خواجۂ ہند وہ در بارہے اعلیٰ تیرا کبھی محروم نہیں
ما نگنے والا تیرا
تجھ کوبغدادسے حاصل ہوئی وہ شانِ رفیع دنگ رہ جاتے ہیں سب دیکھ کے رُتبہ
تیرا
جب سے تونے قدمِ غوث لیاہے سرپر اولیاء سر پر قدم لیتے ہیں شاہاتیرا
محی دیں غوث ہیں اورخواجہ معین الدین ہے ائے حسنؔ کیوں نہ ہو محفوظ عقیدہ
تیرا (مولاناحسن رضاخان بریلویؒ)
اولیاء کرام کاوُرودِمسعودبیشتراُن ہی مقامات وعلاقوں میں ہواکرتاہے جہاں
کفروشرک ،گمراہی،بدمذہبی،بے حیائی،دین حق سے دوری،سنت رسولؐ کے خلاف ورزی
اورمعصیت عروج پرہوایسی جگہوں پراولیاء اﷲ اپنے قدم رنجہ فرماکرلوگوں کے
قلوب واذہان میں سنتِ رسولؐ کوعام اورمحبتِ مصطفی ؐ کاچراغ روشن کرتے ہیں
اورکیوں نہ ہوں جبکہ ان کامقصدزیست ہی یہی ہے،ان کی زندگی کامقصدالحب فی
اللّٰہ والبغض فی اللّٰہ ہے،اسی سلسلۃ الذہب کی ایک اہم کڑی سلطان
الہند،عطائے رسول ،نائب رسول اﷲ فی الہند ،خواجۂ خواجگان حضرت خواجہ معین
الدین حسن ،چشتی ،سنجری ،اجمیری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ذات بابرکات ہے۔
سرکارغریب نوازؓ موجودہ افغانستان میں قندھارسے جانب غرب میں خراسان کے ایک
گاؤں سنجرمیں۱۴؍رجب المرجب ۵۳۷ھ میں پردۂ عدم سے منصہ شہودپرجلوہ گرہوئے
آپ نجیب الطرفین سیدہیں۔آپ کے والدماجدکااسم شریف حضرت غیاث الدین حسن
ہے۔والدۂ محترمہ کانام بی بی اُم الورع ہے اوربی بی ماہ نورسے مشہورتھیں
اسی لئے آپ ؓکا والدماجدکی طرف سے سلسلۂ نسب حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ تک اوروالدہ ٔ محترمہ کی طرف سے سیدنا حضرت امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
تک جاملتاہے۔آپ کے والدماجدحضرت غیاث الدین علیہ الرحمہ انتہائی متورع
اوریکتائے روزگارصوفی بزرگ تھے اسی طروالدہ محترمہ حضرت بی بی اُمُّ الوَرع
ؒبھی عبادت وریاضت،زہدوتقویٰ میں یکتائے روزگارتھیں۔ظاہرہے کہ والدین
خداترس اورتقویٰ وطہارت کے دھنی ہوں گے توبیٹابھی ملکوتی صفات کا حامل ہوگا
اوراس سے خیروبرکت کاہی ظہورہوگاچناچہ آپ کی والدہ ٔماجدہ ایام حمل کے
برکات کاذکرکرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ جس وقت میرانورنظر،لخت جگرمعین الدین
میرے شکم میں آیاتومیراساراگھرخیروبرکت سے بھرگیا،ہمارے دشمن بھی شفقت
ومحبت سے پیش آنے لگے،کبھی کبھی مجھے بہترین خواب نظرآتے اورجس وقت میرے رب
نے آپ کے جسم اطہرمیں جان ڈالی تواس وقت سے معمول ہوگیاکہ آدھی رات سے صبح
تک میرے شکم سے تسبیح وتہلیل کی آواز آتی تھی میں اس مبارک آوازمیں گم
ہوجایاکرتی تھی اورجب آپؓ کی ولادت باسعادت ہوئی تومیراگھرنورسے
بھرگیا۔سبحان اﷲ گویاسرکارغریب نوازرضی اﷲ تعالیٰ عنہ مادرزادوَلی تھے
جوشکمِ مادر سے ہی اپنی وِلایت کا اعلان کرتے ہوئے عالم وجودمیں قدم
رنجاہوئے۔آپ کے والدماجدحضرت خواجہ غیاث الدین چونکہ اپنے وقت کے رئیس
اورصاحب ثروت تھے اس لئے آپ کی نشونما،دولت وثروت کے سائے میں ہوئی
مگرتربیت کے لئے قدرت نے آپ کو ایسے ماں باپ کاآغوش عطا فرمایاتھاجس نے آپ
کوبچپن کے نامناسب عادات واطواراورلہولعب سے بازرکھااوردولت کی فراوانی سے
آپ کی طبیعت پرکوئی منفی اثرمرتب نہ ہوسکا۔ جب آپ سن شعورکو پہنچے تووالدین
کریمین نے آپ کے تعلیم کاآغاز کیااورچونکہ آپ کے والدماجدخودبھی ایک
جیدعالم اورنکتہ سنج فقیہ تھے اس لئے تعلیم کی ابتداء خراسان ہی میں
والدگرامی سے ہوئی اورپھر۹؍سال کی قلیل مدت میں والدین کے زیرسایہ آپ نے
ابتدائی تعلیم مکمل کرلی بعدہٗ خراسان ہی کے ایک مدرسہ میں داخل ہوکرتعلیمِ
اعلیٰ کے حصول میں مصروف ہوئے اورخدادادقوتِ حافظہ کی بدولت پندرہ سال کے
اندرجملہ مروجہ علوم کااحاطہ کرلیا۔
آپ کی عمرشریف جب ۱۵؍سال کی ہوئی تووالدماجدکاوصال ہوگیااورآپ سایۂ پدری سے
محروم ہوگئے پدرِبزرگوارکے وصال پرملال کاآپ کے قلب
اطہرپربڑاگہرااَثرپڑامگرآپ نے صبروشکرکادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑااورپائے
استقلال میں لغزش تک نہ آنے دی انتہائی ضبط وتحمل کے ساتھ کاروان حیات کو
آگے بڑھایاترکۂ پدری سے ایک باغ اورایک پن چکی ملی تھی جسے آپ نے ذریعۂ
معاش بنایااوریوں اوقات گزربسرہونے لگی ابھی آپ ماہ وسال کے اسی فکرانگیز
گردش میں تھے کہ والدہ ٔماجدہ کا بھی تارحیات ٹوٹ گیا اوروہ بھی واصل بحق
ہوگئیں۔اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔
والدین کریمین کی مفارقت کے بعدسرکارغریب نوازاپنے موروثی باغ کی آمدنی سے
زندگی گزارنے لگے ایک دن حسب معمول آپ اپنے باغ میں پانی دے رہے تھے کہ
ادھرسے ایک مجذوب حضرت ابراہیم قندوزیؒ کاگزرہواآپ نے ان کوباغ میں
بلایااورانتہائی عزت وتکریم کے ساتھ پیش آئے،میٹھے انگورکا ایک خوشہ بھی
لاکرپیش کیاحضرت ابراہیم قندوزی ؒنے آپ کی پیشانی پرچمکنے والے کوکبِ اقبال
کوتاڑلیاکہ یہ سبزہ آغاز نوجوان جوآج پھل فروٹ کے باغ کی آبیاری ونگہبانی
کررہاہے مستقبل میں گلستانِ اسلام کامحافظ ہوگااوراسلام کی شجرہ ٔطیبہ کی
آبیاری کرے گا،جیب سے سوکھی روٹی کاٹکڑانکالااَوراُسے چباکرآپ کے منہ میں
ڈال دیاجسے نگلتے ہی آپ کے دل کی دنیابدل گئی،باغ سے گھرواپس آئے توقلب
اطہرمیں ایک عجیب ہیجان اورمعرفت خداوندی کے حصول کی تڑپ تھی جس نے عیش
وتنعم اورسکون وقرارکوچھین لیا،رات کسی طرح گزری صبح ہوتے ہی اُٹھے اوراپنی
تمام املاک وجائدادفروخت کرکے فقراء ومساکین میں تقسیم کردیااورپھرمعرفتِ
الٰہی کے حصول کے لئے خراسان سے نکل پڑے،چنانچہ آپ نے تصوف میں قدم رکھنے
سے پہلے علم شریعت سے آگاہی ناگزیرخیال کرتے ہوئے بخارا،سمرقندکی جانب رُخ
کیااورتقریبا۲۰؍سالوں تک حصول علم ِشریعت میں مصروف رہے یہاں تک کہ
حدیث،فقہ،تفسیرواصول تفسیرکے ساتھ جملہ علوم مروجہ ومتداولہ میں مہارت تامہ
حاصل کرلیا،آپ کے اساتذہ ٔ کرام میں حضرت مولاناحسام الدین بخاریؒ اورصاحب
شرع الاسلام مولاناشرف الدین ؒجیسی نابغہ ٔ روزگارہستیوں کے اسماء قابل
ذکرہیں ۔ جب آپ علوم ظاہری کی تکمیل فرماچکے تو اپنی روحانیت کوجلادینے
اوراس میں نکھارپیداکرنے کے لئے مرشدکامل کی تلاش میں نکلے اورحرمین شریفین
ودیگرمقامات مقدسہ کی زیارت کرتے ہوئے علاقہ ٔ ’’ نیشاپور‘‘میں ’’قصبہ
ہارون‘‘ جا پہنچے جہاں اس دورکے قطب ارشاد،غواص بحر معرفت حضرت خواجہ عثمان
ہارونی علیہ الرحمہ مسندرُشدوہدایت پرجلوہ بارتھے اورآپ کے فیضان کابادل نہ
صرف قصبۂ ہارون بلکہ اطراف وجوانب میں بھی جھماجھم برس رہاتھاسرکارغریب
نوازؓ بارگاہ عثمانیؒ میں پہنچ کرشرفِ بیعت سے مشرف ہوگئے۔آپ کے
پیرومرشدحضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ نے مریدکرنے کے بعدخواجہ غریب نواز
کواپنی خدمت میں رکھ لیاسرکارغریب نواز قدس سرہ العزیز مکمل بیس سال مرشد
گرامی کی معیت میں اس طرح گزاردیے کہ کبھی ایک گھڑی کے لئے بھی مرشد سے
جدانہیں ہوئے مرشدطریقت جب بھی سفرپرروانہ ہوتے توآپ اُن کابستراستراحت
توشہ اوردیگراشیاء اپنے سرپرلادے ہوئے ہمراہ چلتے غرضیکہ آپ نے مرشدگرامی
کی خدمت کے ایسے آداب بجالائے جس کی نظیرنہیں ملتی اسی خدمت گزاری کایہ
نتیجہ تھاکہ شیخ کی خاص نگاہ ِلطف وکرم کے سزاوارہوئے اور پھرتزکیۂ نفس کی
جس منزل پرپہنچے وہ کسی عاقل سے پوشیدہ نہیں ہے۔حضرت خواجہ عثمان ہارونی
علیہ الرحمہ نے اپنے مرید صادق حضرت خواجہ غریب نواز ؓکومسلسل بیس سال تک
اپنی خدمت میں رکھ کرجب ولایت ومعرفت کے تمام منازل طے کرادیئے توایک سعید
ساعت میں خلافت واجازت سے بھی نواز دیا۔آپ مرشد گرامی سے جداہوکرمشاہدۂ
عالم واولیاء امت کی زیارت کی غرض سے سفر کاآغازفرمایااس سفرمیں بہت سارے
مقامات مثلا
اوش،اصفہان،حرمین،طیبین،سمرقند،بخارا،بغدادشریف،جیل،ہمدان،تبریز،استراآباد،حصار،بلخ،کرمان
وغیرہ کی سیاحت فرمائی۔ سرکارغریب نوازؓعالم رویا میں سرکارمدینہ ﷺ کی
زیارت سے مشرف ہوئے توحضورپاک ﷺنے آپ کوایک ہی نظرمیں شرق سے غرب تک
ساراعالم دکھادیا،جب آپ بیدارہوئے توحکم نبوی ؐکی تکمیل میں ہندوستان کے
لئے پابہ رکاب ہوئے پھربغدادشریف،بخارا،لاہورہوتے ہوئے دہلی پہنچے اوردہلی
سے اجمیرکے لئے کوچ کیا۔ سرکارغریب نوازقدس سرہٗ نے اپنے تبلیغی مشن
کامرکزچونکہ دارالخیراجمیرشریف کوبنارکھاتھااس لئے آپ نے زندگی کے
بیشترلمحات اجمیرمقدس میں رہ کرخدمتِ دین متین میں صرف کیااورپھراپنی بے
لاگ کوششوں سے کفروضلالت کی تیرہ شبی میں حقانیت وصداقت کاوہ آفتاب طلوع
کیاجس سے سارازمانہ منورودَرخشاں ہوگیا۔آپ کی خانقاہ سے رُشدوہدایت کے وہ
چشمے پھوٹے جن سے کشمیرسے لے کرکنیاکماری تک اورمالابارکے ساحل سے لے
کربنگال کی کھاڑی تک ہرخطۂ ہندوستان سیراب ہوگیابلآخروصل حبیب کی گھڑیاں
قریب آگئیں اورعشق ومحبوب کاسوزوسازبڑھ گیاحیات مستعارکے آخری لمحات موت
کویادکرنے اوراحباب کونصیحت کرنے میں صرف ہونے لگے چنانچہ زندگی کے آخری
ایام کی ایک مجلس کاذکرکرتے ہوئے حضرت خواجہ قطب الدین بخیارکاکی علیہ
الرحمہ فرماتے ہیں کہ:جمعرات کادن تھااوریہی آخری صحبت تھی اجمیرکی جامع
مسجد(ڈھائی دن کاجھوپڑا)میں قدم بوسی کاشرف حاصل ہوااہل اﷲ معززین اورعقیدت
مندسبھی موجودتھے ملک الموت پربات چلی ارشادہوا:ملک الموت کے بغیردنیاکی
کیاقیمت ہے لوگوں نے دریافت کیاکہ ایساکیوں ہے؟ ارشادہوا:حدیث پاک ہے
’’الموت جسریوصل الحبیب الی الحبیب-یعنی موت ایک پل ہے جودوست کودوست سے
ملاتاہے‘‘۔اسی موقع پرارشادہواکہ: دوستیٔ حق کے معنیٰ یہ ہیں کہ اسے دل سے
یادکیاجائے اس نے دل پیداکئے ہیں تودل کے گردطواف کیاجائے کیوں کہ محبت
الٰہی کادستوریہی ہے۔اﷲ رب العزت اپنے بندوں سے مخاطب ہوکرفرماتاہے کہ جس
وقت میراذکرتجھ پرغالب ہوجاتاہے تومیں تیراعاشق ہوجاتاہوں اورعشق سے
مرادمحبت ہے۔اسی نششت میں یہ بھی فرمایاکہ اﷲ والے آفتاب کی طرح ہیں اُن
کانورتمام کائنات پرنظررکھتاہے اوراُنہیں کی ضیاپاشیوں سے ہستی کاذرہ ذرہ
جگمگارہاہے۔حضرت خواجہ غریب نوازؓ یہ فرماکررونے لگے کہ اس سرزمین پر مجھے
جوپہنچایاگیاہے تواس کی وجہ یہی ہے کہ یہیں میری قبربنے گی چندروزاورباقی
ہیں پھرسفردرپیش ہے۔
آپ ؓ نے تبلیغ اسلام کے لئے اپنے خلفاء اورریاضت پسندمریدوں کی ایک متحرک
وفعال ٹیم کواکناف ہندمیں پھیلادیاان خلفاء ومریدین میں جس نے جدھرکارُخ
کیاادھرسے جہالت کی تاریکیاں کافورہوتی چلی گئیں اورپھران خلفاء نے بھی
اپنی مساعیٔ جمیلہ سے رُشدوہدایت کے ایسے ایسے ماہ نجوم پیداکئے جن کے
ذریعہ ہندوستان کاچپہ چپہ چشتی فیضان میں نہانے لگاوہ چاہے حضرت فخرالدین
گنج شکرؒہوں یامحبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاءؒ،مخدوم حضرت عبدالحق
رودولویؒ ہوں یاحضرت مخدوم سمنان کچھوچھویؒ ،شاہ مینالکھنویؒہوں یاحاجی
وارث علی شاہ یہ سب اپنے عہدمیں اُفق ولایت پرشمس وقمربن چمکے اورسبھی
بالواسطہ یابلاواسطہ سرکارغریب نوازؓ کی بارگاہ کے خوشہ چیں ہیں اورسبھوں
کاقبلہ نمااجمیرمقدس ہے۔
عطائے رسول سرکارغریب نوازؓ اگرچہ بظاہرنہ کسی سلطنت کے فرمارواتھے نہ جاہ
وحشم کے مالک تھے محٖض بے سروسامانی آپ کاسرمایۂ زندگی اورالفقرفخریتاج
شاہانہ تھا،لیکن گدڑی میں لعل کے مصداق تھے اﷲ تعالیٰ نے آپ کووہ بلندمقام
عطافرمایاتھاجس میں آپ منفردالمثال تھے ،اگرایک طرف سلاطین زمانہ آپ کے قدم
ناز پرسرِنیازخم کرنے میں فرحت وانبساط کی لہرمحسوس کرتے ،تودوسری طرف
اَکابراولیاء خاکِ درِخواجہ کوسرمۂ بصیرت اورتاج عزت تصورکرتے، غرض کہ
امیرہویاغریب بادشاہ ہویاگداگرباطنی تصرف رکھنے والے اولیاء کاملین ہوں
یاظاہری جاہ وجلال رکھنے والے اہل اقتدارسبھی آپ کی بارگاہ میں
حاضرہوکرقلبی سکون حاصل کرتے رہے اورآپ کاچشمۂ فیضان سبھوں کوسیراب کرتارہا۔
آپ ؓنے اجمیرمقدس میں چالیس سال تک خدمت دین متین کافریضہ انجام
دیااورپھر97؍سال کی عمرمیں 6؍رجب المرجب ۶۳۳ھ مطابق ۱۶؍مارچ1236ء دوشنبہ
کی شب میں اس دارفانی سے رحلت فرماگئے بعدوصال لوگوں نے دیکھاکہ آپ ؓکی
جبین مبارک پریہ غیبی تحریرمنقول ہے’’ہٰذاحبیب اللّٰہ مات فی حب اللّٰہ‘‘آپ
کے دست حق پرسست پرتقریبا90؍لاکھ سے زائدلوگوں نے اسلام کوقبول
کیا۔نمازجنازہ آپ کے بڑے صاحب زادے حضرت خواجہ فخرالدین ؒچشتی نے پڑھائی
اوراسی حجرہ میں آپ مدفون ہوئے جس میں آپ کاوصال ہواتھا۔(سیرت خواجہ غریب
نواز،انیس الارواح)
اورآج بلافرق مذہب وملت لوگ آپ کی بارگاہ ولایت میں حاضری دیتے ہیں اوراپنی
منتیں ومرادیں مانگتے ہیں اوراپنی جھولیابھرکرواپس لوٹتے ہیں۔بارگاہ رب
العزت میں دعاگوہوں کہ تاقیامت آپ کافیضان مسلمانان عالم پرجاری وساری
فرما۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ؐ۔ |