خوف کی زنجیریں

اور اسلامی انقلاب کی پیش قدمی رک گئی۔فرانس کی سرزمین پراکتوبر۷۳۲ء میں''بلاط الشہدا''کہلانے والی تاریخ سازجنگ لڑی گئی۔طورس اور پواشیرزکے درمیان واقع رومی شاہراہ پرمقابل فوجوں کے درمیان رن پڑا۔یہ جگہ جبلِ طارق سے جہاں طارق بن زیاد۳۰اپریل۷۱۱ءکو اتراتھا، ایک ہزارمیل شمال میں تھی۔ممتازمؤرخین گبن اورلینن پول کاکہناہے کہ اگرمسلمان یہ جنگ جیت جاتے توپیرس اورلندن میں گرجا گھروں کی جگہ مسجدیں نظر آتیں اوروہاں کی عظیم دانش گاہوں میں بائبل کی جگہ قرآنِ کریم کی تفسیر پڑھائی جاتی۔سیّدامیرلکھتے ہیں''طورس کے میدانوں پرعربوں نے اس وقت عالمی سلطنت گنوا دی جبکہ یہ ان کی مٹھی میں تھی۔حکم عدولی اورباہمی خلفشارجومسلم معاشرہ کاابدی ناسوراورلعنت رہے ہیں،اس تباہی کاباعث بنے۔

دولت کی ہوس اورباہمی انتشارنے کام دکھایا۔ان کوتاہیوں نے کہاںکہاں ملتِ اسلامیہ کاراستہ نہیں روکا،کیاکیازخم نہیں کھائے ،ہم نے جہاں بھی شکست کھائی مڑکردیکھاتوکمیں گاہ میں کچھ اپنے نظر آئے۔حرص وہ بلا ہے جوانہیں سوچنے کی مہلت تک نہیں دیتی کہ بے حدوحساب دولت کس کام آئے گی،خاص طورپروہ جس کے انبارغیر ملکی بینکوں میں کھولے گئے،چوری چھپے کے کھاتوں میں دھرے ہیں۔باہم خلفشار بھی کہاں کم ہوا،کس نے کس کی پیٹھ میں چھرانہیں گھونپا،اپنے پرائے جس کا داؤ لگاوہی موقع پاتے ہی اپنے کرم فرماؤں پرچڑھ دوڑا،اقتدارتودولت سے بھی بری بلاہے۔

جوں جوں طاقت خواہ وہ خلافت کی شکل میں تھی یابادشاہوں کے روپ میں براجمان تھی،کمزورپڑنے لگی،ناچاقی اورانتشارنے سراٹھایا،ہرطرف یورش بپا ہونے لگیں،چھوٹے چھوٹے راجواڑے وجودمیں آتے گئے،وسائل بکھرتے گئے اورمرکزی حکومت کا دائرہ اختیارسکڑتاگیا۔آخری عباسی خلیفہ المستعصم ہوں یاآخری مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفر،دونوں ہواکاجھونکاآتے ہی تنکوں کی طرح اڑگئے۔ایک بے بسی کے عالم میں تاتاریوں کے گھوڑوں کے سموں تلے رونداگیا،دوسراپابجولاں وطن سے سینکڑوں میل دوررنگون میں حوالۂ زنداں ہوا۔ظفر شاعرتھا،شکست اورمحرومی کااظہارکرگیا،اسے دفن کیلئے''کوئے یار ''میں دوگززمین نہ ملنے کانوحہ کہنے کی مہلت تومل گئی ۔ خلیفہ المستعصم بے چارگی میں دوقدم آگے نکلا۔کہتے ہیں کہ اپنے مصاحبوں کے ہمراہ جب وہ اپنے آپ کو تاتاریوں کے حوالے کرچکاتواسے ہلاکوخان کے حضور پیش کیاگیا۔ہلاکو نے سونے کی کچھ ڈلیاں اس کی طرف برھاتے ہوئے کہا''اسے کھاؤ ''.......مجبور قیدی نے پریشان ہوتے ہوئے عرض کیا''سوناکھایانہیں جاتا''جواب ملاتو''پھرڈھیروں جمع کیوں کررکھاتھا،اگرہمیں بھجوادیاہوتاتو آج عیش وآرام سے جی رہے ہوتے،ایسا نہیں کرناتھاتواپنے دفاع کیلئے خرچ کیاہوتا۔

مال ودولت کی ہوس نے کیاکیا گل نہیں کھلائے،حرص کی نہ کوئی سیماہے نہ حد......یہ وہ شعلہ ہے جولپکتا ہی جاتا ہے۔ انسان مجموعہ اضدادہے۔ مرغوب چیزوں پرفریفتہ ہوناجہاں ایک فطری امرہے وہیں جودوسخا کابیج بھی اس کے من کوقدرت کی طرف سے عطاہواہے۔کون کس ڈگرپر چلے،فیصلہ اس کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ارشاد ربّا نی ہے: زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ ٱلشَّهَوَ‌ٰتِ مِنَ ٱلنِّسَآءِوَٱلْبَنِينَ وَٱلْقَنَـٰطِيرِٱلْمُقَنطَرَةِ مِنَ ٱلذَّهَبِ وَٱلْفِضَّةِ وَٱلْخَيْلِ ٱلْمُسَوَّمَةِ وَٱلْأَنْعَـٰمِ وَٱلْحَرْثِۗذَ‌ٰلِكَ مَتَـٰعُ ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَاۖ وَٱللَّهُ عِندَهُۥ حُسْنُ ٱلْمَـَٔابِ''حب الشہوات(مرغوب چیزوں کی محبت)نے لوگوں کو فریفتہ کیاہے،جیسے عورتیں اوربیٹے،سونے اورچاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اورنشان زدہ گھوڑے اورمویشی اورکھیتی۔یہ(سب کچھ) دنیا کی زندگی کی متاع ہے اوراچھا ٹھکانہ تواللہ ہی کے پاس ہے۔''(آل عمران۔۱۴)اصل دولت تو اللہ کی رضا اور''رضوان'' ہے،جس خوش نصیب کویہ خزانہ مل گیااس کے دونوں جہان سنور گئے،جو اس سے محروم رہا،وہ بازی ہار گیا۔پردہ اٹھنے کی دیرہے جب اسی سونے چاندی سے جس کے انبارلگاتے نہیں تھکتے،ان کی پیشانیاں داغی جائیں گی،پھر یاد آئے گا کہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیناہی بہترتھا ۔ہوسکتاہے کوئی ہلاکو خان اسی دارِ فانی میں اس''سونے کوتناو ل فرمانے''کی فرمائش کرے۔

چھوٹے اوربڑے انسان میں غالباً فرق ہی اتنا ہے کہ چھوٹاآدمی''حب الشہوات''میں گرفتارہے اوربڑا انسان کسی اعلیٰ مقاصد کے حصول میں کوشاں۔پہلاجاہ ومال پرجان ودل سے فداہے،دنیا بھرکی دولت سمیٹناچاہتاہے،بڑے سے بڑے عہدے تک پہنچناچاہتاہے،پہنچ پائے تواس کے چھن جانے کے خیال سے ہی ہلکان رہتاہے ۔وہ اسے دوام دیناچاہتاہے،اس کیلئے سب کچھ روارکھتاہے۔قانون، اخلاق، مذہب،انسانیت جوبھی راہ میں حائل ہواسے کچل دیاجائے،ہرحربہ روا رکھا جائے تاکہ اس کااقتدارطول پکڑتاجائے اورمال واسباب میں اضافہ ہوتارہے۔بدقسمتی سے دورِ حاضرمیں اقتداراوردولت لازم وملزوم ٹھہرے ہیں۔

اہل سیاست میں اکثر اسے ناقابلِ تردیدحقیقت سمجھ بیٹھے ہیں کہ قارون کاخزانہ پاس نہ ہوتواقتدارتک رسائی ناممکن ہے۔یہ مفروضہ نہائت خطرناک کھیل کوجنم دیتاہے۔ایک نہ ختم ہونے والی بے رحم دوڑشروع ہوجاتی ہے جس میں حصولِ مقصد کیلئے سب کچھ روارکھاجاتاہے۔ بدعنوانی ،رشوت،چوربازاری، راہزنی اور اس قبیل کی ساری بلائیں سیلاب کی صورت امڈ آتی ہیں۔ ملک کیامعاشرہ بھی غیرمستحکم ہوجاتاہے۔ اضطراب کے عالم میں لوگ ادھرادھر بھاگنے لگتے ہیں۔ ناجائز کمائی کوچھپانے کیلئے کونے کھدرے تلاش کرناپڑتے ہیں۔
مالِ حرام جہاں سے کمایاوہاں وہ خودکومحفوظ محسوس نہیں کرتا۔اس کی اڑان لازم ہے،موسمی پرندوں کی طرح یہ خوشگوار ماحول کی تلاش میں محفوظ مقامات پرچلاجاتاہے۔اس کے''مالکوں''پرچھائیاں پڑنے لگیں تووہ بھی بدیش سدھارجاتے ہیں۔وطن ِ عزیز غریب سے غریب ترہوتاجاتا ہے، ایک طرح لٹیروں کادیس بن جاتاہے جن میں کئی ایک شب بھرمیں ارب پتی بننا چاہتے ہیں، جس کا بھی بس چلے وہ اندھیرے اجالے میں چوکتا نہیں۔اقتدار میں آنے والوں میں سے کچھ توایسے ہوتے ہیں جواس کارِخیر میں ایک دوسرے کومات دینے کی فکرمیں ہوتے ہیں۔نجی محفلوں میں کھلے بندوں تذکرہ ہوتاہے کہ فلاں بازی لے گیااور فلاں پیچھے رہ گیا۔ وزارتوں اورقلمدانوں کی قیمت لگتی ہے،نیازمندوں کودودھ دینے والی گائیں عطاہوتی ہیں اوروہ جنہیں''شاہ جہانِ وقت''کو شیشے میں اتارنے کا فن نہیں آتا،وہ عنائتِ خسروانہ سے محروم رہتے ہیں۔حالات کی مجبوری کے پیشِ نظراگر انہیں کچھ دینا بھی پڑے توکوئی بے فیض ساعہدہ جس کے ہونے اور نہ ہونے سے کوئی چنداں فرق نہیں پڑتا،ان کامقدربنتاہے ۔ سیاست ایک بہتادریا ہے جس کاپانی کبھی اتناشفاف تھاکہ کناروں پر کھڑے اشجار جھک جھک کراس میں اپناعکس دیکھتے تھے۔ صاف ستھرے،وضعدارلوگ جنہیں اپنی عزت کاپاس تھا،ملک وقوم کی خدمت کیلئے اس میدان میں اترتے تھے۔ شرافت، متانت،عوام کی خیرخواہی اورکارِثواب کی تمناان کیلئے زادِراہ ہوتے تھے۔اپنی جیب سے خرچ کرتے تھے۔دولت مندنہ ہوں تودل کے غنی ہوتے تھے۔ان کی غیرت گوراہ نہیں کرتی تھی کہ خدمتِ خلق کے عوض کوئی معاوضہ یامالی فائدہ حاصل کریں ۔بڑے غیوراورپاک طینت لوگ تھے۔اللہ رحمت کرے ان عظیم ہستیوں پرجو آزادی کی نعمت سے قوم کوہمکنار کر گئے۔حرص وہوس کی زنجیریں اگروہ نہ توڑ چکے ہوتے تومنزل تک پہنچنے سے بہت
پہلے بک گئے ہوتے۔خریداروں کی نہ آج کمی ہے نہ اس وقت تھی،مال بکاؤہوتوگاہک بہت!

ڈرانے والے اس دورمیں بھی بہت تھے۔امریکی سلطنت توابھی زچگی کے عالم میں ہے پھر بھی ایک دنیاڈری سہمی سجدے میں پڑی ہے۔قائداعظم اوران کے ساتھیوں کوتوبرطانوی سامراج کاسامناتھاجس کی سلطنت میں واقعی کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔وہ لاکھ مہذب حکمران سہی مگرقیدخانے ان کے بھی تھے۔آزادی کے متوالے سیاستدانوں سے حاکم لوگ پیارو محبت کی پینگیں نہیں بڑھاتے تھے۔پاکستان کا مطالبہ کرنے والے توبہتوں کے پہلومیں کانٹے کی طرح چبھتے تھے۔اگر ہمارے محسن ڈر گئے ہوتے یاخدانخواستہ بک گئے ہوتے توپاکستان نہ بن پاتا۔پاک سرزمین کی حفاظت وہی جذبہ مانگتی ہے۔یہ دھرتی شاداور آباداسی صورت میں رہ سکتی ہے جب ہرسطح پراس کی قیاد ت حرص وہوااورخوف کی زنجیریں یوں توڑدے کہ ان کے ٹوٹنے کی چھنک دنیاکے کونے کونے میں سنائی دے۔اللہ کرے ہم ایساکرپائیں۔۔۔۔!

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390233 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.