وزیراعظم کے مشیربرائے قومی سلامتی امورلیفٹیننٹ جنرل
ریٹائرڈناصرخان جنجوعہ کاایک انٹرویوکے دوران کہناتھا کہ واچ لسٹ میں نام
شامل کرنے کی دھمکیوں سے پاکستان کودباؤمیں ڈالاجارہاہے اپنی ناکامیوں
کوپاکستان سے منسوب کرنادرست نہیں۔پاکستان کوجکڑنے کی کوششوں سے دہشت گردی
کے خلاف جنگ متاثرہوگی۔افغانستان کاپاکستان کے خلاف باتیں کرنادونوں ممالک
کے مفادمیں نہیں۔ناصرخان جنجوعہ کاکہناتھا کہ معاونت کے فریم ورک میں رہ
کرامریکا اورسب سے مل کرکام کرناچاہتے ہیں۔واچ لسٹ میں نام ڈالنے جیسے
ہتھکنڈے درست نہیں ہیں۔واچ لسٹ میں نام ڈالناامن کے خلاف اقدامات ہیں۔ان
کاکہناتھا کہ پاکستان کوجکڑنے کی کوششوں کااثرپورے خطے پرپڑے گا۔پاکستان
اپناکام خوش اسلوبی سے کررہاہے۔سینٹ کوبتایا گیا ہے کہ پاکستان نے منی
لانڈرنگ اوردہشت گردی کے لیے مالی معاونت کی روک تھام کے لیے کسی بھی ملک
سے زیادہ اقدامات کیے ہیں۔پاکستان کوگلوبل ٹیررسٹ فنانسنگ لسٹ میں شامل
کرنے کی تحریک خطرناک حرکت ہے ایساسیاسی دباؤکی وجہ سے کیاجارہا ہے۔گرے لسٹ
میں شامل ہونے سے ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈزکے حصول میں مشکلات پیش آئیں
گی۔پاکستان این ایف سی ایوارڈ سے متعلق آئی ایم ایف کی رپورٹ پرعمدرآمدکرنے
کاپابندنہیں ہے۔بھارتی سرپرستی میں امریکا سمیت مختلف ممالک میں پاکستان
مخالف مہم چلائی جارہی ہے۔پاکستان نے اس پرشدیدردعمل کااظہارکیاہے۔امریکی
قانون کے تحت اس حوالے سے مناسب قانونی کارروائی کی کوئی گنجائش نہیں
ہے۔چیئرمین سینٹ رضاربانی کاکہناتھا کہ آئی ایم ایف ہمیں ڈکٹیٹ نہیں
کرسکتاکہ ہم اپنے وسائل کس طرح کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف کوآئین پاکستان کے
آرٹیکل ۰۶۱ کاپتہ نہیں ہے۔رضاربانی کاکہناتھا کہ پاکستان کسی کی کالونی
نہیں ہے کہ کوئی ہمیں ڈکٹیٹ کرے۔اسلام آبادمیں پائیدارترقی بارے میں رپورٹ
کے اجراء کی تقریب سے بعدصحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے وزیرداخلہ احسن اقبال
نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمدکوکسی بین الاقوامی ایجنڈے سے
جوڑنااسے شکست اورسبوتاژکرنے کے مترادف ہے۔ان انتہاپسندقوتوں کوبہانہ دینے
کے مترادف ہے کہ ہمارے خلاف کارروائی امریکاکے دباؤپرکی جارہی ہے۔جب کہ
ایسانہیں ہے۔اگرایسے اقدام کے ذریعے پاکستان کوکوئی پاکستان کوکوئی اقتصادی
نقصان پہنچایاجاتاہے تواس کا اثر ہمارے بجٹ پرپڑے گاہم اپنے بجٹ سے ہی دہشت
گردی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں۔ہم اپنے بجٹ سے ہی اپنی سیکیورٹی فورسزکووسائل
فراہم کررہے ہیں ۔ اگرہمارے بجٹ اوروسائل پرکسی قسم کی زدڈالی جائے گی تواس
سے ہماری دہشت گردی کے خلاف صلاحیت متاثرہوگی توکیایہ ممالک دہشت گردوں کی
مدد کرنا چاہتے ہیںیادہشت گردی کے خلاف جنگ کی مددکرناچاہتے ہیں۔مجھے
امیدہے کہ بین الاقوامی برادری پاکستان کی قربانیوں اورکوششوں کاضروراعتراف
کرے گی اورایساکوئی قدم نہیں اٹھائے گی جس سے ہمیں دہشت گردی کے خلاف اپنی
کوششوں میں رکاوٹ کاسامناکرناپڑے۔ میڈیابریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ
کی ترجمان ہیدرنورت نے میڈیانمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات درست
ہے کہ پاکستان کوعالمی دہشت گردوں سے متعلق واچ لسٹ میں شامل کرنے کی تحریک
پیش کی گئی ہے۔اس نے کہا کہ امریکاکوکافی عرصے سے اس بات پرتشویش ہے کہ
پاکستان منی لانڈرنگ اوردہشت گردی کے حوالے سے کوتاہیاں برت رہاہے۔ اس لیے
امریکاچاہتا ہے کہ پاکستان کونگرانی کی فہرست میں شامل کیاجائے۔ہیدرنورت نے
کہا کہ یہ معاملہ صیغہ رازکاہے۔اس لیے اس بارے میں ابھی اورکچھ نہیں
بتایاجاسکتا۔واضح رہے کہ دوروزقبل ایک اعلیٰ پاکستانی عہدیدارنے کہاتھا کہ
امریکاکی جانب سے چندہفتوں قبل ایک تحریک پیش کی گئی تھی جس کے مطابق
پاکستان کوعالمی دہشت گردوں سے متعلق مالیاتی واچ لسٹ میں شامل کیے جانے
کاامکان ہے۔جس کی نگرانی منی لانڈرنگ پرنظررکھنے والاگروپ کرے گا۔دوسری
جانب پاکستانی مشیرخزانہ مفتاح اسماعیل کاکہناتھا کہ اس حوالے گفت
وشنیدجاری ہے۔ہمیں امیدہے کہ ہم اس بات میں کامیاب ہوجائیں گے کہ پاکستان
کوواچ لسٹ میں شامل نہ کیاجائے۔امریکاکی جانب سے پاکستان کو دہشت گردوں سے
تعاون کی واچ لسٹ میں شامل کرنے کی تجویز کوامریکی تھنک ٹینک ووڈ روولسن نے
یکسرمستردکردیا۔تھنک ٹینک میں شامل تین ماہرین نے واضح کہا ہے کہ پاکستان
کودہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے سے امریکاکی پریشانیوں میں تنزلی نہیں
آئے گی۔ایسا کرنے سے امریکااسلام آبادکواپنی پالیسی میں تبدیلی کے لیے
مجبورنہیں کرسکتا اورنہ ہی امریکا افغانستان میں اپنے مقاصدکے حصول میں
کامیاب ہوسکے گا۔غیرملکی میڈیاکے مطابق سکول آف پبلک افیئرکے اسسٹنٹ
پروفیسراسٹیفن ٹینکلنے تجزیہ پیش کیا ہے کہ پاکستان کودہشت گردوں کاسہولت
کارقراردیناانتہائی خطرناک ہے۔اس طرزعمل سے خطے میں پیداکردہ امریکی صورت
حال کے خاتمے کی گنجائش ختم ہو جائے گی۔ریڈیومشال کے سینئرایڈیٹردادخٹک نے
بھی امریکا کی تجویزکوغیرموثرقراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرآج پاکستان کودہشت
گردوں کاسہولت کار قرار دیاگیا اورکوئی تبدیلی نہ آئی توامریکاکااگلاقدم
کیاہوگا۔کیاوہ مزیدبدترقدم اٹھائے گا۔واضح رہے کہ جرمنی کے شہرمیونخ میں
سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمرجاویدباجوہ
نے پاکستان میں دہشت گردی اورجہادکے حوالے سے مغرب میں پائی جانے والی غلط
فہمیوں پرروشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان چالیس برس قبل جوبویاگیاتھا
اس کوکاٹ رہاہے۔اورسرحدکے ساتھ افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے
ہیں۔جب کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔آرمی چیف
کاکہناتھا کہ جہادکاحکم دینے کااختیارصرف ریاست کوہے
اورخودپرقابورکھنابہترین جہادہے۔جب کہ تمام مکتب فکرکے علماء نے جہادکے نام
پرہونے والے نام نہادجہادکے خلاف فتویٰ دیاہے۔واشنگٹن میں بروکنگزانسٹی
ٹیوشن سے منسلک ڈاکٹر مدیحہ افضال نے بھی امریکی تجویزمستردکی اورکہا کہ
امریکاکواپناطرزرویہ بدلناہوگا اورپاکستان کودباؤمیں لانے کے لیے چین کے
ساتھ بات چیت کرنی پڑے گی تاکہ پاکستان افغانستان کے معاملے میں امریکاکی
سنے اوریقیناًوہ توجہ دے گا۔مدیحہ افضال نے کہا کہ واشنگٹن کوپاکستانیوں سے
متعلق اپنانقطہ نظردرست کرنے کی ضرورت ہے۔گلوبل سروے کے مطابق نواسی
فیصدپاکستانی اسلام کے نام پرعام شہریوں کے قتل وغارت گری کوقبول نہیں
کرتے۔دادخٹک نے اس تاثر کو رد کیا کہ اسلام آبادمیں پاکستان کے خلاف
قبائلیوں نے احتجاج کیا۔انہوں نے واضح کیا کہ وہ احتجاج پاکستان مخالف نہیں
تھا بلکہ حکومت کے خلاف تھا جس میں لاپتہ افرادکی بازیابی اورفوجی چیک
پوسٹوں کوختم کرنے کامطالبہ کیاگیا۔دادخٹک نے افغانستان کے پڑوسی ممالک
اورعالمی کمیونٹی پرالزام عائدکیا کہ ان کی جدوجہد انفرادی برائیوں کے لیے
ہے نہ کہ طالبان کوشکست دینے کے لیے۔اسٹیفن ٹینکل نے امریکاکی جانب سے
پاکستان کی عسکری امدادروکنے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ امدادروکنے سے
امریکاانتہائی مخالف سمت کھڑاہوجائے گا پھرجب امریکاکودوبارہ پاکستان سے
رابطہ کرنے کی ضرورت پڑے گی تب اس کے لیے پریشانی دگنی ہوگی۔وفاقی
وزیرخارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے
اجلاس میں پاکستان کودہشت گرد تنظیموں کے مالی معاملات پرکڑی نظررکھنے
اوران کی مالی معاونت روکنے میں ناکام رہنے یااس سلسلے میں عدم تعاون کرنے
والے ممالک کی واچ لسٹ میں شامل کرنے پراتفاق رائے نہیں ہوسکاہے۔ خواجہ آصف
کاکہناتھا کہ ان کی کوششیں رنگ لے آئی ہیں اورامریکاکی جانب سے پیش کی جانے
والی قراردادپراتفاق رائے نہیں ہو سکا ۔ خواجہ آصف کے پیغام میں بتایاگیا
ہے کہ پیرس اجلاس میں اس حوالے سے تین ماہ کی مہلت تجویزکی گئی ہے
اورایشیاپیسفک گروپ سے ایک اوررپورٹ مانگی جائے گی جس پرجون میں دوبارہ
غورہوگا۔خواجہ آصف نے اس حوالے سے پاکستان کی حمایت کرنے والے دوست ممالک
کی حمایت کاشکریہ بھی اداکیا۔تاہم جب امریکی محکمہ خارجہ کی بریفنگ کے
دوران ترجمان ہیدرنوریٹ سے اس بارے سوال کیاگیا تھا تواس کاکہناتھا کہ وہ
اس کی تصدیق نہیں کرسکتیں۔کیونکہ حتمی فیصلہ اس ہفتے کے اختتام تک متوقع ہے
اوراس سے پہلے نہیں بتاسکتی کہ یہ فیصلہ کیاہوسکتاہے۔ترجمان کایہ بھی
کہناتھا کہ اس کے پاس اس بات کی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں کہ کوئی فیصلہ وقت
سے پہلے کیاگیا ہے ۔اس سوال پرکہ خواجہ آصف کی ٹویٹ سے بظاہریہ لگتا ہے کہ
کم ازکم تین ممالک امریکاکی قراردادکی مخالفت کر رہے ہیں۔ترجمان نے کہا کہ
دہشت گردوں کی مالی معاونت کے معاملے پرپاکستان کے ساتھ امریکاکاموقف بالکل
واضح رہا ہے۔ پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں پاکستان پردہشت گردی
کالیبل لگانے کامعاملہ تین ماہ کے لیے موخرہونے کوماہرین نے خوش خبری
قراردے دیا۔پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان پر دہشت
گردی کالیبل لگانے کی امریکی کوششیں ناکام ہونے پرماہرین نے خوشی
کااظہارکیاہے۔ماہرمالیاتی امور اسد رضوی کہتے ہیں کہ تین ماہ مختصرعرصہ ہے
جس میں پاکستان کوبہت کچھ کرناہوگا۔معاشی تجزیہ نگارشبرزیدی کہتے ہیں کہ
ڈیڑھ ماہ کے دوران قوانین میں موجود خامیوں کودورکرنے کی کوشش کی جائے
گی۔سابق سفارتکارنجم الدین شیخ نے کہا کہ اس معاملے پرفوری قانون سازی کی
ضرورت ہے کیوں کہ تین ماہ کے وقفے کے دوران الیکشن قریب آجائیں گے۔
پاکستان کے خلاف امریکاکوایک بارشکست کاسامناکرناپڑاہے۔وہ افغانستان میں
اپنی ناکامی کابدلہ پاکستان سے لینے کی مسلسل کوششیں کررہا ہے۔وہ مختلف
حربوں اورطریقوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ افغانستان میں
امریکاکوناکامی پاکستان کی وجہ سے ہورہی ہے۔پاکستان کودہشت گردوں کی مالی
معاونت کرنے والے ممالک کی نگرانی کی فہرست میں شامل کرنے کی امریکی کوششوں
کامقصداس بات کے علاوہ اورکوئی نہیں ہے کہ امریکاکسی نہ کسی طرح یہ ثابت
کرنے میں کامیاب ہوسکے کہ پاکستان دہشت گردوں کی مالی معاونت کرتاہے۔ اس
لیے امریکاابھی تک افغانستان میں ناکام ہے۔پاکستان دہشت گردوں کی مالی
معاونت نہ کرتاتوامریکاافغانستان میں ناکام نہ ہوتا۔پیرس اجلاس میں پاکستان
کودہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی واچ لسٹ میں شامل کرنے کے
بارے میں اتفاق رائے نہ ہونے پرپاکستان کے خلاف امریکہ اوراس کے پاکستان
مخالف منصوبوں کوایک بارپھرشکست ہوئی ہے۔ پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی
معاونت کرنے والے ممالک کی نگرانی کی فہرست میں شامل کرنے کے امریکی تھنک
ٹینک بھی خلاف ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک صرف اورصرف اس لیے مخالفت کررہا ہے کہ
ایساکرنے سے امریکاکی مشکلات میں اوراضافہ ہوجائے گا۔اس کی پریشانیاں
مزیدبڑھ جائیں گی۔پاکستان آئندہ کبھی بھی امریکاسے کوئی تعاون نہیں کرے گا
اورنہ ہی وہ کسی دباؤیالالچ میں آئے گا۔ معاملہ اگرچہ تین ماہ کے لیے ہی
موخرہواہے تاہم امریکاکی قراردادپراتفاق رائے نہ ہوسکنا اس بات کاواضح ثبوت
ہے کہ دنیااب امریکاکے عزائم کوسمجھناشروع ہوگئی ہے۔اب وہ دورنہیں رہاجب
امریکاجوکہتاتھا دنیامان لیتی تھی اور جو کہتا تھا دنیاوہی کرتی تھی۔دہشت
گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی واچ لسٹ میں سب سے پہلے
امریکاکوہی شامل کیاجاناچاہیے۔ |