شام میں خانہ جنگی، بیرونی طاقتوں کا کردار

 شام کی سرزمین پہلی جنگ عظیم تک خلافت عثمانیہ کی سرپرستی میں ایک ہی خطہ تھی۔ بعد میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کی پالیسیوں نے اس سرزمین کو چار ریاستوں میں تقسیم کردیا۔حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جزیرہ عرب کے باہر اگر کسی ملک کا سفر کیا ہے تو وہ صرف ملک شام ہے۔ قرآن وسنت میں جہاں بھی ملک شام کا تذکرہ ہوتاہے اس سے مراد عصر حاضر کے چار ملکوں (سوریا، لبنان، فلسطین اور اردن)پر مشتمل پورا علاقہ ہے۔ اس مبارک سرزمین کے متعلق نبی اکرم ﷺکے متعدد ارشادات احادیث کی کتابوں میں محفوظ ہیں، مثلاً اسی مبارک سرزمین کی طرف حضرت امام مہدی حجاز مقدس سے ہجرت فرماکر قیام اور مسلمانوں کی قیادت فرمائیں گے ۔ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا نزول بھی اسی علاقہ یعنی دمشق کے مشرق میں سفید مینار پر ہوگا۔ غرضیکہ یہ علاقہ قیامت سے قبل اسلام کا مضبوط قلعہ و مرکز بنے گا۔اسی مبارک سرزمین میں قبلہ اول واقع ہے، جس کی طرف ہجرت کے بعد نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام ؓنے تقریباً 16 ماہ اور کچھ دن نمازیں ادا فرمائی ہیں۔اس مقدس سرزمیں پر پچھلے کچھ سالوں سے خانہ جنگی کے نام پر آگ اور خون کا بھیانک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔شام میں جاری خانہ جنگی نے جہاں ایک سماج کو تاراج کیا ہے، وہیں حالیہ تاریخ میں ایک بڑے انسانی المیہ کو بھی جنم دیا ہے۔ اس خانہ جنگی کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ استعماری طاقتیں 9/11 کے نام پر جب عراق اور افغانستان کو تباہ و برباد کر چکیں تو اگلا نشانہ ایک پر امن ملک شام تھا۔ اس ملک کو کس طرح تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا جائے، یہ ایک کٹھن مسئلہ تھا۔ چنانچہ مارچ 2011میں ایک لڑکے سے شرارت کے طور پر بغاوتی جملے لکھواکر یہ ایک خطرناک کھیل شروع کیا گیا۔ دوسری طرف حکومت سے کہا گیا کہ اگر یہ بغاوت کی تحریک چل پڑی تو تمہاراکچھ نہیں بچے گا۔ یہ آغاز تھا اور اس دن سے آج تک دونوں گروہوں کو طیش دلا کر خانہ جنگی کے ذریعے اس ہنستے بستے ملک کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ نئے نئے اداکار میدان میں کودتے رہے اور یہ سامراجی طاقتیں اپنے مفادات کے حصول کیلئے اس جنگ کو وسعت دیتی چلی گئیں۔ پچھلے چند سالوں میں لاکھوں شامی اس خانہ جنگی میں موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں جبکہ بارہ ملین سے زیاہ خانہ بدوش ہو چکے ہیں ۔ بظاہر یہ جنگ شام والے آپس میں لڑ رہے ہیں مگر ان کی پشت پناہی دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے لئے کر رہی ہیں۔آج شام میں جو کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے یہ پہلے صرف ایک احتجاج تھا جو مارچ2011 میں شروع ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ احتجاج وسیع ہوتا گیا۔ احتجاج نے تب خونی رنگ میں ڈھلنا شروع کر دیا جب حکومتی فوج نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے احتجاج کرنے والوں پہ گولیاں برسانی شروع کر دیں۔ ردِ عمل میں عوام بھی تشدد کی راہ پہ چل نکلے اور ملک میں بغاوت سر اٹھانے لگی۔ جسے مزید طاقت شامی فوج میں تقسیم نے فراہم کی۔ فوج کا ایک حصہ الگ ہو کر باغیوں کے ساتھ جا ملا اور یوں ملک خانہ جنگی میں مبتلا ہو گیا۔ اگلے ایک دو برس میں عراق و افغانستان میں مصروفِ کار شدت پسند تنظیموں خصوصاً القاعدہ کے جنگجو بھی شام کا رخ کرنے لگے اور یوں شام میں حکومت مخالف عسکریت پسندوں میں خاطر خواہ اضافہ ہونے لگا۔ خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کردوں نے بھی عسکری کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ ایسے عالم میں سعودی عرب اور ایران کی جانب سے شام میں مداخلت کا آغاز ہوا۔ ایران اس لڑائی میں بشارالاسد کی حکومت کا ساتھ دے رہا ہے۔ اس تنازعے میں ایرانی فورسز بھی شامل ہیں جب کہ تہران حکومت سرمائے، ہتھیاروں اور خفیہ معلومات کے ذریعے بھی شامی فورسز کی مدد کر رہی ہے۔روس نے 2015ء میں صدر بشارالاسد کی افواج کی مدد کے لیے شام میں عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا۔ روس چاہتا ہے کہ بشارالاسد اقتدار میں رہے اور مشرق وسطیٰ میں اس کا اثرورسوخ قائم رہے۔سعودی عرب کی حکومت شام میں اپوزیشن فورسز بہ شمول چندعسکریت پسند گروپوں کو ہتھیار اور سرمایہ فراہم کرتی رہی ہے۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ شام میں ایرانی اثرورسوخ قائم نہ ہو۔ امریکا نے 2014 میں عراق اور شام میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فضائی حملوں کا آغاز کیا۔ وہ شمالی شام میں کرد فورسز سمیت بشارالاسد کے مخالفین کو ہتھیار اور فضائی مدد فراہم کررہا ہے۔جرمنی کی حکومت کا موقف ہے کہ جب تک بشارالاسد اقتدار میں رہیں گے، شام میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے شام میں خانہ جنگی کی جو وجہ ہمیں اقوام متحدہ یا مغربی میڈیا بتارہاہے وہ ہرگز نہیں ہے۔ مغرب کو اپنے ہتھیار بیچنے ہیں اور اپنی دھونس اور اجارہ داری قائم رکھنی ہے اس لئے وہ اس جنگ میں پیش پیش ہے۔گزشتہ سات سالوں سے شام میں جاری خانہ جنگی 2017کے اختتام تک کافی حدتک ختم ہوچکی تھی۔اب شام کے پرامن مستقبل کے بارے غور وفکرکرناباقی رہ گیا تھا،جس کے لیے ترکی شام میں لڑنے والے تمام فریقوں سے مسلسل رابطے میں رہا،تاکہ جلداز جلد شام کی رونقیں دوبارہ بحال ہوسکیں۔امریکا،فرانس اور برطانیہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں کے مفادات شایدابھی تک پورے نہیں ہوئے تھے۔اسلئے انہوں نے ترکی کی سرحدکے قریب شامی شہر عفرین میں کرد باغیوں کو ترکی کے خلاف ہتھیار مہیا کرکے ابھارا،تاکہ خانہ جنگی کی آگ بھڑکتی رہے۔ اگرچہ شام میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے لیکن حکومت میں زیادہ تر علوی فرقے کے افراد کا کنٹرول رہا ہے۔ مذہبی اقلیتوں نے اسد حکومت کی حمایت کی ہے لیکن علاقائی طور پر ایران اور سعودی عرب کے مابین جاری فرقہ وارانہ پراکسی جنگ کا شکار شام کی سرزمین بنی۔ ایران، عراق اور حزب اﷲ روایتی طور پر اسد کے حامی جبکہ قطر، سعودی عرب اور ترکی اس کے مخالف رہے ہیں۔ اسد کے خلاف اٹھنے والی تحریک کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عدم استحکام میں سامراج نے اپنے پنجے گاڑنے شروع کئے۔ سامراج نے اپنے مقاصد کے لئے فرقہ واریت کا کارڈ کھیلتے ہوئے اس لڑائی کو فرقہ وارانہ جنگ میں تبدیل کر دیا جس میں یہ تاثر دیا گیا کہ یہ لڑائی سنی اکثریت کی علوی اقلیت کے خلاف حق و باطل کی لڑائی ہے۔ حالانکہ یہ آپس میں لڑ نہیں رہے بلکہ عالمی استعماری طاقتیں انہیں ہتھیار مہیا کرکے، لڑا کر مسلمانوں کی نسل کشی مہم کو آگے بڑھا رہی ہیں ۔ اپنے جنگی ہتھیاروں اور بموں کو نہتے شامی بچوں، بوڑھوں، مردوں اور عورتوں پرٹیسٹ کر رہی ہیں ۔ جبکہ شامی اپنی حماقتوں کی وجہ سے تختہ مشق بنے ہوئے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان اپنے اندرونی تنازعات کو کسی پلیٹ فارم پر خود حل کرتے۔ او آئی سی تنظیم اپنا کردار ادا کرتی۔سعودیہ میں مسلمان ملکوں کاجنرل راحیل شریف کی سربراہی میں بننے والا فوجی اتحاد کردار ادا کرتا۔ لیکن لگتا کچھ یوں ہے کہ یہ اتحاد بھی مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کی خلیج مزید گہری کرنے کیلئے استعماری طاقتوں کے ایماء پر بنا ہے تاکہ مسلم امہ کی تباہی کیلئے ایران عراق کی طرز پر جنگ کی تاریخ کو دوبارہ دہرایا جائے۔ دعا ہے کہ شام کی مقدس سرزمین پر جلد از جلد امن قائم ہو۔

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 243583 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More