مجھے یہ سعادت حاصل ہے کہ میَں شاعر مزدوراحسانؔ دانش کا
ہم وطن ہوں۔ ہندوستان کا صوبہ یو پی(اتر پردیس) کاضلع مظفر نگر ایک معروف
ضلع ہے جوشمالی مغربی اضلاع میں شمار ہو تا ہے۔ احسانؔ دانش اسی ضلع کے شہر
کاندھلہ میں 1941ء کو پیدا ہوئے اور 21 مارچ 1982ء کو اس دنیا سے رخصت
ہوئے۔ احسانؔ دانش کے خاندان کا تعلق تو ضلع میرٹھ کے شہر باغپت سے تھا
لیکن ان کے والد قاضی دانش علی نے باغپت کو خیر باد کہہ کر ضلع مظفر نگر کے
شہر کاندھلہ میں سکونت اختیار کرلی تھی، احسان دانش اسی شہر میں پیدا
ہوئے۔احسان دانش نے اپنی سرگزشت میں لکھا ہے کہ ’’میں قصبہ کاندھلہ مظفر
نگر (یو پی)میں ایک مزدور کے گھر پیدا ہوا۔ کاندھلہ کی سرزمین علم نوازی‘
اور ادب پروری کے لحاظ سے تاریخی اورمشہور جگہ ہے۔چناں چہ کم لوگوں کو علم
ہوگا کہ مولانا روم کے ساتویں دفتر کا شاعر اسی خاک پاک سے اٹھا تھا۔ اور
آج تک برابر یہاں سے علمی چشمے پھوٹتے رہے ہیں‘‘۔
ہندوستان کا ضلع مظفر نگرنہایت مردم خیزخطے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس سر
زمین نے علماء دین، صوفیا ئے اکرم اور فقہائے اسلام اور اہل دانش کی ایک
بڑی جماعت پیدا کی ، پائے کے سیاست داں پیداکیے ہیں،اعلیٰ منتظمین، معلمین
، منصفین و مصنفین کی ایک بڑی جماعت پیدا کی ہے ،ان اعلیٰ شخصیات کی علمی،
ادبی ،سماجی اور سیاسی خدمات کو عالمی سطح پر معتبر حیثیت حاصل ہے ۔ حضرت
مولانا اشرف علی تھانوی ؒ قدس سرہ (پیدائش19 اگست 1863ء ، وفات4
جولائی1943ء) قصبہ تھانہ بھون ضلع مظفر نگر میں پیدا ہوئے، مولانا شبیر
احمد عثمانی قدس سرہ(پیدائش 6اکتوبر 1886ء وفات 13 دسمبر 1949ء) اورپاکستان
کے اولین وزیر اعظم شہید ملت خان لیا قت علی خان کا تعلق بھی مظفر نگر سے
تھاوہ یکم اکتوبر 1895ء میں کرنال میں پیدا ہوئے ۔حاجی ولی اﷲصاحب قدس سرہ،
محمد احمد صاحب سراوے والے ، جناب زاہدحسین اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے پہلے
گورنر(10 جولائی 1948ء تا19 جولائی ۳1953ء)، سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم
یونیورسٹی، ہندوستان میں پاکستان کے اولین ہائی کمشنر، منصوبہ بندی کمیشن
کے اولین چیر مین، پاکستان کے پہلے پانچ سالہ منصوبے کے خالق)، زاہد حسین
کے صاحبزادے جسٹس (ر)نا صر اسلم زاہد ، جناب محمد ابصار حسین قرنی، مفتی و
محدث مولانا عبدلمالک ، مولانا عبد الخالق کاندھلہ والے ، معروف عالم دین
ڈاکٹر اسرار احمد (پیدائش 26 اپریل 1932ء وفات 14 اپریل 2010ء)، ڈاکٹرالطاف
حسین قریشی (اردو ڈائجسٹ ) ، شیخ محمد ابراہیم آزادسابق چیف جسٹس بیکانیر
چیف کورٹ اور صاحب دیوان شاعر، جناب مبشر احمد واحدی ، ملتان سے تعلق رکھنے
والے معروف نعت گو شاعر تابشؔ صمدانی جن کے نعتیہ مجموعے ’ برگ ثنا‘ ، ’ مر
حبہ سیدی‘ شائع ہوچکے ہیں ضلع مظفر نگر سے تعلق رکھتے ہیں۔معروف ادیب
،افسانہ نگار اور ناول نگار شوکت تھانوی کا وطن بھی تھا نہ بھون ضلع مظفر
نگر ہی ہے۔میَں نے کبھی اپنے اوراحسان دانش کے وطن کے لیے کہا تھا
مظفر نگر تری عظمت کو سلام
کیسے کیسے گوہر نایاب پیدا کیے تونے
احسان دانش کو شاعر مزدور کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ احسان دانش کا عملی طور
پر محنت مزدوری کرنا تھا۔ انہوں نے ایک محنت کش گھرانے میں آنکھ کھولی، ان
کے والد بھی پڑھے لکھے نہیں تھے بلکہ محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے
خاندان کا پیٹ پالا کرتے تھے۔ اپنے والد اور نانا کے معاشی حالت کا ذکر
احسان دانش نے اپنی آپ سر گزست میں اس طرح کیا ہے کہ’’میرے والد قا ضی دانش
علی قصبہ باغپت ضلع میرٹھ کے رہنے والے تھے اور میرے نانا ابو علی کاندھلہ
میں ایک غریب سپاہی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد میرے والد
کاندھلہ چلے آئے ۔ باغپت میں وہ کسی بلند منصب پر فائز نہ تھے اور ان کی کم
علمی نے انہیں سپاہیانہ حدود سے آگے نہ بڑھنے دیا۔ ترک وطن کے بعد بھی عرصہ
تک وہ سپاہی رہے لیکن جب میں نے ہوش سنبھالا تو وہ نہروں کی کھدائی کرانے
والے ٹھیکیداروں میں میٹ کا فریضہ انجام دیتے تھے اور جب یہ جمعداری نہ
ملتی تو خود مزدوری کرتے‘‘۔اپنے والد کے علمی ذوق کے بارے میں احسان دانش
نے لکھا ہے کہ ’’میرے والد بہت پڑھے لکھے نہ تھے مگر ذہین اور خوش مذاق
انسان ضرور تھے اُنہیں فارسی کی سینکڑوں غزلیں اور آزار کی بعض مشہور صخیم
کتابیں اَزبر تھیں‘‘۔ خود تو پڑھ لکھ نہ سکے لیکن اپنے بیٹے کو تعلیم کے
ذیور سے آراستہ کرنے کی خواہش ان کے دل میں ضرور موجود تھی۔لیکن وہ اپنی اس
خواہش کی تکمیل تنگ دستی کے باعث نہ کر سکے اور یہ خواہش دل میں لیے ہی اﷲ
کو پیارے ہوئے۔ غربت نے گویااحسان دانش کے گھر ڈیرا ڈال رکھا تھا، ابھی
پوری طرح ہوش بھی نہ سنبھالا تھا کہ پیٹ بھر نے کے لیے عملی جدوجہد شروع
کرنا پڑی۔ وہ ابھی چو تھی جماعت ہی میں تھے کہ روزگار کے لیے نکل کھڑے
ہوئے۔ اس دوران چند اردو اور فارسی کی کتابیں اپنے استاد سے ضرور پڑھ لی
تھیں۔پڑھنے کاشوق انہیں اپنے والد سے ورثے میں ملا تھا۔ لیکن غربت کے
ہاتھوں مجبور ہو کر تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔شروع میں اپنے آبائی شہر کاندھلہ
میں روزگار کی تلاش میں سرگرداں رہے ، خاطر خواہ کامیابی نہ ملی، مجبورناً
میونسپلٹی میں نائب قاصد ہوگئے ، اس دوران اپنے استاد قاضی محمد ذکی
کاندھلوی سے فیض حاصل کرتے رہے اور مطالعہ جاری رکھا۔ لکھتے ہیں کہ ’’میرا
مطالعہ اور جذبہ مجھے قصبہ کاندھلہ میں بلند نہ کرسکا۔یہاں تک کہ میں
کھیتوں کھلیانوں، سڑکوں اور دفتروں کے راستے ناپتا ناپتا تھک گیا‘‘۔ بہتر
روزگار کی تلاش میں دہلی کا رخ کیا۔وہاں ایک پرنٹنگ پریس میں سیاہی مین کی
حیثیت سے کچھ عرصہ کام کیا لیکن غیر مطمئن رہے اور واپس قصبہ کاندھلہ آگئے
لیکن معاشی حالت تھے کہ بہتر ہونے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔ مجبورہوکر لاہور
کا رخ کیا اور چند روز اپنے ہمراہیوں کی خدمت باورچی کی حیثیت سے کرتے رہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لاہور نے احسان دانش کو وہ مقام و مرتبہ عطا کیا جس
کے وہ بجا طو ر پر مستحق تھے لیکن لاہور کے ابتدائی ایام ان کے لیے سخت
محنت و مشقت لیے ہوئے تھے یہ محنت اس قدر دل برداشتہ کردینے والی تھی کہ
احسان دانش دن بھر محنت مزدوری کرکے رات کو جب بستر پر لیٹتے تو انہیں یہ
احساس جاں گزیں ہوتا کہ ان کے جسم میں اتنی سی زندگی باقی ہے کہ صبح تک چل
سکے لیکن والدین کا خیال ان کا شانا پکڑ کر اگلے روز پھر محنت مزدوری پر لے
جاتا ۔احسان دانش لکھتے ہیں کہ ’’جب لاہور کی فضا سے مانوس اور راستوں سے
ذرا واقِف ہوگیا تو اپنی محبوب جگہ لائبریری کا رخ کرتا دوپہر کو مزدور
آرام کرتے تو میں لائبریری کو بھاگتا اور جب کام بند ہوجاتا تو ساری ساری
رات کتابیں پڑھتا‘‘۔ مزدور سے معمار ہوئے اور جب معماری نے ناتہ توڑلیا تو
جوکیدارہوگئے جہاں انہیں کتب بینی کا زیادہ وقت ملنے لگا انہوں نے خوب خوب
کتابوں کا مطالعہ کیا۔ چوکیدار سے باغبانی پھر قالین بافی کے ہنر سے بھی
بہر مند ہوئے۔بقول مولوی سعید ’’احسان دانش رات میں مشاعروں کی محفلوں میں
دیکھے جاتے جب کہ صبح کے وقت وہ کسی بھی نئی تعمیر شدہ عمارت میں ایک ہاتھ
میں برش اور دوسرے ہاتھ میں رنگ کی بالٹی کے لیے ساتھ مصروف عمل دکھائی
دیتے اور کبھی باغبانی کرتے نظر آتے‘‘۔
جدید شعرائے اردو کے مؤلف عبدالحمید نے سچ لکھا ہے کہ ’’لاہور میں ’’مکتبہ
دانش ‘‘ کے قیام سے پہلے احسان کو غم روزگار نے جن جن دشوار منزلوں سے
گزارا ہے اُن کی تفصیل میں جاتے ہوئے سچ مچ قلم تھرایا اور کلیجہ منہ کو
آتا ہے۔ احسان نے اپنی ادبی زندگی سے پہلے شہر لاہور میں مزدوری ، معماری،
باغبانی، چوکیداری، قلعی گری اور نہ جانے کیا کچھ نہیں کیا، لیکن شاباش ہے
اس پختہ عزم انسان کی جدوجہد پرجس نے اپنے حوصلوں کو بلند رکھا، محنت
مزدوری کو اپنی کمزوری نہ بننے دیا، کتابوں کا مطالعہ کرتے رہے جس سے ان کا
علمی ذوق پروان چڑھتا رہا اور وہ ایک علمی شخصیت کے طور پر جانے جانے لگے،
ان کی نثر اور نظم لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے لگے۔ ریلوے میں نائب قاصد
بھی رہے اور پھر ایک مطبع کے کتب خانے میں ملازمت کرلی اور بیس روپے ماہانہ
کی اجرت پر کئی برس مصروف عمل رہے ۔ یہی رہتے ہوئے ان کی پہلی کتاب ’’حدیثِ
ادب ‘‘ شائع ہوئی اور پھر احسان دانش نے اپنا مکتبہ بنا لیا اور کتابیں
لکھنے اور شائع ہونے کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔
احسان دانش کے لیے محنت و مشقت کرکے روزی کمانہ فخر کی بات تھی۔ حالات نے ا
نہیں مشقت کا عادی بنا دیا لیکن اس زندہ دل اور حوصلہ مند انسان نے نہ سخت
سے سخت حالات کا مقابلہ بلند حوصلہ سے اور جواں مردگی سے اس طرح کیا کہ
مایوسی ، حوصلہ شکنی، کم ہمتی کو شکست ہوئی اور عزم و استقلال کو فتح نصیب
ہوئی اور احسان دانش کو دنیائے ادب میں وہ مقام حاصل ہوا جو کم لوگوں کو
ملتا ہے۔انہیں اس دنیا سے رخصت ہوئے 36 برس ہوچکے ہیں لیکن وہ آج بھی ہمارے
دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کی زندگی سبق آموز ہے اور نئی نسل کو اس بات کا سبق
دیتی ہے کہ محنت و مشقت میں کوئی بارئی نہیں، مشکل سے مشکل حالات مقابلہ
حوصلے اور بلند ہمتی سے خلوص اور اﷲ پر مکمل بھروسے کے ساتھ کیا جائے تو
کامیابی انسان کے قدم چومتی ہے۔
احسان دانش نے اسکول میں صرف چار جماعتیں پڑھی تھیں ، بعض اساتذہ نے انہیں
کتاب پڑھنے کی جانب مائل ضرور کیا تھا لیکن شاعری ان کا باقاعدہ استاد کوئی
نہیں تھا، کتاب زندگی بھر احسان دانش کی ساتھی رہی، ہم نوا رہی، رہنما و
رہبر رہی۔ کتاب کی رفاقت سے وہ کبھی بیزار نہیں ہوئے بلکہ دن میں محنت
مزدوری اور رات رات بھر کتاب کا مطالعہ ان کا معمول رہا، کتاب نے انہیں
کبھی زچ نہیں کیا بلکہ یہ کتاب ہی تھی کہ جس نے احسان کی علمی دولت میں
اضافہ کیا ، ذخیرہ الفاظ میں بڑھاوا دیا، قوت گفتار میں کمال پیدا کیا،
ذہنی صلاحیت کو وسعت بخشی، احسان نے جو سیکھا ، جو حاصل کیا وہ مطالعہ سے
اور کتاب سے سیکھا۔ البتہ شعرو شاعری کا ذوق قاضی محمد ذکی کی صحبت میں
ہوا۔ احسان حصول علم کے لیے حکماء و فضلا کے قدموں میں زانوئے ادب نہیں
ہوئے بلکہ کتاب ہی نے احسان کو وہ سب کچھ دیا جو انہیں حکماء و فضلا اور
اساتذ ہ کے قدموں میں زانوئے ادب ہونے سے مل سکتا تھا ۔کتاب اور مطالعہ نے
ہی انہیں علم و حکمت کے ذیور سے آرستہ کیا۔ احسان دانش نے عملی طور پر یہ
سچ کر دکھا یا کہ جو کتاب سے رغبت رکھتا ہے، محبت کرتا ہے اور ان کا قرب
حاصل کرتا ہے وہ تمام دینوی و دنیاوی رحمتوں اور نعمتوں سے فیضیاب ہوتا ہے۔
احسان دانش کی شاعری میں محنت کش کی آواز ہے ۔ ابتدا میں ان کی شاعری
روایتی قسم کی ہی تھی، یعنی نظم و غزل ، اور اس میں حسن و عشق کاغالب تھا
اس میں رومانیت تھی۔ لیکن بہت جلد ان کی شاعری میں ان کی عملی زندگی کے رنگ
و روپ ابھر نے لگے، سماجی نا انصافیوں اور زیادتیوں کا اظہار ان کے اشعار
میں ہونے لگا۔ایک تو احسان کی عملی زندگی محنت مشقت سے عبارت تھی دوسرے ،یہ
وہ دور تھا جب پہلی جنگ عظیم کے بعد حالات بدل رہے تھے، ترقی پسند رجحانات
عام ہونا شروع ہو گئے تھے ۔ احسان دانش نے بھی مزدور اور محنت کشی کو اپنی
شاعری کا محور و منبع بنا یا اور وہ ادبی محفلوں اور مشاعروں کی کلیدی
شخصیت کے طور پر نمایاں نظر آنے لگے تھے۔ ان کی شاعری میں درد تھا، کرب تھا
اور مزدور کی پکار تھی ۔ ان کے اسی اظہار کے باعث انہیں عوام نے ’’شاعر
مزدور ذ‘‘ کے لقب سے نوازا ۔ان کی مشہور نظمیں ’’باغی کا خواب ‘‘ اور’’
سادھو کی چتا‘‘ بے انتہا مقبول ہوئیں۔احسان دانش کی آواز میں بھی سوز تھا،
درد تھا، ابتدا میں وہ نعت گوئی بھی کیا کرتے تھے۔
احسان دانش علمِ عروض میں کمال رکھتے تھے ۔ ان کے ہرہر مصرعہ کی بندش
لاجواب اور ہر شعر لازوال ہے۔انہوں نے غزل کو ایک نیا شعور دیا ہے۔ان کے
ہاں الفاظ کا وسیع ذخیرہ پایا جاتا ہے ، زبان فصیح ، شستہ اور پاکیزہ ہے ۔
واقعہ نگاری اور واردات کے بیان کو خوبصورتی سے نظم کرنے میں کمال رکھتے
ہیں۔ پروفیسر محمد واصل عثمانی جو احسان دانش کے بڑے مدح ہیں نے انہیں غزل
کا امام کہا ہے۔ادریس صدیقی نے اپنے مضمون ’اردو شاعری کا تنقیدی جائزہ‘
میں احسان دانش کو جوش کاہم پلہ قرار دیتے ہوئے واضع کیا کہ احسان دانش کی
شاعری عام آدمی کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے‘۔ان کے کلام میں معرفت و آگہی
کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔احسان دانش جتنے خوبصورت شاعر تھے اتنی ہی جاذبت ان
کی نثر میں بھی تھے ۔ان کی آپ بیتی ’’جہاںِ دانش‘‘ مثالی آپ بیتی شمارہوتی
ہے۔احسان دانش نے اپنا مکتبہ ’’مکتبہ دانش ‘‘ قائم کر لیا تھا اور کتب کی ا
شاعت اسی ادارے تحت کیا کرتے تھے ان کی تصانیف کی تعداد80 سے زیادہ ہے،
مضامین کی تعدا د سینکڑوں میں ہے۔ ان کی تصانیف میں حدیث ادب، حدیثِ دانش،
جہاںِ دگر، چراغا، نوائے کارگر، ابلاغِ دانش، آتش خاموش، تشریحِ غالب،
جاأنو، ذخم و مرحم، شیرازہ، مقامات ، گورستان، آواز سے الفاظ تک، فصلِ
سلاسل، زنجیرِ بہاراں، میراث مومن، اردو مترادفات،دردِ زندگی، لغت الا
اصلاح اوردیگر شامل ہیں۔ احسان دانش کی ادبی خدمات کے حوالے سے حکومت
پاکستان نے 1978ء میں انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا۔ معروف شاعر و ادیب
پروفیسر محمد واصل عثمانی نے احسان دانش کو منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا ان
کی اس نظم کے چند اشعار
دلّی کی ہے زباں تو فانیؔ کا رنگ ہے.........اسلوب تیرا دیکھ کے دشمن بھی
دنگ ہے
فکرِ رسا پہ تیری زمانہ نثار ہے..........اس عہد میں تو گہر یکتا شمار ہے
اقلیمِ نظم و شعر کا تو تاجدار ہے...........تیری غزل سے لہجہ ترا آشکار ہے
احسان دانش کے کلام سے منتخب اشعار
بیٹیاں سب کے مقدر میں کہا ہوتی ہیں
گھر خدا کو جو پسند آئے وہاں ہوتی ہیں
تجھے بھولنے کو ایک پل چاہیے..........وہ پل کہ جسے موت کہتے ہیں لوگ
چوکھٹیں قبر کی خالی ہیں، انہیں مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر سجادی جائے
اگر چے خُلدِ بریں کا جواب ہے دنیا
مگر خدا کی قسم ایک خواب ہے دنیا
رہِ خلوص میں احسانؔ اس سے بچ کر چل
کہ ایک خضرِ ضلالت مآب ہے دنیا
آج پھر یاد بہت آئے وہ...........آج پھر اُس کو دُعا دی ہم نے
کوئی تو بات اُس میں بھی ہے احسانؔ ...........ہر خوشی جس پہ لٹا دی ہم نے
نظر فریبِ قضا کھا گئی تو کیا ہوگا
حیات موت سے ٹکراگئی تو کیا ہوگا
نہ رہنماؤں کی مجلس میں لے چلو مجھے
میں بے آداب ہوں ہنسی آگئی تو کیا ہوگا
کبھی مجھ کو ساتھ لے کر، کبھی میرے ساتھ چل کر
وہ بدل گیا اچانک میری زندگی بدل کر
لوگ یوں دیکھ کر ہنس دیتے ہیں.....تو مجھے بھول گیا ہو جیسے |