عطائے رسول سلطان الہند ’’ غریب نواز‘‘حضرت خو ا جہ معین
الدین چشتی اجمیری سنجری رحمۃاﷲ علیہ ماہ ذِی الحجہ 583ھ۔1187ء مکہ مکرمہ
کی حاضری کے بعد مدینہ طیبہ اپنے محبوب ﷺ کی بار گاہ میں پہنچتے ہیں وہاں
رسول کریم ﷺ نے آپ کو اپنے دیدار سے مشرف فرمایا اور ایک نظر میں مشرق سے
لیکر مغرب تک سارے عالم کو دکھایا اور ہندوستان میں دین اسلام کی تبلیغ کا
حکم فر ما یا۔خوا جہ ’’ غریب نواز‘‘ نے حکم کی تعمیل فر مائی اپنے ساتھ اور
چالیس اولیا ئے کرام کو لیکر بغداد ہوتے ہوئے لاہور سے ہوکر دہلی تشریف
لائے لمبے سفر سے آپ کے پیروں میں سوجن اور چھالے پڑ گئے تھے ، اسوقت آپ کی
عمر تقر یباً چالیس سال تھی۔آپ نے دہلی میں را جہ کھانڈے راؤ کے محل کے
سامنے ایک مندر کے پاس قیام فر مایااپنی مو منانہ بصیرت و اعلیٰ اخلاق
کریمانہ سے لو گوں کو سادہ اور سیدھی نصیحتیں دینے لگے۔ کھانڈے راؤ کے کاری
گروں اور بہت سے راجپو توں نے آپ کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام قبول
کر لیاپھرآپ نے یہ ذمہ داری اپنے خلیفہ حضرت قطب الد ین بختیار کاکی رحمۃاﷲ
علیہ کے سپرد کر کے آپ587ھ1190ء کو اجمیر تشریف لے آئے۔دین اسلام کے
پھیلانے میں آپ کی جد و جہد کی بہت بڑی داستان ہے، جس پر ضخیم کتا بیں مو
جود ہیں،اور آپ کی بے شمار کرا متیں ہیں جن پر کتا بیں مو جود ہیں میرا
مقصد ہے آپ کی مو منانہ بصیرت اور اخلاق کریما نہ پر مختصر روشنی ڈالنا،جو
آج کی اہم ضرورت ہے۔آج جو ان کے نام کی روٹیاں کھا رہے ہیں وہ بھی مو منانہ
بصیرت سے دور واخلاق سے خالی ہیں، بزر گوں کی سیرت ہما رے لئے مشعل راہ ہے
اس پر عمل کر کے ہی ہم سچے پکے مسلمان بن سکتے ہیں۔
بصیر ت او ر مومِن لا زم و ملزوم:ارشاد باری تعالیٰ ہے (القر آن،
سورۃالانفال۸، آیت۲۹)تر جمہ: اے ایمان والو! اگر تم اﷲ کا تقویٰ اختیار
کروگے(تو) وہ تمھارے لئے حق و باطل میں فرق کر نے والی حجت(وہدایت) مقرر فر
مادے گا اور تمھارے (دامن) سے تمھارے گناہوں کو مٹا دے گا، اور اﷲ بڑے فضل
والا ہے۔تقویٰ (اﷲ سے ڈر) کی خا صیت ہے کہ وہ انسان کو ایسی سمجھ عطا کر
دیتا ہے جو حق اور ناحق میں تمیز کر نے کی اہلیت رکھتی ہے اور گناہ کی ایک
خاصیت یہ ہے کہ وہ انسان کی عقل خراب کر دیتا ہے جس سے وہ اچھے کو برا اور
برے کو اچھا سمجھنے لگتا ہے۔جو اﷲ سے ڈرے اور اس کے حکم پر چلے تو اﷲ تعالیٰ
اسے تین خصو صی انعام عطا فر مائے گا۔ پہلا اسے فرقان(حق و باطل میں فرق کر
نے) والا علم عطا فر مائے گا یعنی فراست ایمانی دل کو ایمانی نور عطا فر
مائے گا،مو من کی فراست ایمانی کے بارے میں حدیث مطالعہ فر مائیں۔حضرت ابو
امامہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا’’اِتَّقُوْا
فَرَا سَۃَالْمُوْ مِنِ فَاِ نَّہ‘یَنْظُرُ بِنُوْ رِاللَّہِ‘‘مومن کی
فراست ایمانی سے ڈرو وہ اﷲ کے نور سے دیکھتا ہے۔( تر مذی، معجم، حدیث ۳۲۵۴)
خواجہ غریب نواز کی دینی بصیرت اور انا ساگر:ا ﷲ رب ا لعزت نے خواجہ غریب
نواز رحمۃاﷲ علیہ کو بصیرت کی دولت سے مالامال فر مایا تھا،اناساگر وہی انا
ساگر جو سلطا ن الھند خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃاﷲ کے کوزے میں سما
گیا یہ بہت مشہور واقعہ ہے۔اجمیر میں واقع ایک مصنوی جھیل ہے جسے پر تھوی
راج چوہان کے دادا اناجی چوہان نے1135ء سے1150 ء کے دوران بنوایا تھا،ساگر
ہندی میں سمندر کو کہتے ہیں اسے اناجی چوہان نے بنوایا تھا اسی لئے اسکا
نام ’’انا ساگر ‘‘ہوا ہندوستان کی چند خوبصورت جھیلوں میں سے ایک ہے۔ ایک
بار آپ نے اپنے خادم کو پانی لانے کو کہا جب خا دم انا ساگر پہنچا تو دیکھا
کہ وہاں راجپوت سپاہیوں کا پہرہ ہے جب خا دم نے پانی لینا چاہا تو سپاہیوں
نے کہا تم یہاں سے پانی نہیں لے سکتے خادم نے واپس آکر ساری صورت حال خواجہ
غریب نواز کی بار گاہ میں گوش گزار کی اس پر آپ نے فر مایا یہ میرا کو زہ
لے جاؤ اور ان سے کہو ہم زیا دہ پانی نہیں لیتے صرف یہ کوزہ بھر نے کی
اجازت دے دو۔ خا دم کوزہ لیکر وہاں پہنچا اور اجازت طلب کی سپا ہیوں نے
سوچا ایک کوزہ ہی تو ہے لیجا نے دو انھوں نے اجازت دے دی اور ساتھ میں یہ
بھی کہا کہ بس یہی کوزہ اس کے بعد پانی لینے نہ آنا جب خادم نے کوزہ پانی
میں ڈالا تو13 کیلو میٹر پر پھیلا انا ساگر کوزہ میں سما چکا تھا۔ خواجہ
غریب نواز نے اپنے کوزہ میں انا ساگر کے سارے پانی کو سمیٹ کر اپنی کرامت
کا سکہ دلوں بیٹھا دیا ، چا روں طرف ہا ہا کار مچ گیا لوگ اور جانور پیاس
سے پریشان ہونے لگے آپ نے پھر وہی پانی اﷲ کی مخلوق کی ضرو رتوں،پیاس بجھا
نے کے لئے انا ساگر میں واپس کر دیا آپ کے اس عمل سے وہاں کے لوگوں میں آپ
کی رحم دلی کا سکہ بیٹھ گیا(دشمنوں کو پیاسا مار ڈالنا تو لوگوں کا وطیرہ
رہا ہے) اس واقعہ کے بعد لوگ جوق در جوق اسلام قبول کر نے لگے آپ کی رحم
دلی نے لو گوں کے دلوں کو اپنی طرف اور اسلام کی طرف متوجہ کیا، یہ ہے مو
من کی بصیرت بہت سے واقعات ہیں جن سے ہمیں سبق لینا چاہیے۔خواجہ غریب نواز
کی غریب نوازی سے میں بھی ما لامال ہو جاؤں آپ کی بار گاہ میں استغا ثہ پیش
ہے۔
میرا بگڑا وقت سنوار دے ٭ میرے خواجہ مجھ کو نواز دے
تری اک نگاہ کی بات ہے میری زندگی کا سوال ہے
بڑے بڑے سلطان زمانہ آپ کی بار گاہ میں حاضری دے کر اپنے لئے خزانہ سمیٹتے
ہیں آپ اپنے بیگا نوں سب کو دینی ودنیا وی دوخزانوں سے مالامال فر ماتے
ہیں۔پر تھوی راج نے آپ پر بے شمار مظالم کے پہاڑ توڑے لیکن قربان جائیے آقا
ﷺ کے فر مان پر کی ہندوستان جاکر اسلام پھیلاؤ اس حکم پر آپ نے کتنے صبرو
استقلال سے عمل کیا ۔پر تھوی راج نے حکم دیاکہ اجمیر سے نکل جاؤ،18 ہزار
عالمین کا مشاہدہ فر مانے والے خواجہ غریب نواز نے اپنی مو منانہ بصیرت سے
مو منانہ جلال میں آکر پر تھوی راج کے بارے میں فر مایا’’ میں نے پر تھوی
راج کو زندہ سلامت لشکراسلام کے سپرد کیا‘‘ آپ کا فر مان سو فیصد صحیح ثابت
ہوا تیسرے ہی روز فاتح ہندوستان شہاب الدین غوری کے لشکر نے ہندوستان پر
لشکر کشی اور پر تھوی راج کے لشکر سے زبر دست جنگ کی اور فتح حاصل کرکے پر
تھوی راج کو گرفتار کر کے واصلِ جہنم کیا اسی لئے آپ کو ہندوستان و پا
کستان کا اصل باد شاہ کہا اور مانا جاتاہے۔
خوا جہ غریب نواز کا اخلاقِ کریمانہ:جب سے دنیا قائم ہے اسوقت سے آج تک ہر
دور میں کسی نہ کسی علاقے میں کوئی اﷲ کابندہ ایسا ضرور ہو تا رہا ہے جس نے
انسانوں کی سیرت و کردار کی تعمیرکی اور محبت کا پیغام دیا اﷲ کے نیک بندوں
نے انسانوں کو ہمیشہ اخلاقی تعلیم سے سرفراز کیا اِن میں حضور خوا جہ غریب
نواز رحمۃاﷲ علیہ بھی صفِ اول میں نظر آتے ہیں اسلام اپنی اخلاقی تعلیمات
کی وجہکر پھیلا اور پھیلتے رہے گا آنے والی صبح قیا مت تک۔ جنگ بدر کے
قیدیوں سے حسن سلوک ہو یا فتح مکہ کے بعد دشمنوں کو عام معافی دینا اور
صوفیا ئے کرام کی اخلاقی قدروں نے اسلام کو پھیلانے میں نمایاں کر دار ادا
کیا بے شمار واقعات تا ریخ کے صفحات میں مو جود ہیں خوا جہ غریب نواز کے
اخلاق کریمانہ نے اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کیا ہر خاص وعام ہر
مذہب کے لو گوں پر آپ کا پیار ومحبت ،شفقت واخلاق کریمانہ کی مسلسل بارش ہو
تی رہی تبھی تو ہندوستان کے بت پرستی بھرے ماحول میں بھی لا کھوں لاکھ لو
گوں کا اسلام قبول کر لینا بہت بڑی بات ہے۔دلوں پر زبر دستی نہیں محبت سے
قبضہ کیا جاتا ہے یہ کا م صوفیاے کرام نے بخوبی کیا اور خوا جہ غریب نوازنے
بدرجہ اتم کیا تبھی توآپ کو غریب نواز جیسے اعلیٰ خطاب سے آج تک یاد کیا
جاتا ہے۔حدیث پاک میں ہے کہ سب سے افضل عمل حسن خُلق ہے اور سب سے بڑی
نحوست بد خلقی ہے،حسن خلق اور سخا وت سے ایمان مضبوط ہو تاہے اور بد خلقی و
کنجوسی سے کفر ترقی کرتا ہے ،انسان کا ظاہری لباس کپڑا ہے اور اندرونی لباس
حسن اخلاق ہے ۔ قیامت کے دن حضور نبی کریم ﷺ کے قریب وہ شخص ہو گا جو خوش
اخلاق ہو گا۔اخلاق کے بغیر انسان ایک حیوان ہے زندگی کے ہر شعبے میں حسن
اخلاق کی اہمیت ہے آقا ﷺ کا فر مانِ عالیشان ہے اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُ
تَمِّمَ مَکَا رِمَ الْاَ خْلاَ ق میں اخلاق کی تعلیم کو مکمل کر نے کے لئے
آیا ہوں۔(بخاری8939، مسند3660،بیہقی365،وغیرہوغیرہ)نبی،رسول، پیغمبر جیسے
عہدہ جلیلہ پر فائز ہوتے ہوئے بھی نبی رحمت ﷺ نے دشمنوں کو معاف فر مایا
بچوں،عورتوں،بوڑھوں پر شفقت فر مائی تو لوگوں نے جوق در جوق اسلام قبول
کیا۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اپنے ضعیف(بوڑھے) والد جو نا بینا تھے
نبی ﷺ کی بار گاہ میں بیعت کے لئے گود میں لیکر آئے تو آپ ﷺ نے فر مایا:
انھیں آپ نے کیوں تکلیف دی؟ میں خود ان کے پاس چلا آتا۔(حدیث) اﷲ رب ا لعزت
کی خوشنودی اور مخلوق میں ہر دل عزیز بننے کا شرف اس کو اﷲ عطا فر ماتا ہے
جو با اخلاق ہو۔ آپ غریب نواز رحمۃاﷲ علیہ خود دور دور تک دشوار گزار
راستوں پر چلتے ،میلوں سفر کرتے ،لو گوں کو اسلام کی دعوت دیتے ،لو گوں سے
اخلاق سے ملتے اور امیر ،غریب، بوڑھوں ،کمزوروں سب سے یکساں پیار بھرا سلوک
کرتے۔ جیسا کی حدیث پاک میں ہے رسولِ کریم نے ارشاد فر مایا:حضرت عبداﷲ بن
زبیر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کی اسماء بنت ابی بکر رضی اﷲ عنھما نے خبر
دی میری والدہ نبی ﷺ کے زمانہ میں میرے پاس آئیں، وہ اسلام سے منکر تھیں
میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟ نبی
ﷺ نے فر مایا کہ ہاں ، ا س کے بعد اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فر مائی
ْ (القرآن، سورہ الممتحنۃ ۶۰، آیت۸) تر جمہ: اﷲ تمھیں ان سے منع نہیں کر تا
جو تم سے دین میں نہ لڑے اور تمھارے گھروں سے نہ نکالا کہ ان کے ساتھ احسان
کرو اور ان سے انصاف کا بر تاؤ بر تو، بیشک انصاف والے اﷲ کو محبوب
ہیں،۔(کنزالایمان) (بخاری،حدیث5978, اور بھی حد یثیں ہیں) یعنی جو غیر مسلم
مسلمانوں سے نہ جنگ کرتے ہیں، اور نہ انہیں کوئی اور تکلیف دیتے ہیں، ان سے
اچھا بر تاؤ اور نیکی کا سلوک اﷲ تعالیٰ کو ہر گز ناپسند نہیں ہے، بلکہ
انصاف کا معا ملہ کر نا تو ہر مسلم اور غیر مسلم کے ساتھ واجب ہے۔آپ کے حسن
سلوک اور محنت شاقہ سے ہی ہندوستان میں اسلام پھیلا آپ کی سیرت ہمارے لئے
مشعلِ راہ ہے۔افسوس آج ان کے نام کی خا نقا ہیں سجائے موٹے موٹے گدوں مسند
وں میں براجمان لوگ ان کی تعلیمات پر کتنا عمل کر رہے ہیں یہ بتانے کی
ضرورت نہیں ڈاکٹر اقبال نے اسی مناسبت سے کہا ہے کہ
نذرانہ نہیں سود ہے پیران حرم کا ٭ ہر خرقۂ سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد ٭ زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
یہ ان سے محبت نہیں یہ تو عداوت ہے افسوس ان پر بھی ہے جو آج خوا جہ غریب
نواز رحمۃاﷲ علیہ کے کشف وکرا مات اور دین اسلام کی اشاعت میں انکی خد مات
کے منکر ہیں،دونوں مجرم ہیں اﷲ کے وہاں پکڑے جائیں گے ضرورت اس بات کی ہے
موجودہ ملکی حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے براد رانِ وطن سے بھی اخلاقی
رابطہ بڑھائیں ان کو اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کریں یہ ہمارا دینی فریضہ
بھی ہے اور ان کے سامنے اخلاق کا پیکر بن کر اسلامی تعلیمات ان تک پہنچا
ئیں ، خود بھی اسلام پر عمل کریں تبھی اسلام کا مسلما نوں کا بھلا ہو گا
اور امن وامان قا ئم ہو گا اﷲ تعالیٰ ہم تمام مسلما نوں کو خوا جہ غریب
نواز رحمۃاﷲ علیہ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی تو فیق دے ،آمین ثم آمین۔ |