ہندوستان میں اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم
ہوگاکہ مختلف ادوار میں سلاطین، فاتحین، مجاہدین ،خود مختار حکمراں یہاں
آئے تو سہی مگر ہندوستان میں اسلام کو استحکام ایک ایسے درویش نے عطا کیاجس
نے ﷲیت،دربانیت،عشق خدا،ذوق اتباع سنت ،حب رسول ،دل سوزی ،بلند ہمتی،تازگی
فکر،نور بصیرت،فراست ایمانی،حقیقت پسندی،اعتقاد صحیح،عمل صالح،وسعت قلب
ونظراور اخلاص وایثار کی متاع گراں بہاسے شمع اسلام کو بقاکی تابندگی
عطاکی۔جسے دنیا قطب الاقطاب،معین الملۃ والحق،خواجۂ خواجگاں حضرت خواجہ
معین الدین چشتی اجمیری کے نام سے جانتی ہے۔نائب النبی فی الہند نے یہاں
صبحِ قیامت تک کے لیے اسلامی بنیادوں کومضبوط ومستحکم فرمادیا۔ خواجۂ اعظم
نے دنیاسے بے رغبتی، غرباپروری،فیاضی ودریادلی، عفووبرد باری، تواضع
وانکساری،ریاضت ومجاہدہ،عقیدت ومحبت اور پردہ پوشی جیسے اوصاف سے
ہندوستانیوں کو مزین فرمایااور اسی کا نتیجہ ہے کہ نوے لاکھ لوگوں نے آپ کے
دست حق پر اسلام قبول کیا۔سرکار غریب نواز علیہ الرحمہ کے زہد وقناعت اور
دنیاسے بے رغبتی کا یہ عالم تھاکہ سلطان وقت اور امراوحکام آپ کے عقیدت کیش
تھے مگر آپ نے کبھی ان کے سامنے اپنی حاجت کااظہار نہیں فرمایا،اگر کوئی
عقیدت مند وجاں نثار کوئی نذر پیش کرتاتو اسے اپنے ذاتی مصارف میں نہ لاتے
بلکہ غریبوں میں تقسیم فرمادیتے۔آپ فرماتے ’’جو بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے
اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے اور جہنم کے درمیان سات پردے حائل کردے گا۔‘‘
آپ کریمانہ اخلاق وعادات کے مظہر اتم اور سیرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کے
پیکر جمیل تھے۔غریبوں اور مسکینوں کے حوالے سے ہمیشہ مریدوں اور عقیدت
مندوں کو نصیحت فرمایاکرتے کہ ’’درویشوں اور غریبوں سے محبت رکھو،جوان کو
دوست رکھتاہے اﷲ عزوجل اس کودوست رکھتا ہے۔‘‘غریبوں پر بے پناہ شفقت
ومہربانی کرنے کے سبب آپ مشائخ وصوفیاکی تاریخ وسیرت سمیت پورے عالم
انسانیت میں ’’غریب نواز‘‘کے معززوممتاز لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔مرزاداغ
دہلوی نے کیاخوب کہاہے
لائی ہے مجھے امید کرم اس خاک کی اور اس در کی قسم
آیا ہوں پئے حاجت طلبی سلطان الہند غریب نواز
فریاد تمہیں سے ہے میری تکلیف سہی کیسی کیسی
ہو داد طلب کی داد رسی سلطان الہند غریب نواز
سرکار غریب نواز علیہ الرحمہ کی عطا،بخشش، فیاضی اوردریادلی کایہ عالم
تھاکہ کبھی کوئی سائل آپ کے در سے محروم نہیں جاتا۔آپ کے لنگر کھانے میں
روزانہ اتنا کھاناتیار کیاجاتاتھا کہ شہر کے تمام غرباومساکین خوب سیر ہوکر
کھاتے ۔خادم حاضر،بارگاہ ہوکر جب یومیہ خرچ کا مطالبہ کرتاتو آپ مصلیٰ
کاایک گوشہ اٹھا کر فرماتے ’’جس قدر آج کے خرچ کے لیے ضروری ہو لے لو۔‘‘آپ
کے دربار سے یتیموں ،مسکینوں ،ضرورت مندوں کی کفالت کی جاتی ،درویشوں
اورمستحقین کو وظیفہ دیاجاتا۔آپ بھوکوں کو کھانا کھلاتے، بیواؤں کی خبر
گیری کرتے، مظلوموں کوسہارادیتے ،زیردستوں کو زبردستوں کے پنجۂ استبداد سے
چھڑاتے، بڑوں کاادب ،چھوٹوں پر شفقت فرماتے۔ آپ غریب نوازی ،فقر وغنااور
زہد وعبادت میں یکتائے روزگار تھے،باوضو رہتے، عشاء کے وضوسے نماز فجر
اداکرتے، پوری پوری رات عبادت الٰہی میں مصروف رہتے، سفرہویاحضر ہرروز دو
بار قرآن شریف ختم فرماتے، روٹی کے خشک ٹکڑوں پر روزہ افطار کرتے۔آپ کے
اخلاق حسنہ سے متاثرہوکر اور چرچہ سن کر ہندوستان کے مختلف علاقوں سے لوگ
آپ کی بارگاہ میں عقیدت سے حاضر ہوتے ،جو ایمان لاتا اسے مشرف باسلام
فرماتے ،جونہ لاتا، اس سے مزاحم نہ ہوتے بلکہ تواضع سے پیش آتے اور مؤ ثر
انداز میں اسے وحدانیت کی دعوت دیتے ۔یہی وجہ ہے کہ مسلم وغیرمسلم ،خویش
وبیگانہ سب آپ سے محبت رکھتے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے کہ مختلف قوموں کے
لوگ بصد خلوص واحترام کے آپ کے روضۂ مطہرہ پر حاضر ہوتے ہیں اور من کی جائز
مرادیں پوری کرتے ہیں۔بس خلوص وعقیدت شرط ہے، بصورت دیگررات ودن مزار پاک
پر گڑگڑانے والے نابینادرویشوں کو آنکھیں نہ ملی اور جب صدق دل سے طلب
کیاتو بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ کی زیارت بارگار غریب نواز سے
پہلے پہلے آنکھوں کی بینائی لَوٹ آئی۔
خواجۂ ہند سرکار غریب نواز علیہ الرحمہ پڑوسیوں کے حقوق کا بڑاخیال فرماتے
،اہل محلہ میں سے کسی کا انتقال ہوجاتاتو جنازہ میں شرکت فرماتے اور قبر کے
پاس بیٹھ کر مرنے والے کے حق میں دعائے مغفرت کرتے۔آپ بڑے ہی
حلیم،بردبار،متحمل مزاج، متین اور سنجیدہ تھے ،غصہ کرنے اور انتقال لینے کی
بجائے آپ ہمیشہ عفودرگزر سے کام لیتے۔ایک مرتبہ ایک شخص آپ کو قتل کرنے کے
لیے آیا،کشف کے ذریعے آپ کو قاتل کے مقصد کا علم ہوا،آپ نے اسے اپنے پاس
بٹھا کر کہا’’جس ارادے سے آئے ہو، اسے پورا کرو‘‘۔وہ شخص یہ جملہ سن کر
حیران ومبہوت رہ گیااور قدموں میں گر کر معافی مانگی ،کلمہ طیبہ پڑھااور
پینتالیس مرتبہ حج وزیارت کا شرف حاصل کیا،آخر میں خانۂ کعبہ کے مجاوروں
میں شامل ہوگیا اور خوش قسمتی سے مقدس سرزمین اس کا مدفن بنی۔ |