پارلیمنٹ، عدلیہ محاذ آرائی

سابق وزیراعظم اور ان کی بیٹی مریم نواز کے عدلیہ مخالف رویے میں نرمی نہیں آئی اور سابق وزیراعظم کی حالیہ عوامی مہم میں کی جانے والی تقاریر میں عوام کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ ان کے منتخب کردہ نمائندے کو عدلیہ نے وزیراعظم ہاؤس سے نکال دیا۔عدالت مخالف بیانات کا تذکرہ جب ٹاک شو کا حصہ بننا شروع ہوا تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو دسمبر میں لاہور بار ایسوسی ایشن کی جانب سے منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کے دوران کہنا پڑا کہ ملکی عدلیہ پر کسی طور پر کسی فیصلے کے لیے کوئی دباؤ نہیں ہے اور وہ کسی منصوبے کا حصہ بھی نہیں ہے۔

لیکن نواز شریف، مریم نواز اور ان کے رفقاء کی جانب سے ملک کی اعلی عدلیہ کو سرعام مسلسل توہین آمیز الزامات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ اس میں کمی کے بجائے تیزی ہی آرہی ہے ملکی اداروں کا احترام ہونا چاہیئے جیسے عدلیہ کا ادارہ محترم ہے ایسے ہی پارلیمنٹ کا ادارہ بھی اتنا ہی محترم ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ ان اداروں میں آپسی تصادم کی کیفیت نہ پیدا ہو اگر پارلیمنٹ یا عدلیہ کے اختیارات میں کہیں واقعتا تجاوز ہورہا ہے تو اس پر بحث ہونی چاہیئے محاذ آرائی نہیں۔جیسے پانامہ کیس میں جے آئی ٹی کس قانون کے تحت بنی؟انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دو فوجی افسران کو جے آئی ٹی میں شامل کیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ اور کوئی قانون موجود نہیں۔ تو بے شک اس پوائنٹ کو کلیئر کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس طرح عدلیہ کے ہر اقدام کو عوام میں اس طرح بیان کرنا کہ وہ عدلیہ کے خلاف توہین آمیز لگے غلط ہے۔ نواز شریف کے خلاف نیب میں جیسے جیسے مقدمات آگے بڑھتے گئے ہیں ویسے ہی نواز شریف اور ان کے قریبی حلقوں کی طرف سے عدلیہ مخالف بیانات میں تیزی آتی گئی ہے۔ تاہم اس میں زیادہ تلخی سپریم کورٹ کی جانب سے دسمبر میں نااہلی کیس میں جہانگیر ترین کو نااہل قرار دینے اور عمران خان کو کلین چٹ ملنے کے بعد نظر آئی۔

حالیہ کچھ دنوں سے یہ محاذ آرائی کھل کر سامنے آگئی ہے۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی طرف سے گزشتہ روز پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر کے بعد پارلیمنٹ اور عدلیہ کے مابین سیاسی منظر نامے پہ باقاعدہ چپقلش شروع ہوگئی ہے۔ ممبران پارلیمنٹ کی طرف سے ججوں کے رویے پر پارلیمنٹ میں بحث ایک ایسا نازک نقطہ بن گیا ہے جو براہ راست آئین کے آرٹیکل 68 کے متصادم اور خلاف ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمنٹ میں اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں بحث کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اور اگر نہیں تو اس کا متبادل طریقہ کار کیا ہے؟ آئین پاکستان کے آرٹیکل 68 کے مطابق پارلیمنٹ (مجلس شوریٰ) اس کی مجاز نہیں ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اور ججز کے بارے میں بحث یا ان کا رویہ یا طرزعمل پارلیمنٹ کے فلور پر زیربحث لایا جائے۔ اس سلسلے میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 209 کو استعمال کرکے حکومت کی کسی جج کے خلاف شکایت ہو تو وہ یہ مسئلہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجنے کی مجاز ہے البتہ اس پر پارلیمنٹ کے فلور پر بحث کرنا آرٹیکل 68 کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اس کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور لیگی رہنما مریم نواز کا بیانیہ سڑکوں‘ جلسے جلوسوں‘ ٹیلی ویڑن کے ٹاک شوز کے بعد اب پارلیمنٹ میں بھی گونجنا شروع ہوگیا ہے۔ لیکن پارلیمنٹ کے اکثر اراکین اس کی شدت سے مذمت کررہے ہیں سینئر قانون دان اعتزاز احسن نے بھی اس حوالے سے مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف کے اس بیانیے پر کڑی تنقید کی تھی۔ گزشتہ روز خود اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے وزیراعظم کی تقریر کے جواب میں کہا کہ پارلیمنٹ کا تقدس اور اس کی اہمیت شاید پارلیمنٹ میں موجود لوگوں نے ہی خراب کی ہے دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ہم عدلیہ کو بچانے کیلئے سڑکوں پر نکلیں گے‘ اگر مسلم لیگ (ن) نے عدلیہ کے خلاف پارلیمنٹ کو استعمال کرنے کی کوشش کی تو تحریک انصاف سڑکوں پر نکلے گی پیپلز پارٹی کی طرف سے بلاول بھٹو نے بھی اس کی شدید مذمت کی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار نے کھل کر پارلیمنٹ میں ہونے والی تقاریر کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ تابع پارلیمنٹ سب سے سپریم ادارہ ہے البتہ پارلیمنٹ سے بھی سپریم اور اوپر آئین پاکستان ہے جس کے تحت عدلیہ کام کرتی ہے اور جس کے تابع تمام پاکستانی شہری ہیں۔ چیف جسٹس نے کچھ روز پہلے نااہلی کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کیا کوئی چور یا ڈاکو کسی جماعت کا سربراہ ہوسکتا ہے؟ جس پر یہ بحث زیادہ گرم ہوگئی اور مسلم لیگ ن کی جانب سے یہ بیانیہ زور پکڑ گیا کہ ججز کو اپنے ریمارکس کا خیال رکھنا چاہیئے۔حالیہ صورتحال کچھ اور کہہ رہی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان دونوں اداروں کے بیچ ایک بار پھر غریب عوام پس کر رہ جائے۔حکومت اور سیاستدان کچھ اور کریں نہ کریں ، ان کے پاس عوام کو مصروف رکھنے کے لیئے اچھے مشاغل موجود ہیں۔نہ وہ کبھی ان سے باہر نکلے گی نہ ہی اپنے حقوق و مسائل کی بات کرے گی کیوں کہ یہاں بات صرف اس کی ہوتی ہے جس کے پاس پاور ہوتی ہے۔جب تک الیکشن نہیں ہوجاتے تب تک پر امن ملکی صورتحال کے خواب دیکھنا درست نہیں۔ یہ بحث اب پارلیمنٹ‘ قومی اور صوبائی ایوانوں میں زور پکڑنے والی ہے جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اب اداروں کے ٹکراؤ کا خطرہ اور بڑھ گیا ہے اور اس بار فوج سے نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی عدلیہ سے محاذ آرائی ہوگی۔یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ کوئی نیا سیاسی جال ہے خود کو الزامات کی زد سے بچانے کا یا عوامی ہمدردی حاصل کرنے کے لیئے مسلم لیگ ن کی کوئی نئی سیاسی حکمت عملی بہر حال دونوں صورتوں میں عوام نے ہی پسنا ہے۔نہ کبھی حکومت اور سیاستدان آپسی جھگڑوں اور مسئلوں سے باہر نکلیں گے نہ ہی کبھی وہ عوام کے متعلق خلوص نیت سیسوچیں گے.۔آگے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں یا آنے والے الیکشن تک یہ سلسلہ تھمتا ہے یا نہیں یا اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں یہ تو آنے والے دنوں میں ہی اندازہ ہوسکتا ہے، فی الحال یہ کافی ہے کہ اداروں کے بیچ ایک بار پھر طبل جنگ بجادیا گیا ہے اﷲ ہی مالک ہے اس ملک کا اور اس ملک کی عوام کا۔

Dr Rabia Akhtar
About the Author: Dr Rabia Akhtar Read More Articles by Dr Rabia Akhtar: 17 Articles with 13553 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.