جام ساقی ---میری یادیں

جام ساقی کی کئی باتوں سے میں پوری طرح متفق کبھی نہیں ہوا لیکن جن باتوں سے متفق ہوا ان کے بارے میں حسرت ہی رہی کہ کاش ان پر عمل ہو جائے

سندھ کے صحرائی علاقے تھرپارکر کے گاؤں جنجھی میں پیدا ہونے والے اور بعد میں اپنی سوچ و دانش کے مطابق ملک کے حالات بدلنے کے متمنی جام ساقی کی کئی باتوں سے میں پوری طرح متفق کبھی نہیں ہوا لیکن جن باتوں سے متفق ہوا ان کے بارے میں حسرت ہی رہی کہ کاش ان پر عمل ہو جائے

یہ 1968 کا زمانہ تھا جب میں سندھ یونیورسٹی جامشورو میں پہلی بار جام ساقی سے متعارف ہوا

یہ 1968 کا زمانہ ہی تھا جب میں انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں پہلی بار تبلیغی جماعت سے متعارف ہوا

آج پچاس برس گزر گئے اور میں نے دونوں سے بہت ہی ہلکے پھلکے تعلقات برقرار رکھے -

جہاں کہیں جام ساقی کا تذکرہ ہوتا میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سننے لگ جاتا - کہیں اس کے بارے میں بات ہوتی تو بے چین ہو کر معلوم کرنا چاہتا تھا کہ کیا بات ہورہی ہے - کہیں ان کا انٹرویو نظر آتا تو کوشش کرتا کہیں سے اسے حاصل کروں اور پڑھوں - سندھی میں لکھ ہوتا تو اسے محفوظ کر لیتا اور صحیح طریقے سے ترجمہ سنتا

اسی طرح کہیں بھی تبلیغی جماعت آتی تو سب سے پہلے میں آگے بیٹھ کر ان کا بیان سنتا حالانکہ ان کی کئی باتوں سے نامتفق ہوتا اور آج بھی ہوں لیکن ان کا بیان نہ سنوں تو بے چینی سی لگی رہتی ہے - کئی مرتبہ بیان کر نے والے صوبہ پختون خوا کے افراد ہوتے

لیکن ان سب باتوں کے باوجود جب مجھے علم ہوا کہ جام ساقی نے تبلیغی جماعت میں شرکت کر لی ہے تو مجھے بہت حیرت ہوئی - ان کی جد و جہد کا میدان الگ تھا - اس میں کوششیں جاری رہنی چاہئے تھیں - کیا وہ مایوس ہو گئے تھے - ان کا اس زمانے میں ایک انٹرویو بھی ٹی وی پر آیا تھا - لیکن اس انٹرویو کے بارے میں میری یاد داشت میں کچھ باقی نہیں - یا غالبا" اس انٹرویو نے متاثر نہیں کیا

کیا کسی کو ان کے اس دور کے بارے میں پتہ ہے کہ وہ کیا کہہ رہے تھے -- اس دور میں کیا سوچ رہے تھے - میں سمجھتا ہوں کہ فرسٹریٹ ہو کر کئی لوگ تبلیغ میں چلے جاتے ہیں - سکون ملتا ہے یا نہیں ؟ میں نہیں کہہ سکتا -

کہنے تو میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ جنید جمشید بھی تبلیغ میں چلے گئے تھے اور آخری دم تک رہے - لیکن جنید جمشید کے تبلیغی جماعت میں جانے نے میرے ذہن کو جھٹکا نہیں دیا کیونکہ وہ فقط ایک گلوکار تھے جن کا کوئی نظریہ نہیں تھا -
لیکن جام ساقی تو شروع سے ہی اپنی ذات میں دانش و فہم کا ایک مینار تھے -ان کی اپنی ایک سوچ تھی -اپنا ایک نقطہ نظر تھا - اس لئے ان کے تبلیغی جماعت میں جانے پر حیرت زدہ ہو نا بجا تھا - کیا کوئی جام ساقی کے اس تبلیغی دور کے بارے میں روشنی ڈال سکتا ہے

میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ سوشلسٹ نظریہ کسی بھی ملک میں ایک خاص محدود مدت کے لئے کار آمد ہے وہ بھی ایک سخت مضبوط حکومت اور اچھی مخلص ٹیم کی موجودگی کے ساتھ -----

اسی لئے مہاتیر نے اپنی خود نوشت "ایشیا کا مقدمہ"میں لکھا کہ " امیر لوگوں سے چھین کر پیسے دینا بیمارانہ طریقہ ہے -

جام ساقی کی ایک تقریر (مافی الضمیر --اصل نہیں ) جو انہوں نے کوٹری میں صنعتی مزدوروں سے خطاب کرتے ھوئے کی -یہ تقریر شام کو چھپنے والے انگریزی اخبار غالباً "اسٹار " میں چھپی تھی -اس سے میں کافی متاثر ہوا تھا - انہوں نے کہاتھا

میں یہ سمجھتا ہوں کہ صنعتی اداروں میں کام کرنے والے مزدوروں کے مسائل حل ہو گئے ہیں -انکے لئے قانون سازی ہو چکی ہے - -یہ الگ بات ہے کہ ان پر عمل نھیں ہوتا -اگر مسائل حل نہ ہوں تو انہیں حل کرنے کے لئے خصوصی مزدور عدالتیں موجود ہیں - اپنی عدالتوں کا نظام صحیح کروائیں
-
لیکن کیا کبھی آپ لوگوں نے سوچا ہے کہ آپ کے ان صنعتی اداروں سے ذرا فاصلے پر ریل کی پٹری ُ کے اس پار -----کھیتوں میں کام کرنے والے دہقان - بیج بونے والے ہاری --زمیں کھودنے والے کسان اب تک ان باتوں سے محروم ہیں -

انہیں خبر ہی نہیں کہ ان کے مسائل کیا کیا ہیں ---جب انھین رات تین بجے بلایا جاتا ھے کہ کھیتوں میں پانی لگانا ھے تو انہیں علم ہی نہیں ہوتا کہ اس کے لئے انہیں کوئی نائٹ الاؤنس ملنا چاہیئے

جب کٹائی کا موسم آتا ہے ان کی مائیں بہنیں مرد بچے عورتیں (بچے اسکولوں سے چھٹی کر لیتے ہیں) وہ اس بات سے قطعی لاعلم ہیں کہ یہ زاہد افرادی قوت جو لگ رہی ھے اس کا بھی انھیں صلہ ملنا چاہیئے - -

-پھر کبھی آپ نے سوچا کہ اس دوران انہیں کوئی سانپ کاٹ لے تو اس کے لئے کوئی طبی سہولت موجود نہیں - جیسا کہ صنعتی اداروں میں اوقات کار میں حادثہ ھو جائے تو خصوصی سہولت و مراعات دی جاتی ہیں
- -

کھیتوں میں کام کرنے والا مزدور ان باتوں کو جانتا بھی نہیں --
اس بناہ پر میں آپ سے ( صنعتی مزدوروں) سے یہ کہنے آیا ہوں کہ کہ آپ میرے ساتھ دیہات میں چلیں وہاں کام کریں
وہان لوگوں کو بتائیں کہ صنعتی ادارون میں مزدوروں کو کیا حقوق حاصل ھیں اور زراعت میں کام کرنے والے مزدوروں کو کیسے ان سے محروم رکھا گیا ہے آپ کو ان کے لئے جد و جہد کرنی ہے

Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 355037 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More