حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی زندگی کا ہر باب چودہویں
کے چاند کی مانندروشن و تاب ناک ہے۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے منصبِ خلافت سنبھالنے
کے بعد حضور ﷺ کی بے مثال محبت اور سچی نیابت کا حق ادا کیا۔ آپ رضی اﷲ عنہ
کو افضل البشر بعد الانبیاء کا بلند مقام عطا ہوا۔ آپ رضی اﷲ عنہ کی زندگی
خدمتِ خلق اور خدمت اسلام کے لیے وقف تھی۔ آپ رضی اﷲ عنہ کے خدمت خلق کے
واقعات ہر دور کے حکمرانوں کے لیے مثالی نمونہ ہیں۔ آپ رضی اﷲ عنہ کی اس
صفت سے قریش کے لوگ بھی انکار نہیں کرتے تھے۔ ایک موقع پر جب حضرت ابو بکر
صدیق رضی اﷲ عنہ کفار کی سختیوں سے تنگ آکر مکہ چھوڑنے لگے تو ابن دغنہ نے
آپ رضی اﷲ عنہ کا راستہ روک لیا اور کہنے لگا:
إن مثلک لا یخرج ولا یخرج فإنک تکسب المعدوم وتصل الرحم وتحمل الکل وتقری
الضیف وتعین علی نوائب الحق۔(صحیح البخاری : ۲۲۹۸)
آپ جیسے شخص کو یہاں سے نہیں جانا چاہیے، نہ ہم جانے دیں گے، کیوں کہ آپ
ناداروں کی مدد کرتے ہیں ، کمزوروں کا بوجھ اٹھا تے ہیں ،مہمان نواز ہیں
اور مصیبت زدہ لوگوں کے کام آ تے ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ایسے خاندانوں کی مدد کرتے تھے جو معاشی لحاط
سے غریب اور نادار ہوں۔ ان میں سے ایک حضرت مِسطح جو آپ رضی اﷲ عنہ کے خالہ
زاد بھائی تھے۔ یہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے تو ان کے پاس کچھ نہ تھا۔
لہٰذا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے ان کا ماہانہ وظیفہ مقرر کردیا۔ آپ رضی اﷲ
عنہ ذاتی طور پر بھی گھر گھر جاکر غریبوں ، ناداروں اور بیواؤں کی خدمت کیا
کرتے تھے۔ لوگوں کے لیے بازار سے سامان خرید کر لایا کرتے تھے۔
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روزانہ صبح کی نماز کے بعد حضرت ابو بکر صدیق
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دیکھتے تھے کہ وہ نماز ختم کرتے ہی جلدی سے چپکے سے
باہر نکل جاتے اور مدینہ شریف کے مضافاتی علاقوں کے ایک دیہات کی جانب رختِ
سفر باندھ لیتے۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے کئی بار ارادہ کیا کہ اس کا
سبب پوچھ لیں لیکن نہیں پوچھ سکے۔ ایک دن وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ
کے پیچھے چل دیے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ ایک خیمے میں داخل ہوئے ،
کافی دیر بعد جب وہ باہر نکل کر دوبارہ مدینے کی جانب روانہ ہوئے تو حضرت
عمر فاروق رضی اﷲ عنہ اس خیمے میں داخل ہوئے اور وہاں یہ منظر دیکھا کہ ایک
نابینا بوڑھی عورت دو چھوٹے بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے۔ حضرت عمر فاروق
رضی اﷲ عنہ نے اس بڑھیا سے پوچھا : اے اﷲ کی بندی تم کون ہو؟ اس نے جواب
دیا: میں ایک مفلس و نادار اور نابینا عورت ہوں۔ میرے والدین ہمیں اس حال
میں چھوڑ کر دنیا سے گئے ہیں کہ میرا اور ان دو لڑکیوں کا اﷲ کے سوا کوئی
اور آسرا نہیں ہے۔حضرت عمر فا روق رضی اﷲ عنہ نے دوبارہ سوال کیا : یہ شیخ
کون ہے جو تمہارے گھر میں آتا ہے؟ بوڑھی عورت جو کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ
سے ناواقف تھی ‘ اس نے جواب دیا کہ میں اس شیخ کو جانتی تو نہیں مگر یہ
روزانہ ہمارے گھر میں آکر جھاڑو دیتا ہے، ہمارے لیے کھانا بناتا ہے اور
ہماری بکریوں کا دودھ دوہ کر ہمارے لیے رکھتا اور چلا جاتا ہے۔(روضۃ
المحبین)
خدمتِ خلق کے معاملے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ ہمیشہ پیش پیش رہا
کرتے تھے۔ ہر نیکی میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ آپ نے دورِ خلافت
میں بھی نیکی کا کوئی موقع نہیں گنوایا ۔ وہ نیکی چاہے کسی کی مالی مدد
کرنے سے متعلق ہو یا کسی کے گھر میں کام کاج کرنے کے متعلق ہو، آپ اس سے
نہیں کتراتے تھے۔ ہمیشہ خدمتِ خلق کا جذبہ ہوتا تھا ۔ آپ کے دور ِ خلافت کا
واقعہ ہے کہ مدینہ منورہ کے اطراف میں ایک نابینا بوڑھی عورت رہا کرتی تھی۔
اس کے کوئی رشتہ دار، عزیز و اقارب نہیں تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ
روزانہ رات کے وقت اس بڑھیا کے گھر تشریف لے جاتے اس کے گھر کا تما م کام
اپنے ہاتھوں سے کرنے کے بعد پانی بھر کر چلے جاتے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر
فاروق رضی اﷲ عنہ اپنے معمول کے مطابق رات کے وقت اس بڑھیا کے گھر تشریف لے
گئے ۔ آپ نے دیکھا کہ اس بڑھیا کے گھر کا سارا کام کوئی اور کر کے چلا گیا
۔کچھ دنوں تک یہی معمول رہاکہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ جب بڑھیا کے گھر پہنچتے
تو اس کے گھر کا کام پہلے ہی کوئی اور کرکے جاچکا ہوتا تھا۔ اس بات پر حضرت
عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کو جستجو ہوئی یہ کون ہے جو مجھ سے پہلے ہی یہ کام
کرکے چلا جاتا ہے ۔ اس بات کا کھوج لگانے کے لیے وہ اگلے دن اس بڑھیا کے
گھر جلدی پہنچے اور ایک جگہ چھپ کر انتظار کرنے لگے۔ تھو ڑا وقت ہی گزرا
تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ آئے اورچپکے سے اس بڑھیا کے گھر میں
داخل ہوکر کام کرنا شروع کردیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ بڑے حیران ہوئے
کہ خلیفہ وقت ہونے کے باوجود آپ اس بوڑھی خاتون کے تمام امور خوش دلی سے
انجام دے رہے ہیں۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا: حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ
عنہ مجھ سے نیکیوں میں سبقت لے جاتے ہیں۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ اپنے گھر کا کام اپنے ہاتھوں سے کرنے میں
کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ اکثر بھیڑ بکریاں خود ہی چَرالیتے تھے۔ محلہ
میں اگر کسی کاکوئی کام ہوتا تو وہ بھی کردیا کرتے تھے۔ ناداروں کی مدد
کرنے میں آپ رضی اﷲ عنہ قلبی و روحانی سکون محسوس کیا کرتے تھے۔ کمزوروں کا
بوجھ اٹھایا کرتے تھے۔ آپ رضی اﷲ عنہ مصیبت زدہ لوگوں کے کام آیا کرتے تھے۔
یہاں تک کہ جب آپ خلیفہ بنادیے گئے تو پھر بھی آپ کے معمولات میں کوئی فرق
نہیں آیا۔جب آپ رضی اﷲ مصنبِ خلافت پر فائز ہوئے تو محلہ میں ایک لڑکی کو
یہ فکر ہوئی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ تو ا ب خلیفہ منتخب ہوگئے ہیں
۔ اب ہماری مدد کون کرے گا؟ ہمارے کام کون انجام دے گا؟ ہماری بکریوں کا
دودھ کون دوہے گا؟ اس لڑکی نے یہ گمان کیا کہ اپنے کام خود کرنا یا کسی اور
کے کام کرنا خلیفۂ وقت کے شایان شان نہیں ہے ۔ خلیفہ یا بادشاہ کے سارے کام
اس کے نوکر چاکر اور درباری کرتے ہیں۔ چہ جائے کہ وہ اپنے کام خود کرے یا
دوسروں کی بکریوں کا دودھ نکالے۔ لیکن قربان جائیے خلیفہ اول پر جب آپ رضی
اﷲ عنہ نے اس قسم کی بات سنی تو ارشاد فرمایا: اﷲ کی قسم میں بکریاں دوہوں
گا اور مجھے امید ہے کہ خلافت کا منصب مخلوق کی خدمت کرنے سے باز نہیں رکھے
گا۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرت عمر
فاروق رضی اﷲ عنہ نے نظام ِ خلافت سنبھا لا تو آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت ابو
بکر صدیق رضی اﷲ عنہ با قاعدگی کے ساتھ فلاں علاقہ میں ایک غریب بوڑھی عورت
کواپنے ہا تھوں سے کھانا کھلا یا کرتے تھے توحضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے
یہ فریضہ انجام دینے کا ارادہ کیا اور جب آپ پہلے دن اُس نا بینابوڑھی عورت
کو کھانا کھلانے لگے اور آپ نے روٹی کا لقمہ توڑ کر اُس کے منہ میں ڈالا تو
اُس بوڑھی نا بینا عورت کی چیخ نکل گئی اور وہ عورت رونے لگی اور کہا کہ
لگتا ہے کہ امیر المومنین (حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ )اس دنیا میں نہیں
رہے کیونکہ جب وہ روٹی کا لقمہ میرے منہ میں ڈالتے تھے تو منہ میں ڈالنے سے
پہلے وہ اس کو اچھی طرح چبا کر میرے منہ میں ڈالا کرتے تھے کیونکہ میرے منہ
میں دانت نہیں ہیں اور وہ مجھے چبا چبا کر کھلاتے تھے آج کیونکہ آپ نے سالم
لقمہ میرے منہ میں ڈالا ہے تو میں نے محسوس کیا ہے کہ آج مجھے کھا نا
کھلانے والا کوئی اور ہے۔ الغرض خلیفۂ اول کی پوری زندگی خدمت اسلام اور
خدمتِ خلق کے لیے وقف تھی ۔ خلافت کی بہت بڑی ذمہ داری ہونے کے باوجود آپ
رضی اﷲ عنہ رفاہِ عامہ اور خدمت خلق میں پیش پیش رہتے تھے۔ درحقیقت آپ رضی
اﷲ عنہ کی زندگی کے گوشے گوشے میں رہتی دنیا تک کے حکمرانوں کے لیے پیغا م
ہے۔ ہمیں بھی ملک کی بقا کے لیے اسلام کے خدمت ِخلق کے تصور کو عملی جامہ
پہنانا ہوگا کیونکہ زندگی کا مقصد دوسروں کے کام آنا بھی ہے۔اسلام میں حقوق
اﷲ کی طرح حقوق العباد پر بہت زور دیا گیا ہے۔ خدمت خلق اور رفاہی کام
اسلام کی نگاہ میں عظیم نیکی ہیں۔ خدمت خلق انسانیت کی معراج اور ایمان کا
تقاضا ہے۔ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا اندازِ خلافت اور
جذبۂ خدمتِ خلق موجودہ دور کے حکمرانوں کے لیے بھی مشعل راہ ہے۔ |