قرآن کا نزول عرب میں ہوا،
پڑھا گیا مصر میں اور سمجھا گیا برصغیر میں۔
ایک مرتبہ مولانا محمود حسن رحمہ اللہ نے مولانا انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ
سے فرمایا کہ سنا ہے جامعہ ازہر مصر میں فقہ کی ایک کتاب " نورالایضاح "
پڑھائی جاتی ہے تم جاؤ اور اس کتاب کا ایک نسخہ یہاں لے آؤ تا کہ ہم بھی اس
کتاب کو نصاب میں شامل کرلیں
چنانچہ حضرت کشمیری مصر روانہ ہوئے جامعہ ازہر پہنچے مگر یہ کیا ؟
جامعہ والوں نے کتاب دینے سے انکار کردیا بڑی منت سماجت کے بعد صرف مطالعے
کے لئے کتاب دی گئی
حضرت نے کتاب کا مطالعہ کیا اور واپس دارالعلوم دیوبند تشریف لے آئے
حضرت محمود حسن نے پوچھا کتاب لے آئے ؟
تو ظاہر ہے جواب نفی میں تھا حضرت محمود حسن بہت زیادہ افسردہ ہے فرمایا
مدرسے کا خرچ بھی ہوا اور کتاب بھی نہیں ملی
حضرت کشمیری صاحب اپنے حجرے تشریف لے گئے اور وہی کتاب جس کو دیکھ کر آئے
تھے لکھنا شروع کردیا یہاں تک کہ کتاب مکمل لکھ ڈالی اور حضرت محمود حسن کو
پیش کردی
حضرت نے دریافت فرمایا یہ کیا ہے آپ نے فرمایا یہ وہی کتاب ہے جس کو دینے
سے انہوں نے انکار کیا تھا صرف مطالعے کے لئے دی تھی اسی مطالعے کے زور پر
میں نے لکھی ہے
حضرت نے فورا اس کتاب کو تصدیق کے لئے مصر روانہ کیا جب جامعہ ازہر والوں
نے اس کتاب کو اصل سے ملایا تو حیران رہ گئے ایک لفظ کی غلطی بھی نہیں تھی
تو انہوں نے کتاب پر لکھ دیا کہ ہم نے امام بخاری کے بعد اگر کوئی حافظہ
دیکھا ہے تو وہ سید انورشاہ کشمیری کا حافظہ ہے
نوراللہ مرقدہ، وطاب ثراہ ۔ سلام اے فرزندان دیوبند
|