تحریر : علامہ سید شاہ عبد الحق قادری
﴿امیر جماعت اہلسنّت پاکستان کراچی ﴾
تحریک پاکستان میں علماء ومشائخ اور صوفیائے کرام نے نمایاں کردار ادا کیا،
علماء ومشائخ اہلسنّت نے جناب محمد علی جناح کی قیادت میں برصغیر میں
مسلمانوں کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ کے ہاتھ مضبوط کرکے قیام
پاکستان کیلئے راہ ہموار کی اوربالآخر ۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان دنیا کی
پہلی اور نظریاتی اسلامی مملکت کے طور پر دنیا کے نقشہ پرنمودار ہوا۔ پیر
طریقت حضرت علامہ مولاناقاری محمد مصلح الدین صدیقی قادری رضوی علیہ الرحمہ
کا شمار بھی ایسی ہی محترم و مقدس ہستیوں میں ہوتا ہے ۔ جنہوں نے تحریک
پاکستان اور اشاعت اسلام نیز روحانی اور اخلاقی اقدار کے فروغ میں انتھک
جدو جہد کی ، قاری صاحب علماء کرام میں اپنا منفرد اور بے مثال مقام رکھتے
تھے آپ سچے عاشق رسول ﷺاور صاحب کمال دینی و روحانی بزرگ تھے دین اسلام کی
ترویج و اشاعت اور عقائد اہلسنّت کی سر بلندی کیلئے آپ نے جو خدمات انجام
دیں انہیں مدتوں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
پیر طریقت حضرت علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی قادری رضوی علیہ الرحمہ
۱۱؍ربیع الاول ۱۳۳۶ھ بمطابق ۱۹۱۷ء کو قندھار شریف ضلع ناندھیڑ حیدر آباد
دکن میں پیدا ہوئے، آپ کے آباؤ اجداد شرفائے دکن میں سے تھے اور صدیوں سے
دینِ متین کی خدمت کافریضہ سرانجام دیتے آرہے تھے۔آپ کے والد ماجد مولانا
غلام جیلانی علیہ الرحمہ نے حیدرآباد دکن میں 55سال تک امامت و خطابت کے
فرائض انجام دیئے ۔ کراچی میں 1955میں آپ کا وصال ہوا اور میوہ شاہ قبرستان
میں تدفین ہوئی، اپنے والدماجد حضرت مولانا غلام جیلانی رحمتہ اﷲ علیہ سے
قرآن حکیم حفظ کیا تقریباً سترہ برس کی عمر میں اپنا وطن چھوڑ کر مدرسہ
مصباح العلوم مباکپور اعظم گڑھ میں علوم اسلامیہ کی تحصیل کا آغاز کیااور
حضرت حافظ ملت ، حافظ عبدالعزیز محدث مبارکپوری علیہ الرحمہ کی زیر نگرانی
آٹھ برس میں تکمیل کی اس کے بعد حافظ ملت آپ کو صدرالشریعہ بدر الطریقہ
حضرت علامہ مولانا حکیم محمد امجد علی اعظمی رحمتہ اﷲ علیہ کی خدمت میں لے
گئے ۔وہاں آپ حضرت صدرالشریعہ سے بیعت ہوئے اور پھرکچھ عرصہ بعد حضرت
صدرالشریعہ نے آپ کو تمام سلاسل طریقت میں اجازت و خلافت بھی عطا فرمائی۔
تحصیل علم کے بعدآپ نے ناگپور کی جامع مسجد میں امامت و خطابت فرمائی نیز
جامعہ عربیہ ناگپور میں تدریسی خدمات بھی انجام دیں، کچھ عرصہ سکندرآباد
حیدرآباد دکن کی جامع مسجد میں بھی خطابت فرمائی، سقوط حیدرآباد دکن کہ جس
میں سات لاکھ مسلمان شہید ہوئے،کے بعد 1949ء میں آپ پاکستان تشریف لائے اور
اخوند مسجد کھارادر میں خطیب و امام رہے آپ یہی چاہتے تھے کہ کسی چھوٹی
مسجد میں رہ کر دین کی کچھ خدمت کی جائے مگر پھر لوگوں کے بے حد اصرار پر
آپ جامع میمن مسجد کھوڑی گارڈن تشریف لائے۔ یہاں آپ کے پاس سینکڑوں
عقیدتمندوں اورحاجتمندوں کا ہجوم رہنے لگا اور آپ نے اسے رضائے الہٰی سمجھ
کر اسی جگہ مستقل قیام فرمایا ۔اخوند مسجد کی امامت کے دوران آپ نے محدث
اعظم پاکستان حضرت علامہ سردار احمد لائلپوری ، حضرت علامہ مولانا عارف اﷲ
شاہ صاحب، حضرت پیر صاحب دیول شریف ، غزالیٔ زماں علامہ سید احمد سعید
کاظمی رحمۃ اﷲ علیہم اجمعین کی خواہش اورایماء پر ڈیڑھ سال جامع مسجد واہ
کینٹ راولپنڈی میں امامت و خطابت کی۔نیز دارالعلوم مظہر یہ آرام باغ اور اس
کے بعد دارالعلوم امجدیہ میں وصال سے پہلے تک تدریسی اور علمی خدمات انجام
دیتے رہے ۔
حضرت علامہ قاری مصلح الدین صدیقی رحمۃ اﷲ علیہ پاکستان میں سلسلۂ قادریہ
کے ممتاز و معروف روحانی پیشواء تھے۔ آپ کو سلسلہ قادریہ، رضویہ، سنوسیہ،
شاذلیہ، منوریہ، معمریہ اور اشرفیہ میں حضرت صدرالشریعہ کے علاوہ شہزاۂ
اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ہند مولانا الشاہ مصطفی رضا خان بریلوی اور قطب
مدینہ حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین احمد مدنی علیہما الرحمہ سے اجازت
وخلافت حاصل تھی۔ آپ کی ذات گرامی علماء وصوفیائے کرام میں خاص توجہ اور
عقیدت و محبت کا مظہر تھی جسے بھی آ پ کو صحبت اور محبت میسر آئی وہ رسول
اﷲ ﷺکا گرویدہ اور شیدائی بن کر رہ گیا۔
حضرت علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی رحمۃ اﷲ علیہ نے دیگر بزرگان دین کی
طرح سلسلہ قادریہ میں حضرت غوث پاک محبوب یزدانی سیدنا سیخ محی الدین
عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ عنہ سے خاص نسبت پائی تھی آپ نے اﷲ و رسول جل
جلالہ وﷺکی اطاعت اور فرمانبرداری یعنی قرآن و سنت پر کاربند رہنے کے بعد
حضرت غوث پاک کی تعلیمات مقدسہ پر خصوصی طور پر عمل کیا تھا اسی لئے قدرت
کاملہ نے آپ کو اپنی بہترین نعمتوں سے نوازا تھا۔ آپ پیران پیر سرکار غوث
اعظم رضی اﷲ عنہ کی محبت اور عقیدت میں صوفیاء کرام کے شانہ بشانہ رہے۔مصلح
الدین کے معنی دین کی اصلاح کرنے والے کے ہوتے ہیں آپ نے اپنی زندگی کے ہر
دور میں دین اسلام کی اس خدمت کو احسن طریقہ پر پورا کیا۔
حضرت غوث الثقلین رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اگر مصائب نہ ہوتے تو تمام
لوگ عابد و زاہدبن جاتے لیکن مسلمانوں پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ صبر
کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے رب سے دور ہوجاتے ہیں یا د رکھو جو صبر کے
امتحان میں پورا نہ اترا وہ عطا الٰہی سے محروم رہ گیا۔ حضور غوث پاک صبر
ہی کو اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی قرار دیتے ہیں آپ کے نزدیک صبر ہی عبد اور
معبود کے درمیان رشتہ کو مزید مستحکم کرتا ہے صبر و رضا کو چھوڑ دینا آپ کی
تعلیمات کے منافی ہے ۔حضرت علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی رحمۃ اﷲ علیہ
کے لئے سلسلہ قادریہ کی یہ تعلیمات آپ کی زندگی کا جز و لاینفک بن چکی تھیں
وہ زہد و تقویٰ اور پرہیز گاری ،حلم اور برد باری کا کامل نمونہ تھے شفقت و
محبت کا منبع آپ کی ذات گرامی تھی ۔بزرگان دین سے آپ کا گہرا تعلق تھااور
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی سے آپ کو والہانہ عشق تھااکثر اعلیٰ
حضرت کی نعتیں ورد زبان رہتیں اور تقریب میں بھی جا بجااعلیٰ حضرت کے اشعار
پڑھتے، آپ بہت ہی مختصر مگرجامع اور قابل فہم الفاظ میں تقریر کرتے تھے آپ
کا انداز اس قدر دل نشین ہوتا کہ ہر لفظ دل و دماغ میں پیوست ہوکر رہ جاتا
تھا ۔
مجاہد ملت حضرت علامہ مولانا عبدالحامد بدایونی ،حضرت قاری صاحب کی بڑی عزت
و تکریم کرتے تھے انہیں اپنی روحانی مجلسوں اور محافل میں مدعوکرنے کیلئے
مخصوص دعوت نامہ ارسال کرتے تھے۔آپ کا وصال ۷؍جمادی الثانی ۱۴۰۳ھ، ۲۳؍ مارچ
۱۹۸۳ء کو کراچی میں حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوا۔ آپ کے وصال کی خبر آپ
کے مریدین، متوسلین اور محبین میں بڑے دکھ اور صدمہ کے ساتھ سنی گئی۔ہزاروں
لوگوں نے اشکبار آنکھوں سے آپ کا آخری دیدار کیا۔آپ کی نماز جنازہ نبیرۂ
اعلیٰ حضرت تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختررضاخاں بریلوی دامت برکاتہم
العالیہ نے پڑھائی۔جوڑیا بازار سے متصل کھوڑی گارڈن میں آپ کا مزارِ مقدس
واقع ہے بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جانب سے آپ کی خدمات کے اعتراف کے طور پر اس
گارڈن کا نام مصلح الدین گارڈن رکھ دیا گیا۔دعا ہے کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ ان
کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے مزار پر انوار پر رحمتوں کی بارش
فرمائے۔آمین
٭٭٭ |