ہم یوں بے وفا ہوئے

کچھ صدمہ انسان کو اپنا آپ بھلا دیتے ہیں تو کچھ خود شناسی عطا کرتے ہیں۔اصل تک پہنچنا مشکل ہے۔

کبھی کبھی آپ کچھ لوگوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ کچھ لوگوں کے نظریات اور خیالات نئے ہونے کی وجہ سے ہمیں ہضم تو نہیں ہوتے لیکن ان کی بازگشت دیر تک کانوں میں گونجتی رہتی ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا ،جب مجھے ایک سفر پر جانے کا اتفاق ہوا۔ میری بہن جو اسلام آباد میں مقیم ہے اس نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ اس کا آپریشن تھا ،وہ چاہتی تھی کہ میں اس کے ساتھ رہوں ۔ہم میں محبت بھی کچھ ایسی ہے کہ میں مصروفیت کے باوجود انکار نہ کر سکی۔ لیکن کراچی سے اسلام آباد کا سفر کیسے کیا جائے ،یہ ایک الگ سوال تھا۔ چونکہ مجھے اکیلا جانا تھا تو ہوائی جہاز ہی سب سے اچھا آپشن تھا۔ ایرپورٹ تک جانے کے لیے میرے شوہر نے (کریم ) سے گاڑی منگوا لی ۔ ان کی بہت اہم مصروفیات کے باعث وہ مجھے ایر پورٹ نہیں چھوڑ سکتے تھے۔

میں نے ان کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے ان سے تعاون کیا انہوں نے مجھے گاڑی تک چھوڑتے ہوئے ، ڈرائیور کی معلومات چیک کی تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی ۔ میں نے افسردگی سے کہا ۔ آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں ۔ تو انہوں نے تمسخر خیز لہجے میں کہا۔ڈرائیور ایک عورت ہے۔مجھے بھی سن کر تھوڑی حیرت تو ہوئی۔ اس طرح ڈرائیور بننا عورتوں کے لیے کیا ٹھیک ہے ؟ دماغ میں ایک گھنٹی سی بجی۔

میرے شوہر نےمجھے گاڑی میں بیٹھایا اور اللہ حافظ کرتے ہوئے واپس چل دیے۔ ایر پورٹ کا راستہ گھر سے کافی دور تھا ۔ مجھے دو گھنٹے اسی گاڑی میں جانا تھا میں نے اس عورت کی شکل دیکھنے کی کوشش کی ۔ میری کوشش کو وہ دیکھ رہی ہے ،مجھے اس کا اندازہ نہیں ہوا۔ اس نے درمیان والے شیشےمیں دیکھتے ہوئے ،مجھے مخاطب کیا۔ مردوں کا گھورنا تو سمجھ میں آ تا ہے مگر آپ مجھے کیوں گھور رہی ہیں ۔ میں شرمندہ سی ہو گئی۔ جیسے کسی نے میری چوری پکڑ لی ہو۔

وہ چہرے سے چالیس سے پچاس کے درمیان کی عورت تھی ۔ جس کے بال اس طرح سفید تھے کہ وہ اچھے لگ رہے تھے ۔ اس کے نقوش سے لگ رہا تھا کہ اپنی جوانی میں بہت خوبصورت رہی ہو گی۔ میں کوشش کے باوجود بھی اپنے آپ کو اسے دیکھنے سے نہ روک سکی ۔ میری نظر فرنٹ والے آئینہ میں بننے والی شبیہ سے ہٹ ہی نہیں رہی تھی۔ اس نے پھر مجھے آئینہ میں دیکھتے ہوئے مخاطب کیا؟ آپ کو حیرت ہو رہی ہے کہ میں ڈرائیور ہوں یا پھر کسی کے چہرے کے ساتھ میرے چہرے کی مماثلت کر رہی ہیں ۔ اس بار میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکی ۔ میں نے اقرار کیا کہ مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ ایک عورت جس نے اپنی ظاہری حالت مردوں کی سی ہی رکھی ہوئی ہے ،ڈرائیور ہے۔اپنے کندھوں سے اوپر بالوں کے باوجود اس میں نسوانی حسن مومود تھا۔ وہ دبلی پتلی اور خوبصورت عورت تھی۔ میں نے غیر دانستہ طور پر اس سے سوال کیا۔ آپ کو ڈرائیو کرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا ۔ میرا مطلب ؟میں نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔

وہ مسکرائی اور بولی۔ کبھی کبھی انسان ہر ڈر سے باہر نکل جاتا ہے۔ میں جب تمہاری عمر کی تھی تو مجھے بھی ڈر لگتا تھا۔ پھر کسی نے سب کچھ نکال لیا۔ ہرفضول احساس ۔اس کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور آ کر گزر گیا۔ مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے بے اختیار کہا۔ آپ کسی سے محبت کا کہہ رہی ہیں ۔سگنل سرخ ہو چکا تھا اور اس کا چہرہ بھی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔ میں نے فوراً کہا ۔ وہ دراصل میں کہانیاں لکھتی ہوں ۔ دوسروں سے ان کی زندگی سے متعلق پوچھ لینا میرا شوق ہے۔ اگر آپ کو بُرا لگا تو میں معذرت خواہ ہوں ۔

سگنل سبز ہو چکا تھا ، گاڑی آگے بڑھی ، مگر ایک خاموشی ہم دونوں کے درمیان تھی۔ میں اس کے بالوں کو دیکھ رہی تھی، اچانک سے اس کی آواز نے میری سماعت کو متوجہ کیا۔ تو آپ میری کہانی جاننا چاہتی ہیں ؟ چلو اچھا ہے ، شاہد کہ کوئی عورت میری کہانی سن کر سدھر جائے۔ میں اس کا مطلب نہیں سمجھی تھی۔ مگر میں سمجھنا چاہتی تھی۔ اسے دیکھ کر عجیب سے شعر میرے دماغ میں بن رہے تھے۔
مسافت کاخیال ہو کِسے کہ کوئی کتابی چہرہ
سفر میں راستوں کا خیال جوبھلا دیتا ہو
کیا ہو گا اس گلشن کا جب کوئی گلاب
اپنا چہرہ کانٹوں میں ہی چھپا لیتا ہو

میں نے اپنے دماغ کو جھٹکا اور اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا، آپ نے مجھ سے کچھ کہا۔ وہ مسکرائی ۔جی ہاں ۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ آپ نے کوشش تو بہت کی ہے مرد بننے کی مگر آپ پھر بھی ایک خوبصورت خاتون ہی لگ رہی ہیں ۔ اس کے چہرے پر حد درجہ سنجیدگی تھی ۔ اس نے غصے اور ضبظ کے ملے جلے لہجے میں کہا۔ مجھے مرد بننے کا نہ تو کوئی شوق ہے نہ ضرورت۔ میں جو ہوں بہت خوش ہوں ۔ اگر آپ میرے بال دیکھ کر یہ کہہ رہی ہیں تو وہ آسانی کے لیے میں نے چھوٹے کر لیے ہیں ۔ ویسے بھی میں سمجھ چکی ہوں ۔ خوبصورتی کو زوال آنا ہی ہوتا ہے۔ آج آئے یا کل ،ہم انسان اس معاملے میں بے بس ہیں ۔ میں نے حد درجہ کوشش کی کہ ڈھلتی عمر کے اثرات کو روک سکوں مگر ہم قدرت سے نہیں لڑ سکتے ۔ جس بچے نےجنم لے لیا اس نے مرنا تو ہے ہی۔ یہ جوانی ، خوبصورتی سب وقتی چیزیں ہیں ۔ آپ یہ سب ابھی نہیں سمجھیں گیں ۔یہ باتیں چالیس سال کے بعد سمجھ آتیں ہیں ۔میں نے گفتگو کو خوشگوار کرنے کے لیے کہا ،تو آپ بتا رہی ہیں کہ آپ چالیس سال سے اوپر کی ہیں ، وہ اب مسکرائی اور مسکراتے ہوئے بولی ،میں بچاس سے اوپر کی ہوں ۔ مجھے یقین تو نہیں آیا مگر میں کوئی وجہ بھی تلاش نہ کر پائی کہ وہ مجھ سے جھوٹ بول رہی ہو۔

آپ کا نام کیا ہے ؟ میں نے سرسری سے انداز میں پوچھا؟ تو ا س نے میرے چہرے کا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ اس سے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا نام کیا ہے۔ نام تو محض شناخت کے لیے رکھے جاتے ہیں ، اگر کسی کا نام ہی نہ ہو تو پکارا کیسے جائے گا۔ ہمارے معاشرے میں عورت کا اپنا نام چلتا ہی کہاں ہے۔ مگر وہ یہ سوچتی ہی نہیں ۔ سوچے بھی کیوں ۔ دماغ کو اچھے طریقے سے مذہب اور سماج نے تالے جو لگا دیے ہیں ۔ جیسے ہی میں نے مذہب کا نام سنا تو فوراً سے میرے دل نے کہا کہ اسے روکا جائے۔ میں نے ان کی بات کو فوراً رد کرتے ہوئے کہا۔ سماج تو ٹھیک ہے مگر اسلام جیسا مذہب نہ تو کہیں ہے نہ ہی ہو سکتا ہے۔ وہ مسکرائی اور بولی، مجھے کوئی بحث نہیں کرنی۔ نہ اسلام پر نہ سماج پر ، ہر کسی کے اپنے نظریات ہوتے ہیں اور میرے اپنے ہیں ۔ اگر آپ کو میری کہانی لکھنی ہے تو اپنے دماغ پر قفل لگا کر میرے خیالات کو اسی طرح من عن پیش کرنا ہو گا جیسا کہ میں کہوں ، آپ میری کہانی کو اپنی خواہش کے مطابق بدلیں گی نہیں ۔ اگر آپ یہ وعدہ کریں تو ہی میں آپ کو اپنی کہانی سناوں گی۔

یہ ایک مشکل کام تھا، کہ کہانی کو توڑے موڑے بغیر لوگوں کو پیش کیا جائے۔ مگر میری دلچسپی اس قدر بڑھ چکی تھی کہ میں وعدہ کیے بغیر نہ رہ سکی۔اس نےمیری طرف دیکھتے ہوئے کہا ، آپ بناو سنگھار کیوں کرتی ہیں ۔ آپ کی کلائیوں میں چوڑیاں کس لیے ہیں ؟ عجیب سا سوال تھا۔ میں نے کہا ہر عورت کو بناو سنگھار پسند ہوتا ہے ۔ اس کی فطرت ہے۔ وہ مسکرائی فطرت نہیں ہے ،سب سکھائی ہوئی فضول باتیں ہیں ۔ نسل در نسل دی گئی غلامی۔ شاہد آپ کو پتہ نہ ہو لیکن میں آپ کی معلومات میں اضافہ کرتی ہوں کہ یہ جودلہن کو ناک میں زیور ڈالا جاتا ہے بلکل اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی جانور کے ناک میں نکیل ۔

میں نے فوراً کہا ایسا نہیں ہے، یہ تو محض کلچر ہے،آپ بناو سنگھار کے خلاف ہیں ۔ میں نے غیر دانستہ طور پر سوال کر دیا ۔ اس نے بہت طمانت سے کہا۔ بہت عرصہ تک میں بناو سنکھار کی دیوانی رہی ہوں ۔ شاہد ہی کوئی دن گزرا ہو ۔جب میں نے بناو سنگھار نہ کیا ہو۔مگر اپنے تجربات نے مجھے سکھایا ہے کہ ہر بناوٹ انسان کو اس کی اصل سے دور لے جاتی ہے۔ کبھی کبھی ہم زندگی کے پنجرے میں اس طرح سے قید ہوتے ہیں کہ ہم جانتے ہی نہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہوگا کہ ہمیں آزادی نصیب ہو۔

میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ مجھے آپ کی باتیں سمجھ نہیں آئیں ۔ زندگی کے پنجرے سے کیا مراد ہے۔ اس نے کچھ سوچنے کے بعد کہا۔ کبھی کبھی ہم زندگی میں جس چیز کو سب سے ذیادہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہی ہماری شروعات ہوتی ہے ۔ ہماری بلندی کی وجہ بنتی ہے۔ ہمیں اس اطمینان تک پہنچانے کا باعث بنتی ہے ،جو کبھی نارمل حالات میں ہماری نگاہ تک پہنچ ہی نہیں پاتا۔

اس نے گاڑی ایک سائیڈ پر روکی اور مجھے آگے آنے کو کہا۔پہلے تو میں کچھ ہچکجاہٹ کا شکار ہوئی لیکن پھر دل میں آیا کہ یہ بھی تو عورت ہی ہے آگے بیٹھنے میں کوئی ایسی بُری بات بھی نہیں ۔ میں جب آگے بیٹھی ۔ تو اس نے مجھ سے کہا،اگر میری جگہ یہاں کوئی آدمی ہوتا تو نہ ہی آپ اس سے بات کرتی اور نہ ہی آپ اس طرح آگے آکر بیٹھتی ۔میں بھی ایسی ہی تھی۔ شاہد ہمارے ہاں ہی عورتوں کی اسی طرح تربیت کی جاتی ہے۔ہم اپنے آپ کو ایسے بچا بچا کر رکھتے ہیں جیسے کوئی ضیعف آدمی اپنے سفید کفن کو ،کہیں اس پر کوئی داغ نہ لگ جائے۔ اس کے چہرے پر تمسخر خیز ہنسی تھی۔ پھر ہماری شادی ہو جاتی ہے۔ میری بھی ہو گی۔ میں بہت خوش مزاج تھی، میرے شوہر وقار بھی ، شوہر نہیں ،وہ میرے دوست تھے یا پھر سب کچھ ۔ شادی کے تین سال بعد ہمارا بیٹا پیدا ہوا ،ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ میں اب دوبارہ ماں نہیں بن سکوں گی۔ میرا بیٹا بہت پیارا تھا۔

ہم بہترین حالات میں کبھی بھی بدترین حالات کا نہیں سوچتے ۔ ہمارے ہاں عورتیں اپنا آپ ایمانداری سے اپنے شوہر اور بچوں پر لٹاتی ہیں ۔ بدلے میں کچھ بھی نہیں مانگتی ، مانگیں بھی کیسے ،شروع سے دماغ میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ حوا کو آدم کی تنہائی دور کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ۔ جب کہ آدم تو اپنے آپ میں مکمل تھا۔ وہ حوا کے لیے نہیں تھا۔ ہمارے سماج میں عورت کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا،وہ مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے۔ پوری زندگی وہ دوسروں کے لیے اپنا آپ بغیر کسی سیکورٹی کے امید کے تحت دیتی ہے۔

محبت امید پر ہی تو کی جاتی ہے ۔ شادی کے بعد ذیادہ تر عورتوں کی زندگی کا مقصد شوہر کی خوشی ہی تو ہوتا ہےاور بس۔ وہ کیا چاہتی تھی ،وہ کیا چاہتی ہیں ؟یہ سوچنے کا نہ وقت ہوتا ہے نہ ضرورت ۔ شادی کے بیس سال میں مجھے بھی یہ ضرورت پیش نہیں آئی۔ آتی بھی کیسے میں تو سب کچھ اپنے شوہر کی نظر سے دیکھتی ،وہ خوش تو میں خوش ، اکثر وقار مجھ سے کہتے کہ ہمارے اور بچے ہوتے ۔ میرے بس میں ہوتا تو میں ان کی یہ خواہش پوری کرنے کے لیے دس بچے پیدا کرنے کو تیار ہو جاتی۔ مگر یہ ممکن نہ تھا۔ مجھے افسوس تو ہوتا لیکن میں انہیں تسلی دیتی کہ ہے نا ہمارا بیٹا ۔ شادی کے بیس سا ل بعد انہوں نے دوسری شادی کی خواہش ظاہر کی۔ ہمارے سماج اور مذہب سے اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ یہاں تک کہ میرا بیٹا بھی اپنے باپ کا حمائتی بن گیا۔میں کسی صورت تیار نہ تھی کہ اپنی محبت کو بانٹتی ، میرے شوہر نے مجھے سمجھانے کے لیے کہا کہ مذہب اس کی مجھے اجاذت دیتا ہے ۔ میں نے غصے سے چیختے ہوئے کہا۔ میں ایسا مذہب چھوڑتی ہوں ۔ جو مجھ سے تو پوری ایمانداری سے ایک ہی آدمی سے وفا کا تقاضا کرتا ہے اور آدمی کو بے وفائی کی اجاذت دیتا ہے۔ میرے شوہر نے کہا ہمارے سماج میں آدمی ایسا کرتے ہیں۔ تو میں نے کہا میں ایسے تمام آدمیوں پر لعنت بھیجتی ہوں ۔ میں نے اپنے شوہر کو اپنا فیصلہ سنا دیا کہ اگر وہ مجھ سے بے وفائی کرے گا تو میں بھی وفادار نہیں رہوں گی۔ مگر اس نے اسے ایک دھمکی ہی سمجھا ۔ میرے بیٹے نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا، مما آپ کرنے دیں نا پاپا کو شادی ، وہ ہمیں تو ہمارا حق دینے کو تیار ہیں نا۔ ہمیں ان کی خوشی کا خیال رکھنا چاہیے۔ میں نے اس نے گِرتے ہوئے آنسووں میں کہا۔ اور میری خوشی۔

اس نے نہ سمجھنے والے انداز میں کہا۔ مما سب کچھ تو ہے نا۔ آپ کو کیا چاہیے۔ میں نے اس سے کہا اگر میں تمہارے باپ سے تمام تعلق ختم کر دوں تو کیا تم میرے ساتھ چلو گئے ۔ اس نے کہا۔ مما آپ پاگل ہو گئی ہیں کیا ۔ پاپا کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں ہم ، کہاں رہیں گئے ہم؟ابھی آپ پریشان ہیں ،کچھ دنوں میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جس دن وقار کی شادی تھی اس دن اپنے ہاتھوں سے اپنے بال کاٹ دیے میں نے۔ اس دن میں مر گئی۔ انسان تب نہیں مرتا جب روح جسم سے نکلتی ہے، انسان تب مرتا ہے جب اسے ذلیل کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں عورت کی عزت محض اس کے جسم میں قید سمجھی جاتی ہے۔ ہماری اقدار نے ہمیں غلامی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ میں نے بھی چالیس سال تک نقاب کیا ہے۔ روح مرد یا عورت نہیں ہوتی ،روح کی کوئی جنس نہیں ہوتی۔ ہر روح باوقار ہے۔ ہمیں مذہب اور سماج کے دائروں سے نکل کر بھی سوچنا چاہیے۔ کاش کہ میں پہلے سوچ پاتی کہ میری زندگی کا مقصد کیا ہے۔ میری خواہشات کیا ہیں تو میں کسی کے ہاتھوں کا کھلونا نہ بنتی۔میں نے اپنے شوہر اور بیٹے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔
گاڑی چل رہی تھی مگر میں نے عجیب سا سکوت محسوس کیا۔

دل ہی دل میں خیال آیا کہ کیا اس عورت کا بیٹا عقل مند تھا جس نے حالات کے تحت فیصلہ کیا۔ کیا یہ عورت بے وقوف تھی؟ مجھے سوچوں میں ڈوبا دیکھ کر اس عورت نے انتہائی اطمینا ن سے کہا۔تم یہ ہی سوچ رہی ہو گی کہ ہمارے معاشرے میں مرد دوسری شادی کرتے ہیں کوئی بڑی بات تو نہیں تھی ۔ مگر مجھے یقین ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب عورتوں کو احساس ہو جائے گا کہ انہیں بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ مذہب کے نام پر۔ احساس کے نام پر، بچوں کے نام پر ، ان سے ان کے وجود کو چھینا جا رہا ہے۔ ایک بہت بڑا ظلم ہو رہا ہے ،کیوں کہ وہ صدیوں سے ہو رہا ہے تو سب کو ایک عام سی بات لگتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کچھ جھوٹ بول دیے جاتے ہیں اور وہ اس قدر وسع پیمانے پر بولے جاتے ہیں کہ انہیں ہر کوئی سچ سمجھنے لگتا ہے۔

مجھ سے نہیں رہا گیا اور میں نے کہا بے شک شوہر کی دوسری شادی کسی بھی عورت کے لیے تکلیف دہ ہے لیکن آپ یہ بھی تو سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی تعداد مردوں سے ذیادہ بنائی ہے۔ عورتوں کو سہارا چاہیے۔ اگر سب آدمی ایک ہی شادی کریں گئے تو ان عورتوں کا سہارا کون بنے گا جن ۔ اس نے میری بات درمیان ہی سے اچک لی ۔ وہ ہنسی اور اس کا لہجہ تمسخر خیز تھا۔ اس نے کاٹتے ہوئے لہجے سے کہا؟ یہ کسی نے کہا ہے کہ عورت کو مرد کاسہارا چاہیے۔ آج کون سی ایسی فیلڈ ہے جس میں عورت نہیں ہے۔ عورت کا اپنے آپ کو سمجھ جانا اور اس بے چارگی سے نکل جانا کہ وہ مرد کے سہارے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ،ہماری مردانہ سوسائٹی کے مفاد کے خلاف ہے۔ ہمارے معاشرے کے لیے لازمی ہے،عورت ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ اس کی عزت اس کے جسم میں ہے ،جب کہ مرد کی عزت کہاں ہے اور کیا ہے کہ اس کے سوچنے کے دائرہ کار سے پرے ہیں ۔اس نے جو آخری باتیں کہی، وہ یہ تھی کہ درست نئے نظریات جب دیے جاتے ہیں لوگ ان سے بدکتے ہیں ،ماننے سے انکار کر تے ہیں مگر سچائی اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔ اصل زنجیر دماغ کو لگائی جاتی ہے ،عورت ظاہر سے جس دن نکلے گی ،وہ بھی مرد کی طرح کاجل لگانا چھوڑ دے گی۔ اس دن وہ چیز نہیں رہے گی۔ انسان بن جائے گی۔اس دن شاہد کہ وہ بھی جینے لگے۔ میں بھی ایک عمر اسی میں لگی رہی کہ خوبصورت لگوں ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہر نفس خوبصورت ہے۔ زندگی خوبصورت ہے ۔

ایرپورٹ آ چکا تھا۔۔اس کی باتیں ہضم کرنا کافی حد تک مشکل تھا یا پھر میں سوچنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ اس کی یہ بات تو ٹھیک تھی کہ انسان بہترین حالات میں بدترین حالات کی نہیں سوچتا۔ باقی اس کی کون سی باتیں درست تھیں اور کون سی غلط یہ میں پڑھنے والوں پر چھوڑتی ہوں ۔

مجھے لگا کہ صدمہ نے واقعی اس کے دماغ پر بُرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ میں اس کے نظریات اور خیالات کو من و عن پیش کرنے کا وعدہ کر چکی تھی سو میں مجبور تھی۔ یہ کہانی لکھنے کے بعد ایک غزل جو میرے دماغ میں بن رہی ہے وہ کچھ یوں ہے۔۔


تخلیق کے بعد خلقت کو رب نے نوازنے کا سوچا
مرد و زن ہر دو کو موقع ملا کہ مانگ لیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
مرد کو عورت سے ملے گا وہ اور عورت کو مرد سے
یوں رب نے جوڑ دیا فرد کا رشتہ فرد سے
۔۔۔۔۔
عورت جو حیا کا پیکر تھی ،مانگتے ہوئے لجا گئی
وہ جو اس کے دل میں تھا کہتے ہوئے شرما گئی
فرشتے نے جب صدا لگائی مانگ جو مانگنا ہے مانگ
دل کے اندر اپنے اے عورت رب کہتا ہے جھانک
۔۔۔۔۔۔۔
عورت دیر تک سوچتی رہی اور پھر مسکرا دی نہ بولی
فرشتے حیران تھے کیوں اس نے اپنی زبان نہ کھولی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہا ایک فرشتے نے کیا وہ محبت ہے؟
جو مسرور کرتی ہے،دلوں میں رنگ بھرتی ہے
وفا کے موتی دیتی ہے،خوشی کو سنگ کرتی ہے
کیا تو چاہتی ہے ،رب تجھ کو مرد سے بس دلا دے وہ
اسے تجھ سے محبت ہے ،وجود سے چھلکا دے وہ
وہ کہتا پھرے تجھ سے تجھ پر وہ مرتا ہے
ہر پل یقین دلاتا رہے محبت تجھ سے کرتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت پھر سے مسکرا دی ،مگر نہ جواب دیا کچھ بھی
فرشتے حیران تھے آخر کہ دل میں کیا ہے اس کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر فرشتے نے کہا ،کیا تیری چاہت دولت ہے؟
آرام ہو ،سکون ہو تجھ کو۔ کبھی کوئی غم نہ دیکھے
جینا کس کو کہتے ہیں مرد بھی تجھ سے سیکھے
دولت اتنی کہ تجھے محل ملے تو رانی ہو
سب سے دل پذیر تیری زندگی کی کہانی ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت پھر مسکرائی اور نظروں کو جھکا ڈالا
راز دل کا دل ہی میں اس نے دبا ڈالا
بتاہی نہیں پائی تو ملنا بھی راز ہی ٹھہرا
کوئی نہیں جانتا کہ اس کا مدعا کیا تھا
وہ خود بھول گئی دنیا میں آ کر
۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے مانگنا اے خدا کیا تھا؟اسے مانگنا ہے خدا کیا تھا؟
وہ عزت تھی ،وہ عزت تھی۔وہ عزت تھی۔وہ۔۔۔۔
ختم شد۔

 

kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 281252 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More