کراچی میں کئی دہائیوں بعد امن امان کی بہترہوتی صورتحال،
اور امن امان کے قیام کے بعدشہریوں نے سکھ کا سانس لیا اور اس کا کریڈٹ بجا
طور پر سندھ رینجرز اور پاک فوج کو جاتاہے۔الیکشن2013ء کے بعد جنرل راحیل
شریف کے کمان میں شروع ہونے والے آپریشن ضرب عضب نے امن کے سفر کی شروعات
کی جس میں اس وقت وقت کے ڈی جی رینجرز سندھ ، لیفٹینٹ جنرل رضوان اختر اور
کور کمانڈ کراچی لیفٹینٹ نوید مختار نے انتھک محنت کی اور تہہ در تہہ پھیلی
اور کراچی کے گلی کوچوں تک میں سرایت کی ہوئی دہشت گردی اور ملک دشمن
سرگرمیوں کے خلاف انتہائی مؤثر اور مربوط آپریشن شروع کیا گیا، جوک کسی بھی
سیاسی ،مذہبی ،لسانی ،اور نسلی تنظیم یا جماعت کے خلاف نہیں بلکہ جیسا کہ
کراچی میں رواج پڑچکا تھا کہ کوئی بھی جماعت ہو یا تنظیم خواہ سیاسی ہو یا
مذہبی ،لسانی ہو یا فرقہ پرست اور نسلی سب نے مسلح بدمعاشو ں کے جتھے پالے
ہوئے تھے ،اور ایک دوسرے کو سڑکوں پر کبوتروں کی طرح شکار کرتے پھرتے
تھے،اس اور ہر تنظیم اور جماعت کو اپنی دکان چمکانے کے لئے تاز ہ
’’شہیدوں‘‘ کی ایک کھیپ ہمیشہ دستیاب ہوتی تھی۔اور جس کے پاس ان جانثار
فوجیوں کی تعداد زیادہ ہوتی اور اسلحہ وافر اور جدید ہوتا ، ٹارگٹ کلنگ ،
اور دہشت گردانہ کاروائیوں کرنے کی قابلیت زیادہ ہوتی وہی سب سے زیادہ مال
اکھٹا کرپاتی جوکہ ان کے ’’قائدین ‘‘تک پہنچتا اور کراچی کی گلی کوچوں کے
رہنے والے کم عمر ، ان پڑھ یا نیم پڑھے لکھے کچے ذہن کے نوجوان اس جنگ کا
ایندھن تھے ۔
18مارچ 2015ء کو MQM کے مرکز نائن زیرو پرچھاپے کے بعد وہاں سے بھاری مقدار
میں اسلحہ اور کئی کئی درجن قتل میں ملوث اور سزا یافتہ جرائم پیشہ عناصر
کی گرفتاری کے بعد سے کراچی میں امن امان کی صورتحال بتدریج بہتر ہونے لگی
اس کے ساتھ ساتھ ہی جرائم کے مرکز اور گینگ وار کے گڑھ لیاری میں بھی
کاروائیاں عمل میں لائی گئیں اور لیاری پر راج کرنے والے گینگ کے اکثر
ٹارگٹ کلرز اور شوٹرز یا تو مار دئیے گئے یا گرفتار کرلئے گئے ،اس تمام
واقعات میں سب سے اہم کامیابی عزیر بلوچ کی گرفتاری تھی اور ساتھ عزیر بلوچ
کے سابقہ ساتھی اور دست راست بابا لاڈلا کی قانون نافذکرنے والے ادارو ں کے
ہاتھ موت کے بعد لیاری میں قدرے سکون ہوگیا ۔او ر اب اکا دکا واقعات کے
علاوہ لیاری مجموعی طورپر ایک پرسکون اور پر امن علاقہ بن چکا ہے ۔
مگر یہ سب کامیابیاں عسکری اداروں خصوصاً رینجرز کی حاصل کردہ ہیں اور ان
علاقوں کے بد نصیبی دیکھئے کہ جو بڑے بڑے مجرم تھے وہی کراچی کے سیاسی وارث
بھی تھے انہی کے لوگ کراچی سے ممبر ان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینٹر
منتخب ہوکر ایوانو ں بیٹھے مگر ہماری عسکری اداروں نے نہایت حکمت عملی سے
ان کے اثر رسوخ کو زائل کیا اور اب کراچی کے اکثر منتخب نمائندے مختلف
کیسوں میں عدالتوں کے پیشیاں بھگت رہے ہیں ۔اور کچھ مقدمات ایسے بھی ہیں جو
فیصلے کے قریب ہیں۔
ان فوائد کے علاوہ کچھ نقصانات بھی اہل کراچی نے اس آپریشن کے نتیجے میں
برداشت کئے جن میں سر فہرست سول حکومت چاہے وہ ،وفاقی ہو ، صوبائی ہو یا
مقامی شہری حکومت تمام کے تمام لوگ اپنی اپنی کھال بچانے میں مصروف نظر آئے
اور کراچی کے عوامی کی بنیادی ضروریات اور مسائل بری طرح نظر انداز ہوئے ۔
کراچی میں کوئی ٹرانسپورٹ کا نظام سرے سے موجود نہیں ہے ،کراچی میں بلدیاتی
ادارے عملاً مفلوج نظر آتے ہیں پورا شہر کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے،
ہسپتالوں میں دوائی ہے نہ ڈاکٹر ، سڑکیں موئن جو دڑو سے بھی بدتر ہوچکی ہیں
اور مین شاہراہوں پر گٹر کا تعفن زدہ پانی کھڑارہنا معمول بن چکا ہے ۔جو
سڑکیں موجود ہیں وہ نام نہاد ترقیاتی اسکیموں کی وجہ سے کھود کر چھوڑ دی
گئی ہیں اور کوئی متبادل راستہ فراہم نہیں کیا گیا ،لاکھوں کروڑوں شہریوں
کو اپنے کام سے گھر اور گھر سے کام پر پہنچنے میں جس اذیت کا سامنا کرنا
پڑتا ہے وہ کراچی کے شہری ہی جانتے ہیں ۔
کراچی جو کہ عروس البلاد یعنی ’’شہروں کے دلہن‘‘ کہلاتاتھا اب بدبو ، گندگی
ڈھیروں ،دھویں ،اور گرد و غبار سے اٹا پڑا ہے اور تاحال کوئی ان مسائل کے
حل کے بارے میں کوئی پلاننگ تو دور اس پر بات بھی نہیں کرتا بس الیکٹرونک
میڈیا پر کچھ رپورٹس دکھا دی جاتی ہیں جس پر ہمارے حکمران غور کرنے پر تیار
نہیں ہیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح کراچی کے امن وامان کو بحال کرنے کے لئے جنگی
بنیادوں پر آپریشن کئے گئے تھے اسی طرح کراچی میں شہری سہولیات کی فراہمی
کے لئے بھی جنگی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔مگر اس کے لئے کراچی کے
شہریوں کو بھی جو اب خوف کی زنجیروں سے آزاد ہوچکے ہیں انہیں سوچنا ہوگا
،خاص طور پر آنے والے الیکشن میں کہ اگر انہوں نے اس بار بھی اپنے ووٹ کا
استعمال ٹھیک طریقے سے نہ کیا اور جانتے بوجھتے ایسے لوگوں کو منتخب کیا جو
اِن کے تمام مسائل کے ذمہ دار ہیں تو پھر اصلاح احوال کی کی گنجائش نہیں
،ساتھ ساتھ اربا ب اختیار خصوصاً اسٹیبلشمنٹ کو بھی چاہیے کہ کراچی میں
مسائل ادراک کرتے ہوئے یہاں صحت مند سیاسی سرگرمیوں کی بحالی کا بیڑا
ٹھائیں جس طرح وزیرستان ، فاٹا اور بلوچستان میں بحالی کے پیکجز دئیے گئے
ہیں ، کراچی تو اس طرح کے پیکیجز کا زیادہ مستحق اور ضرورت مند ہے کیونکہ
کراچی کی سیاسی قیادت تواپنے وقعت کھو چکی ہے اور بری طرح طشت ازبام ہوچکی
ہے۔اور سب چہروں سے نقاب اُترچکے ہیں کاش اس شہر نا پرساں پر کسی صاحب
اختیار کی نظر پڑے اور اس کی کروڑوں بے نوا عوام کے مسائل حل کرے؟ |