کے بندوق سے کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے اس لئے کہ کہاں پچیس لاکھ فوج جن میں سے آٹھ لاکھ کو جموں و کشمیر میں ہی بٹھا دیا گیا ہو اور کہاں چند سو نہتے ’’مجاہدین‘‘جن کی ٹریننگ سے لیکر اسلحہ تک ’’عسکری لغت‘‘میں نا ہی ٹریننگ اور نا ہی اسلحہ قراردیا جا سکتا ہے ۔ میرے خیال میں بندوق،پتھر اور ہڑتال علاماتِ ناراضگی ہیں بھارت کے تکبر کو مٹانے والی قوت نہیں اور ہم ’’لقمانِ دوراں‘‘کے زعم میں مبتلا کشمیریوں نے ان علامات کو بھی اپنی حماقتوں سے ناکارہ کردیا ہے ۔

ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ2016ء میں مسلسل ہلاکتوں اور گرفتاریوں کے بعد لامتناہی ہڑتالوں اور احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کی حدت میں بعدمیں کمی ضروری آئی ہے مگر اثرات کو آج 2018ء میں بھی اچھی طرح محسوس کیا جا سکتے ہیں ۔آزادی پسند قیادت جو بے رحم حالات کے اندیشوں کے بعد ’’رسمی طور پر ‘‘ایک صف میں کھڑی نظر آتی ہے نے سیاسی غلطی کر کے 2010ء کے طرز پرکلینڈر دینے شروع کر دئیے ۔جواز یہ پیش کیا گیا کہ عوام ہڑتال ختم کرنے کے حق میں بالکل نہیں ہے ۔لیڈر شپ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوامی جذبات کی لہر میں خود بہہ نہ جائے بلکہ سانس روک کر اس کے تمام تر منفی نتائج پر گہری نظر رکھتے ہو ئے قدم بڑھانے یا روکنے کا فیصلہ کریں ۔حقیقت یہ بھی ہے کہ ’’لیڈرشپ کو دباؤ میں رکھ کر پریشان ‘‘کرنے کی بات بھی جھوٹی نہیں ہے ۔مستند اور مصدقہ اطلاعات کے مطابق ’’دھمکی آمیز خطوط سے لیکر وفودتک ‘‘بہت ساری تنظیموں اور انجمنوں نے اس طرح کی کوششیں کر کے ہڑتال کو ختم نہ کرانے میں کامیابی حاصل کی ۔لیڈر شپ کو کھلے عام دباؤ میں رکھنے کی کامیاب کوشش اس وقت بھی ہو ئی جب سید شاہ گیلانی کے گھر پر تمام اسٹیک ہولڈرس کی میٹنگ کے وقت نوجوانوں کی بھیڑ نے باہر جمع ہو کر قیادت کے خلاف نعرہ بازی کی حتیٰ کہ محمد یسٰین ملک نے باہر آکر انھیں سمجھانے کی کوشش کی۔ یہاں یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ نوجوانوں کی ایک تعداد لیڈر شپ پر ’’بکنے اور جھکنے کا شرمناک الزام ‘‘تک عائد کرتی ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر قیادت نے 2010ء کے ایجی ٹیشن سے کچھ سیکھنے کے بجائے کچھ مختلف کرنے کا حوصلہ کیوں نہیں کیا؟

اب جہاں تک لیڈرشپ کا عوامی موڑ پر تحریک کو منحصر رکھنے کی بات کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں اور میں اپنے نقطہ نگاہ میں غلط بھی ہو سکتا ہوں کہ کوئی بھی تحریک عوامی تعاون اور حوصلوں کے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ قیادت کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ تحریک کے لئے ’’حکمت عملی ،منازل اور پروگراموں کا تعین خالص قیادت کا کام ہوتا ہے کسی عوام کا نہیں ۔آخر قیادت کس مرض کی دوا ہے جو صرف حالات کی بے رحمی یا عوامی موڑ کا ہی رونا روتی رہے گی ۔لیڈر ہر رنگ میں رنگ جانے والوں کا نام نہیں ہے بلکہ اس کا مخلص ہونے کے ساتھ ساتھ حکمت کے جوہر سے متصف ہونا بھی ضروری ہے تاکہ وہ صحیح وقت پر درست قدم اٹھا سکے جیسا کہ علامہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں ’’حکمت یہ بھی ہے کہ آدمی(لیڈر)اس وقت کے حالات پر نظر رکھتا ہو،مواقع کو سمجھتا ہواور یہ سمجھتا ہو کہ کس موقع پر کیا تدبیر کی جانی چاہیے حالات کو سمجھے بغیر اندھا دھند قدم اٹھادینا،بے موقع کام کرنا اور موقع پر چوک جانامغفل لوگوں کا کام ہے ۔اورایسے لوگ خواہ کتنے ہی پاکیزہ مقصد کے لئے کتنی ہی نیکی اور نیک نیتی کے ساتھ کام کر رہے ہوں ،کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں (تحریک اور کارکن)لیڈر بھیڑ اور عوام کو دیکھ کر اپنی منزل متعین نہیں کرتا ہے بلکہ اس میں ہواؤں کا رخ بدلنے کا حوصلہ ہوناچا ہیے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ نہ خود مایوس ہو اور نہ ہی قوم میں مایوسی کو گھر کرنے کی گنجائش پیدا کرے ۔ہاں ساتھ چلنے والوں کو بھی معلوم ہو نا چاہیے کہ جھوٹی تسلیاں دیکر قوم کو چند ایام تک غلط فہمی میں رکھا جا سکتا ہے مگر ہمیشہ ہمیش کے لئے نہیں ۔

بد نصیبی یہ ہے کہ ہم ایک جذباتی قوم ہے جوہر مسئلے کو جذبات کی عینک سے ہی دیکھتی ہے ۔جذباتی ہونا برا نہیں ہے پراگر ہم ہر مسئلہ جذبات کے ہی آئینے سے جانچتے رہیں گے تو پھرعلم و حکمت اوردانش ہم سے روٹھ جائیں گے ۔ہم بھارت سے حق مانگتے ہیں اور اس کے لئے صرف جذبات سے کام نہیں چلے گا یہ صفت مظلومین میں قدرتی ہو تو سونے پر سہاگہ ورنہ لیڈروں کی بدنصیبی کہ ہر دن لوگوں کو اس دشوار ترین مہم کے لئے آمادہ کرنا ہوگا۔ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہڑتال تحریک کا ایک حصہ ہو سکتا ہے پر ’’تحریک ‘‘نہیں کہ اگر ہڑتال ختم کردی توتحریک بھی ختم ۔ہڑتال سے متعلق ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم طویل ہڑتالوں کے باربار متحمل نہیں ہو سکتے ہیں اور اگر ہم نے یہ سلسلہ جاری رکھا تو قوم تنگ آکر آمادہ بغاوت ہو سکتی ہے ۔میں نے 2010ء اور2016ء میں بعض غیبی قوتوں کو بھی دیکھا کہ وہ ہڑتال کوحکومت کے خاتمے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہو ئے آخری درجے کے تشدد تک لے جانا چاہتے تھے۔میں نے کئی بڑے بڑے اجتماعات میں (جن میں کم و بیش لوگ پچاس ہزار سے لیکر تین لاکھ تک ہوتے تھے)مقررین کو آگ اورشعلے برساتے ہو ئے سنا حتیٰ کہ میں نے کئی اجتماعات میں لوگوں سے تلقین کی کہ ’’لیڈرشپ جب ہڑتال ختم کرنے کی اپیل کرے گی ہمیں ہڑتال ختم کرنی چاہیے‘‘ اس لئے کہ بعض مقررین نے ان عوامی اجتماعات میں کھلے عام یہ تک کہا تھاکہ ’’خبردار!2010کی طرح پیسہ لیکر ہڑتال ختم کرنے والوں کی بات پر کان نہ دھرنا۔کئی مقامات پر براہ راست حریت کانفرنس کا نام لیکر یہ تک بتایا گیا کہ انہی حضرات نے پیسہ لیکر گذشتہ ہڑتالیں ختم کرادی ہیں ۔جو لوگ میرے سمیت حریت والوں سے ہڑتال کو لمبا کرنے پر ناراضگی جتاتے ہیں انھیں اس صورتحال کا بھی ادراک کر لینا چاہیے کہ لیڈرشپ کو کس طرح اپنے پیچھے چلانی کی کوششیں کی گئیں باوجوداُس سب کے حریت کو فوائد و نقصانات کا بھر پور ادراک کرتے ہو ئے اندیشوں سے اوپر اٹھ کر فیصلہ لینا چاہیے تھا۔

حیرت یہ کہ جب بھی ’’دانشوران کشمیر‘‘سے ہڑتال کا متبادل پیش کرنے کی اپیل کی گئی تو ان کے لب نہیں کھلے آخر کیوں؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اجتماعی طور پر دانشورانہ بصیرت ہی سے محروم ہو چکے ہیں !اگر نہیں اور اﷲ کرے کہ نہیں ہی اس کا جواب ہو تو پوچھا جا سکتا ہے کہ پھر ہم لیڈرشپ کے پاس جا کر انھیں متبادل کے بجائے مختصر کرنے کی تلقین کے برعکس اس کے لمبا کرنے پر لچھے دار تقریریں کیوں کرتے ہیں ؟کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اگر سال بھر کے ہڑتال کے بعد بھی ’’دلی سرکار‘‘چپ سادھ لئے بیٹھ جائے گی تو ہمارے لئے ہڑتال کا آپشن محدود نہیں ختم ہو جائے گا ۔مجھے یاد آرہا ہے کہ کشمیر میں لیڈرشپ سے لیکر دانشوروں تک بہت سوں میں متضاد اور عجیب مزاج ہے ۔یہ خود آج جس چیز کے وکیل ہوتے ہیں کل اسی کی مخالفت کرتے ہیں اور کبھی اس کے برعکس جس کے آج مخالف ہیں کل اسی کے وکیل اور یہ سیاسی بصیرت نہیں بلکہ تند و تیز لہروں کا ردعمل ہوتا ہے ۔جب میری ہی طرح بہت سے دانشوروں اور علماء نے ہڑتال مختصر کرنے کی اپیل کی تو ہمارے آزادی پسند لوگ برا مان گئے اور ان کے خیال میں بھارت کا علاج ہی ایک سخت ہڑتال تھی جو 2016ء میں سخت ترین کے بعد نتائج کے اعتبار سے ہمیں ہی پریشان کر چکا ہے اور اس سچائی کا اعتراف کرتے ہو ئے کہ برہان کی شہادت کے بعد جو ہڑتال ہوئی نے بھارت کو سخت ترین بوکھلاہٹ میں مبتلا کردیا تھا۔مگر برے اثرات کشمیریوں پر ہی مرتب ہو گئے اس لے کہ نئی دلی میں براجمان شخص انتہائی سنگدل انسان ہے ۔

altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 83651 views writer
journalist
political analyst
.. View More