مَلِکُ العلماء علامہ ظفرالدین بہاری علیہ الرحمۃ والرضوان - ایک عظیم محقق

(۱۹ جمادی الاخریٰ ۱۴۳۹ہجری مطابق۸مارچ۲۰۱۸عیسوی آپ کے تاریخ وصال پرخصوصی تحریر)

نہ تخت وتاج میں نہ لشکروسپاہ میں ہے
جوبات مردِقلندرکی ایک نگاہ میں ہے
یہ روشن وتابناک دَورجسے عقل وخردکازمانہ کہاجاتاہے،جہاں اُس نے ذہن وفکرکونئی روشنی اورجدیداُجالے دیے ہیں وہیں روح کے بعض گوشوں کودبیزتاریکی اورگھنگوراندھیرابھی دیا۔اتنی گہری تاریکی کہ نئی روشنی کے ذہن ومزاج کے لئے خداکاوجودمشکوک ہوگیا۔رسولوں کی بے غباررسالت پرشکوک وشبہات کی گردغبارڈال دی گئی۔اولیاء اﷲ کی کرامتیں عہدِماضی کے قصّے قراردیے گئے۔انسانیت کواس تاریک ترین ماحول سے نجات دلانے کے لئے ضروری ہے کہ قدم قدم پرروحانیت کی مشعلیں روشن کی جائیں،شمعیں جلائی جائیں اورچراغ راہِ منزل کااُجالاکیاجائے ۔تاکہ عہدِجدیدکی مادّی تاریکیوں میں بھٹکنے والے لوگ اس شمع ہدایت کی رشنی میں اپنی منزل کانشان تلاش کرسکیں۔
ختم نبوت کے بعدسے آج تک علماء،صلحاء اوراولیاء کی مقدس جماعت نے دین متین کی اشاعت کے فرائض انجام دیئے ہیں اوراسی محترم جماعت نے کفروالحاداوربدمذہبیت کے تاریک ترین دَورمیں اسلام کی روشنی اوردین کااُجالاپھیلایاہے۔سچ پوچھئے توہمارے ملک ہندوستان میں اولیاء اﷲ اوران کی کرامتوں نے اسلام کی سب سے زیادہ خدمت کی ہے۔راجستھان کی خشک پہاڑیوں کے دامن سے لے کربنگال کی مرطوب سرزمین تک جہاں کہیں اسلام کوفروغ ہواوہ اُنہیں اصحابِ کرامت بزرگوں کے طفیل اورصدقے میں ہوا۔اولیاء اﷲ کی کرامتیں دِلوں کے سیاہ زخم پرچلانے کاایک تیزنشتراورکفرکاسینہ چاک کرنے کاایک عظیم خنجرہے۔اگرعطائے رسول ،حضرت خواجہ غریب نوازعلیہ الرحمۃ والرضسوان کی مبارک نعلین فضامیں پروازکرنے والے کاتعاقب نہ کرتی توشایدجوگی جے پال جیساساحر اِس قدرجلدمسلمان نہ ہوتا۔اولیاء اﷲ کی کرامتوں نے نہ جانے کتنے گمراہوں کوراہِ حق دکھایا۔ہدایتوں سے ہمکنارکیا اورصراط مستقیم کی راہ دکھائی اوررہتی دنیاتک دکھاتی ہی رہے گی۔
عہدحاضرکی لائق صدتکریم ذات اورقدم قدم پرعقیدتوں کے پھول نچھاورکئے جانے والے صوبہ بہارکی عظیم شخصیت ہے جامع علوم عقلیہ ونقلیہ،ابوالبرکات،جلیل القدرمحدث،زبردست مناظر،بلندپایہ محقق،بالغ نظرفقیہ،اسلامی دانشور،نکتہ سنج مفتی ،دقیق رس مصنف،ماہرمدرس،رہنمائے ملت،معمارقوم،مشائخ کے امیروسلطان،شہریارعلم وحکمت،مطلع فکرونظر،پیکرِاخلاص والفت،سادگی کے مجسمہ،حُسن عمل کے پیکر،پیشوائے طریقت،خلیفۂ اعلیٰ حضرت،مَلِکُ العلماء حضرت علامہ سیدظفرالدین بہاری قدس سرہٗ العزیزکی ،جن کی زندگی کاایک ایک لمحہ اورحیات کی ایک ایک ساعت سرمایۂ سعادت اوردولتِ افتخارہے۔جن کی ساری عمرشریعت کاعلم پھیلاتے اورطریقت کی راہ بتلاتے گزری اورجن کی زندگی کاایک ایک عمل شریعت کی میزان اورطریقت کی ترازوپرتولاہواہے۔اس دورمیں خودممدوح کی شخصیت مسلمانانِ ہندوستان کی سرمدی سعادتوں کی ضمانت ہے۔
اعلیٰ حضرت امااحمدرضاخان قدس سرہ العزیزکی ذات وشخصیت محتاج تعارف نہیں،وہ ہرمیدان کے شہشوارتھے۔ان کی درسگاہ فیض سے سرشارہونے والااپنی مثال آپ ہے۔امام احمدرضا صرف علوم ومعارف کادرس نہیں دیتے بلکہ باطنی صلاحیت ،روحانی فیض اورمشفقانہ کردارسے متعلم ومخاطب کومالامال کردیتے تھے۔خدادادصلاحیتوں اورباریک بینیوں کے ذریعے متلاشی علم کی لیاقت وصلاحیت،ذہانت وفطانت،قوت وکیفیت اوراستعدادواشتیاق کوبخوبی جانتے تھے۔اسی کے مطابق ہرایک کے اندراسی علم کی اکسپرٹ ڈالتے تھے،چنانچہ کوئی وقت کامحدث ،کوئی مصنف،کوئی مبلغ،کوئی جیدمدرس،کوئی باکمال خطیب ،کوئی ماہرمناظر،کوئی دین کاسپاہی وپاسبان،توکوئی ماہرعلم ہیت وتوقیت وجفروغیرہ بن کرچمکے،غرضیکہ من جانب اﷲ جوعلم ومعارف آپ کوحاصل تھے اس کی چھینٹیں جس پرپڑی وہ نیرتاباں ودرخشاں ستارہ بن کراٹھے۔آپ ہی کے دربارکے فیض یافتہ وخوشہ چیں،آپ کاہی روحانی فرزندملک العلماء، رائس الفضلاء حضرت علامہ مفتی سیدظفرالدین قادری ،برکاتی،رضوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی ذات پاک ہے۔
ولادت باسعادت ،تحصیل علم اوراجازت وخلافت :حضرت ملک العلماء کی ولادت باسعادت۱۰؍محرم الحرام ۱۳۰۳؁ھ 19 ؍اکتوبر1880؁ء کوصبح صادق کے وقت ’’موضع رسول پور،میجراضلع نالندہ،بہار‘‘میں ہوئی ۔والدماجدملِک عبدالرزاق اشرفی علیہ الرحمۃ نے خاندانی طرزکے مطابق چارسال،چارمہینہ،چاردن کی عمر(۱۳۰۷ھ)میں اپنے مرشدگرامی شاہ چاندبیتھوی کے دست مبارک سے آپؒ کی بسملہ خوانی کرائی ۔ابتداءً والدماجدکی آغوش تربیت میں رہے پھرقرآن کریم اوراُردوفارسی کی کتابیں حافظ مخدوم اشرف ،مولوی کبیرالدین اورمولوی عبدا لطیف سے پڑھیں۔پھراپنے نانہال موضع بین ضلع پٹنہ کے مدرسہ غوثیہ حنفیہ میں ۱۳۱۲؁ھ میں داخلہ لیاجہاں تفسیرجلالین اورمیرزاہدتک کادرس لیا۔مدرسہ غوثیہ حنفیہ کے اساتذہ نے آپ ؒ کی ذہانت وفطانت کودیکھتے ہوئے بہت شفقت کے ساتھ آپؒ کی تعلیم وتربیت کانظم فرمایا۔پھراعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے کانپوراورپیلی بھیت شریف کاسفرفرمایااوراخیرمیں بارگاہ اعلیٰ حضرت بریلی شریف میں تشریف لائے چونکہ اس وقت کوئی مستقل ادارہ وہاں نہیں تھاچنانچہ آپ ہی کی وجہ سے وہاں جامعہ منظراسلام کاقیام عمل میں آیااوروہیں رہ کرآپ نے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہٗ العزیز کی بارگاہ سے بخاری شریف،اقلیدس کے چھ مقالے،تشریح الافلاک ،تصریح،شرح چغمینی کادرس لیااورفتویٰ نویسی کے آداب سیکھے، اوراس طرح علم ہیئت،توقیت،جفر،تکسیراورریاضی جیسے نادرفنون میں غایت درجے کا کمال حاصل کیا۔اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ سے سلوک ظاہری اورباطنی منزلیں بھی طے کیں۔تصوف کی مشہورکتاب رسالۂ قشیریہ اورعوارف المعارف کاسبقاًسبقاً درس لیا،ذکربالجہر،پاس انفاس کے باطنی آداب سیکھے۔بالآخرآپ کی صفائے باطن سے متاثرہوکراعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان قادری قدس سرہٗ نے سال فراغ کے اخیرمیں آپ کوسلسلۂ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کی اجازت وخلافت مرحمت فرمادی۔
تدریسی خدمات : سال فراغ کے فوراً بعدحضرت ملک العلماء نے منظراسلام بریلی شریف میں تدریس،تصنیف اورافتانویسی کاسلسلہ شروع کردیا۔پھر1948؁ء میں مدرسہ اسلامیہ شمس الھدیٰ ،پٹنہ میں پرنسپل ہوئے اور1950؁ء میں ریٹائرہوئے۔ریٹائرمنٹ کے ڈیڑھ دوسال بعدشاہ شاہدحسین درگاہی میاں سجادہ نشیں بارگاہ عشق ،متین گھاٹ پٹنہ کی استدعاء پر۱۳۷۱؁ھ میں کٹیہار(بہار)میں’’ جامعہ لطیفیہ بحرالعلوم ‘‘کاافتتاح فرمایااوراپنی کوششوں سے اُسے کافی فروغ وعروج بخشا۔جب یہ ادارہ مستحکم ہوگیاتوآپ ربیع الاول شریف ۱۳۸۰؁ھ میں اپنے دولت کدے ’’ظفرمنزل‘‘شاہ گنج پٹنہ آگئے ۔پچپن سال کے طویل تدریسی ایام میں ہزاروں تلامذہ آپ کے سرچشمۂ فیض سے سیراب ہوئے اورایک عالم کوفیض یاب کیا۔آپ نے اس دوران فتویٰ نویسی ،وعظ وتلقین،تصنیف وتالیف،بیعت وارشاد،مناظرہ اورقضاء جیسے گوناگوں مشاغل سے رابطہ رکھا۔ان کثیرمصروفیات کے ہجوم میں صوفیانہ اذکارکے لئے بھی آپ نے اوقات خاص کررکھے تھے۔قادرمطلق نے آپ کے اوقات میں عجب برکتیں دے رکھیں تھیں لیکن اس ذیل میں آپ کے اوقات کی منضبط تقسیم کابھی خاصادخل تھا۔
علوم وفنون میں دسترس : حضرت ملک العلماء علامہ ظفرالدین بہاری ؒ علم وفن کی بیشترشاخوں پردسترس رکھتے تھے خصوصاً علوم اسلامیہ میں اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان فاضل بریلوی قدس سرہٗ العزیز کے علمی اورفکری جانشین تھے۔علوم قرآن ،تفسیر،اصول تفسیر،تجویدوقرأت،علوم حدیث،حدیث،اصول حدیث،فقہی علوم ،فقہ، اصول فقہ،عقائد وتصوف،بلاغت،عروض،ادب،لغت،نحووصرف،معانی وبیان،فلکیاتی علوم ،نجوم،ہیئت ،توقیت،تکسیر،جفر،رمل،عقلی علوم منطق،فلفسہ،ریاضی،علم عدد،،علم ہندسہ،علم الجبرا،علم جبرومقابلہ،علم کیمیاء،علم مثلت کروی اورعلم مربع وغیرہ جیسی علمی شاخوں سے آپ کونہ صرف واقفیت بلکہ ان پرکامل دسترس حاصل تھی۔اس وسعت علمی پرآپؒ کی تحریریں بہترین شہادت ہیں جن میں مذکورہ سبھی علوم کی چاندنی پھیلی ہوئی ہے اورایساکیوں نہ ہودبستان رضاکے خوشہ چیں جوٹھہرے۔آپؒ کی اس علمی لیاقت کااکرامی اعتراف خودآپ کے مربی اورمشفق استاذ اورمرشد،عبقری الشرق اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان قادری برکاتی بریلوی قدس سرہٗ نے فرمایاہے۔چنانچہ اعلیٰ حضرت انجمن نعمانیہ لاہورکو5؍شعبان المعظم ۱۳۲۸؁ھ کے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں :’’مکرمی مولانامولوی محمدظفرالدین صاحب قادری سلمہٗ فقیرکے یہاں کے اعزطلباء سے ہیں اورمیرے بجان عزیز۔ابتدائی کتب کے بعدیہیں تحصیل علم کی اوراب کئی سال سے میرے مدرسہ میں مدرس اوراس کے علاوہ کارافتاء میں میرے معین ہیں۔میں یہ نہیں کہتاکہ جتنی درخواستیں آئی ہوں ،سب میں یہ زائد ہیں مگراتناضرورکہوں گا:’’سنی ،خالص،مخلص،نہایت صحیح العقیدہ ،ہادی مہدی ہیں۔عام درسیات میں بفضلہ تعالیٰ عاجز نہیں ،مفتی ہیں ،مصنف ہیں،واعظ ہیں،مناظرہ بعونہ تعالیٰ کرسکتے ہیں،علمائے زمانہ میں علم توقیت سے تنہاآگاہ ہیں،فقیرآپ کے مدرسے کواپنے نفس پرایثارکرکے انہیں آپ کے لئے پیش کرتاہے‘‘۔(حیات ملک العلماء ,ص7-8 مطبوعہ لاہور-فتاویٰ ملک العلماء،ازمفتی ساحل شہسرامی مصباحی)
علم طب ،توقیت میں مہارت اورتصنیف وتالیف : حضرت ملک العلماء کوعلم طب میں غیرمعمولی مہارت حاصل تھی چناچہ جب کبھی علالت ونقاہت میں مبتلاء ہوئے توبارگاہ امام احمدرضاؒمیں عرض گزار ہوتے پھراعلیٰ حضرت ؒفیض نبی وعطائے نبی سے اس کاعلاج تحریرفرماتے جس میں کئی کئی نسخے اورادویات کاتذکرہ ہوتااورآپ انھیں سارے نسخوں وفرمودا ت پر عمل کرتے۔آج پوری دنیاکے مسلمانوں پرآپ کااحسان عظیم ہے کہ اس وقت تک مساجدومعابدمیں اوقات الصلوٰۃ (ٹائم ٹیبل) کا فقدان تھاسب سے پہلے آپ نے ہی عطائے الٰہی اورفیض بارگاہ امام ااحمدرضاسے نقشۂ اوقات صوم وصلوٰ ۃ مرتب فرمایاجوآج ہرمسجدکی زینت ورونق بنی ہوئی ہے۔اس علم پرکتاب لکھنے اوراس کوعام کرنے میں آپ کواول مقام حاصل ہے۔چونکہ بارگاہ اعلیٰ حضرت ؒسے آپ کوسب کچھ عطاہوااس لئے آپ کی تحریروتصنیف کابھی ایک گراں قدرسرمایہ وخزانہ موجودہے ۔آپ کی ساری تصانیف اخلاص اورعقیدت کے جذبے سے سرشارہوکرمعرض تحریرمیں آئیں جن میں سے چندیہ ہیں’’صحیح البھاری، توضیح التوقیت،جواہرالبیان،عافیہ،وافیہ،تذہیب،تقریب،الجواہروالیواقیت فی علم التوقیت،الاکسیرفی علم التکسیر،القول الاظہرفی الاٰذان بین یدی المنبر،تنویرالمصباح للقیام عندحی علی الفلاح،نصرت الاصحاب باقسام ایصال الثواب،عیدکاچاند،حیات اعلیٰ حضرت ۴؍جلدیں،چودہویں صدی کے مجدد،مشرقی اورسمت قبلہ،مؤذ ن الاوقات،فتاویٰ ملک العلماء،شرح الشفاء للقاضی عیاض،مولودرضوی،مبین الھدیٰ فی نفی امکان مثل المصطفیٰ،تنویرالسراج فی ذکرالمعراج،اعلام الاعلام باحوال العرب قبل الاسلام،خیرالسلوک فی نسب الملوک،جواہرالبیان فی ترجمۃ خیرات الحسان،المجمل المعددلتالیف المجدد,النوروالضیاء فی سلاسل الاولیاء‘‘۔(فتاویٰ ملک العلماء)
فقہ حنفی کی تائیدوتصوف میں احادیث مبارکہ کاایک عظیم ذخیرہ ’’جامع الرضوی معرف بہ صحیح البہاری‘‘ چھ جلدوں میں جومذہب حنفی اورفقہ حنفی کاعظیم شاہکارہے اوریہ آپ کی سب سے انمول یادگارہے ۔علم فقہ ،جزئیات فقہ اورفتاویٰ پرکمال وقدرت کااندازہ کرناہوتوفتاویٰ ملک العلماء پڑھ لیجئے بس آپ کویقین ہوجائیگاکہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضاکایہ تربیت یافتہ روحانی فرزند کسی میدان میں کسی سے کم نہیں ہے۔
آپ کی کرامت : آپ سے کرامتوں کابھی صدورہواجن میں سب سے مشہورکرامت یہ ہے کہ مالدہ بستی کے چندی پورگاؤں میں ایک جلسہ سے خطاب فرمانے کے لئے تشریف لائے جلسے کی کاروائی حسب معمول چل رہی تھی جب حضرت ملک العلماء ممبررسول پرتشریف فرماہوئے تواچانک بادل گرجنے وبجلی چمکنے لگی لوگوں میں خوف ودہشت کاماحول برپاہوگیاآپ نے کچھ پڑھ کر فرمایاکہ سبھی لوگ پنڈال کے اندرآجائیں آپ کوکوئی نقصان نہ ہوگاچنانچہ سارے لوگ پنڈال کے اندرآگئے اوربارش پنڈال کے گردونواح میں ہوتی رہی مگراہل مجلس پرایک قطرہ بھی نہیں ٹپکااورسارے لوگ ہمہ تن گوش ہوکرحضرت ملک العلماء کی تقریرسے مستفیض ہوتے رہے۔
علالت اوروصال پرملال: حضرت ملک العلماء عرصے سے فشارالدم کے مرض میں مبتلاء تھے جس کی وجہ سے کافی نحیف ہوگئے تھے۔اس عالم نقاہت میں بھی آپ کے معمولات شب وروز میں کوئی فرق نہ آیا۔ریاضتوں کے وہی سلسلے تھے اورعلمی مصروفیات بھی اپنی جگہ تھیں۔بالآخریکشنبہ کادن گذارکردوشنبہ کی شب میں۱۹؍جمادی الاخریٰ۱۳۸۲؁ھ مطابق ۱۸؍نومبر1962؁ء اسم ذت کاذکربالجہرکرتے ہوئے اس طرح پرسکون اندازمیں اپنے محبوب حقیقی کے حضورحاضرہوگئے کہ حاضرین کوکچھ دیرتک اس بات کااحساس بھی نہ ہوسکاکہ آپ لذت وصال سے شادکام ہوچکے ہیں ۔دوسرے دن حضرت شاہ محمدایوب شاہدی رشیدی سجادہ نشیں خانقاہ اسلام پورپٹنہ نے ،جن سے حضرت ملک العلماء کوفردوسی ،شطاری وغیرہ سلاسل کی اجازت حاصل تھی ،آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اوردرگاہ شاہ ارزاں کے قبرستان (شاہ گنج -پٹنہ)میں تدفین عمل آئی ۔ اور آج آپ کامزار شاہ گنج (پٹنہ)کی قبرستان میں مر جع خلائق ہے۔(فتاویٰ ملک العلماء)
آپ کے تلامذہ : آپ کی درسگاہ فیض سے مستفیض ہونے والے ’حضرت خواجہ شاہ چراغ عالم لطیفی،حضرت خواجہ شاہ شمس العالم لطیفی،مولانامفتی عین الھدیٰ صاحب،مفتی قاضی نورپرویزصاحب،امام علم وفن حضرت خواجہ مظفرحسین صاحب پورنویؒ،امام النحومفتی بلال احمدنوری صاحب،مفتی غلام مجتبیٰ اشرفی صاحب سابق شیخ الحدیث منظراسلام بریلی شریف، اورعلامہ ضیاء جالوی‘‘کے نام خاص طورپرقابل ذکرہیں۔آپ کے سچے جانشیں آپ ہی کے فرزندارجمندپروفیسرمختارالدین آرزوؔتھے جوعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ عربی کے لکچراراوروائس چانسلرمظہرالحق عربی فارسی یونیورسٹی (پٹنہ) تھے۔
مولیٰ تعالیٰ کی بارگاہ عالی جاہ میں دعاء گوہوں کہ آپ کافیضان ہم تمام مسلمانوں پرتاقیامت جاری وساری فرمااوران نفوس قدسیہ کی سچی الفت و محبت عطافرما۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اﷲ علیہ وسلم ۔

Md Sadre Alam Misbahi
About the Author: Md Sadre Alam Misbahi Read More Articles by Md Sadre Alam Misbahi: 87 Articles with 87344 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.